اس وقت ہندوستان میں سماجی، سیاسی اور ملی خدمت کرنے والوں کے لئے مرکز تحقیق مسلمان ہیں، دشمنان اسلام مسلمانوں کو تہذیبی اعتبار سے ختم کرنے کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں، وہ اندلس اور اسپین کی تاریخ پر غور کر رہے ہیں کہ وہاں مسلمان سینکڑوں سال کی حکومت کے بعد کس طرح نیست ونابود کئے گیے، کئی لوگ، کئی ادارے اور تنظیمیں مسلمانوں کے مسلمہ عقائد اور پرسنل لا پر اعتراضات کرکے مسلمانوں کا درجۂ حرارت ناپنے کے لیے سر گرم ہیں-
اس کے لیے انہوں نے مختلف محاذ کھول رکھے ہیں، کوئی ناموس رسالت پر حملہ کرکے مسلمانوں کو ہراساں کرنے میں لگا ہوا ہے، کوئی سفر کے دوران بس و ٹرین میں مسلمانوں کا مذاق اڑانے اور اسے زد وکوب کرکے اس کے صبر کا امتحان لے رہا ہے، سیاسی حضرات کے یہاں بھی مسلمان ہی مرکز توجہ ہیں، کبھی ووٹ بینک کے طور ان کا استعمال کرنے اور کبھی مختلف کمیشن کے ذریعہ ان کے احوال جاننے، ان کی پس ماندگی کو سمجھنے اور مگر مچھ کے آنسو بہا کر ان کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے تگ ودو کی جارہی ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ مرکزی حکومت نے 29؍ اکتوبر 2004ء کو سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس رنگا ناتھ مشرا کی قیادت میں ’’قومی کمیشن برائے مذہبی اور لسانی اقلیتں‘‘ قائم کیا تھا، تاکہ سماجی، اقتصادی، اور لسانی اقلیتوں کی نشان دہی کرکے ان کے لئے رزرویشن کی تجویز پیش کی جا سکے ، اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ 21؍ مئی 2007ء کو حکومت کو پیش کر دیا، جس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ۱۹۵۰ء کے شیڈولڈ کاسٹ آرڈر سے مذہب کی قید ہٹالی جائے تاکہ ایس ، سی (SC) زمرے میں ہندو، بدھ اور سکھوں کے ساتھ مسلمانوں کی بھی شمولیت ہو سکے، اس کمیشن نے مسلم اقلیتوں کے لیے دس فی صد اور دیگر اقلیتوں کے لیے پانچ فی صد کی سفارش کی تھی ، کمیشن نے رزرویشن میں رخنہ پیدا ہونے کی صورت میں متبادل راستہ اختیار کرنے پر زور دیا تھا، اس کا کہنا تھا کہ او بی سی (OBC)کے لیے منڈل کمیشن نے 27فی صد رزