وادی کشمیر میں کئی سال قبل مٹی کے برتن بنانے کا سلسلہ عروج پر تھا، لیکن دور جدید میں مٹی کے برتن بنانے کے پیشے سے وابستہ افراد کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ وادی کشمیر ایک ایسی جگہ ہے جسے اپنے روایتی فنون اور دستکاری کے لیے جانا جاتا ہے اور مٹی کے برتنوں کا شمار نامور دستکاریوں میں ہوتا ہے۔
وادی میں دن بہ دن مٹی سے بنے برتنوں کو روزمرہ کے استعمال میں جگہ بنانا مشکل ہو جاتا ہے، کیونکہ لوگ ان دنوں پلاسٹک یا سٹیل کے برتنوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس سے نہ صرف وادی کشمیر میں روایتی طرز زندگی کو تبدیل کر دیا ہے بلکہ روایتی کمہاروں کو بھی مشکلات سے دوچار کردیا جنہوں نے مٹی کے برتنوں کی آبائی وراثت کو زندگی گزارنے کی جدوجہد کے لیے آگے بڑھایا۔
وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع کے باروالا، کنگن کے رہنے والے 75 سالہ عبد الاحد کمار نے بتایا کہ مٹی کے برتنوں کا کام زمانے سے ہمارے خاندان کا آبائی پیشہ رہا ہے۔ لہذا میں نے یہ کام بچپن سے ہی کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "اگر ہم بازار میں مٹی کے برتنوں کی ان مصنوعات کی مانگ کے بارے میں بات کریں تو آج کل ہم مٹی کے ایسے برتن بناتے ہیں جو کانگڑی (آگ کا برتن) اور تمبھکناری (کشمیری موسیقی کے آلے) میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ مصنوعات اس وقت مارکیٹ میں مانگ میں ہیں اور آج ہمارے لیے آمدنی کا اہم ذریعہ ہیں۔
عبد الاحد نے وہ پراڈکٹس بھی بتائے جو کشمیری گھرانوں میں باقاعدہ استعمال ہوتے تھے لیکن اب نہیں ہوتے ہیں۔ عبدالاحد کمار نے کہا کہ ’’جن مصنوعات کی فروخت بند ہو گئی ہے۔ ہم اب یہ مصنوعات نہیں بناتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تانبے اور سٹیل کے برتن جو متعارف کرائے گئے تھے بہت زیادہ استعمال کیے گئے ہیں۔ اس وجہ سے ہماری مصنوعات کی فروخت بند ہو گئی ہے۔
کمار نے کہا کہ ’’ہم کسی نہ کسی طرح مٹی کے برتنوں سے روزی روٹی کا انتظام کرنے کے قابل ہو گئے ہیں، لیکن بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ساتھ ہمارے لیے خاندانی اخراجات کا انتظام کرنا مشکل ہو گیا ہے۔