قومی آواز کے سابق سب ایڈیٹر مولانا رحمت اللہ فاروقی نے ۱۳؍ مئی ۲۰۲۲ء مطابق ۱۲؍ شوال ۱۴۴۳ھ شب جمعہ ۲؍ بجے اس دنیا کو الوداع کہا، نماز جنازہ اسی دن بعد نماز جمعہ فضل الٰہی مسجد منڈولی جوشی کالونی مشرقی دہلی میں ، ان کے بڑے داماد مولانا گوہر امام قاسمی امام شاہی سنگی مسجد پھلواری شریف پٹنہ نے پڑھائی، دو ماہ قبل اہلیہ نے آخرت کا سفر اختیار کرلیا تھا، اس لیے اب پس ماندگان میں تین لڑکیاں اور دو لڑکے عظمت اللہ تابش اور حشمت اللہ ہیں، بڑی لڑکی رافعہ صالحاتی امارت شرعیہ کے قاضی نور الحسن میموریل اسکول میں لڑکیوں کی تعلیم وتربیت پر بحیثیت معلمہ مامور ہیں، اور اچھی خدمت کر رہی ہیں، ایک لڑکی غیر شادی شدہ ہے، جب کہ عظمت اللہ تابش اردو صحافت اور حشمت اللہ تاریخ سے دلچسپی رکھتے ہیں اور اس میدان میں مطالعہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
مولانا رحمت اللہ فاروقی بن محمد سعید بن شیخ سعود (م ۲۰۰۱ء) بن شیخ نصرت ولادت ۲۳؍ اپریل ۱۹۵۳ء کو موجودہ ضلع سمستی پور کے گاؤں رحیم پور ٹولہ چاند چورمیں ہوئی، ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے اتر پردیش کی مختلف تعلیم گاہوں کا رخ کیاحفظ قرآن کان پور کے کسی مدرسہ سے کیا، پھر جامعہ فاروقیہ صبر حد جون پور تشریف لے گیے، ثانویہ تک کی تعلیم یہاں پائی، ۱۹۶۸ء میں مدرسہ عالیہ فتح پوری میں داخل ہوئے، نصاب کی تکمیل مدرسہ امینیہ دہلی سے کرنے کے بعد سند فراغ حاصل کیا۔
۱۹۷۰ء میں انہوں نے پنجاب یونیورسیٹی کے ذریعہ ادیب عالم اور ادیب فاضل، اور منشی فاضل بھی کیا، ۱۹۷۸ء میں وہ روزنامہ الجمعیۃ کے ادارتی عملہ سے منسلک ہو گئے، اس زمانہ میں ناز انصاری اس کے ایڈیٹر تھے، الجمعیۃ میں رہ کر انہوں نے ناز انصاری سے صحافت کے رموز سیکھے، ناز انصاری کہا کرتے تھے کہ مولانا فاروقی جیسا شریف النفس اور باریک بیں انسان میری نظر سے دوسرا نہیں گذرا۔
مولانا پانچ بھائیوں میں محمد عطاء اللہ مرحوم ، محمد ثناء اللہ ، محمد ضیاء اللہ اور حافظ محمد نصر اللہ سے چھوٹے تھے، آپ کی نانی ہال محمد پور کواری، تاج پور موجودہ ضلع سمستی پور تھی، نانا شیخ محمد نسیم صاحب تھے، شادی عبد الودودصاحب (م ۲۰۰۰) بن محمد اسحاق مرحوم ساکن ببھنگواں نزد کَبی بنگھرا سمستی پور کی دختر نیک اختر سے ہوئی تھی ۔
مولانا مرحوم کو صلاحیتوں اور اسناد کے بڑھانے کا بہت شوق تھا، چنانچہ انہوں نے علی گڈھ مسلم یونیورسیٹی سے انگریزی لے کر گریجویشن اور۱۹۸۷ء میں دہلی یونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے کیا، انگریزی سے اردو ترجمہ کرنے کی صلاحیت ان کی مضبوط تھی، فارسی میں بعض علمی کاموں میں وہ قاضی سجاد حسین صاحب کے مساعد رہے، ۱۹۸۷ء میں قومی آواز سے منسلک ہوئے، اور جب تک قومی آواز نکلتا رہا وہ پوری امانت داری کے ساتھ اس کی خدمت کرتے رہے، ۲۰۱۰ء میں انہوں نے معصوم مراد آبادی کی ادارت میں شائع ہونے والے روزنامہ ’’ جدید خبر‘‘ کو اپنی خدمت پیش کی اور نیوز ایڈیٹر کے طور پر برسوں کام کرتے رہے،وہ اپنی صحافتی صلاحیت اور خدمات سے اخبار کے عملہ اور مالکان کے محبوب نظر تھے، انہوں نے کئی لوگوں کی صحافتی تربیت بھی کی ، جو بعد میں نامور صحافی ہو گیے۔
صحافت کے علاوہ ان کی دلچسپی کا دوسر ابڑا میدان اردو کا فروغ تھا، اس کے لیے وہ خود بھی طلبہ کو اردو پڑھاتے ، اپنی جیب خاص سے کتابیں خرید کر دیتے ، اردو کے حوالہ سے ان کی خدمات کا دائرہ جُھگی جھونپڑی سے لے کر اعلیٰ افسران تک پھیلا ہوا تھا ، انہوں نے بہت سارے غیر مسلموں کو بھی اردو سے روشناش کرایا اور ان میں لکھنے پڑھنے کی صلاحیت پیدا کی، ان کو اس کام کی وجہ سے سچا مجاہد اردو کہا جا سکتا ہے۔
ان کو کام سے دلچسپی تھی، باتیں بنانا ، دوسروں کے گِلے شکوے کرنا انہیں نہیں آتا تھا، ان کی ذات میں بظاہر کوئی کشش نہیں تھی، مولویانہ وضع قطع کے ساتھ پہلی ملاقات میں وہ کسی کو متاثر نہیں کرتے تھے، اصل میں شخصیتیں دو قسم کی ہوتی ہیں، ایک وہ جوپہلی ملاقات میں ہی سامنے والے کے قلب وجگر پر چھا جاتی ہیں، ایسے لوگوں کو انگریزی میں ڈائنا مک پرسن کہتے ہیں، دوسری قسم ان لوگوں کی ہوتی ہے، جن کی شخصیت کا جادو پہلی ملاقات میں اثر انداز نہیں ہوتا، لیکن کچھ دن ساتھ رہنے پر ایسا اثر انداز ہوتا ہے، جس کو سر چڑھ کر بولنا کہتے ہیں، مولانا فاروقی کی شخصیت کا تعلق دوسری قبیل سے تھا ، جب کوئی ان کے ساتھ دو چار روز رہ لیتا تو ان کے اخلاق واقدار اور شفقت ومحبت کا ایسا اسیر ہوتا کہ اس سے نکلنا مشکل ہوجاتا۔
وہ خود شعر نہیں کہتے تھے، لیکن تُک بندی اور پیروڈی کرنا خوب جانتے تھے، ہزاروں اشعار ان کی حافظہ کی گرفت میں تھے اوروہ جب چاہتے اپنی تحریر اور گفتگو میں ان کا بر محل اور بر جستہ استعمال کرتے، اس طرح ہندی اور انگریزی الفاظ کے متبادل کی طرف بھی ان کا ذہن فورا منتقل ہوتا، ان کی اس صلاحیت سے ان کے رفقاء خوب فائدہ اٹھایا کرتے تھے۔
مولانا کے مزاج میں قناعت پسندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی وہ لوگوں کی مالی مدد بھی خوب کیا کرتے، کبھی کسی قرض دار سے واپسی کا تقاضہ کرتے اور وہ اپنا دکھڑا لے کر بیٹھ جاتا تو اسے مزید قرض دے دیتے۔
مولانا رحمت اللہ بڑی خوبیوں کے مالک تھے، انسانی اور مؤمنانہ صفات ان کی زندگی کا لازمہ تھا، موت تو وقت پر ہی آتی ہے اور عمر طبعی بھی ہو چکی تھی، لیکن بچھڑے نے پرجدائی کا غم توہوتاہی ہے بلکہ کسی کسی کی جدائی تو سوہان روح بن جاتی ہے، مولانا مرحوم سے جو لوگ قریب تھے ان کے لیے یہ غم سوہان روح ہے ۔ اللہ سب کو صبر دے اورمرحوم کی مغفرت فرمائے آمین ۔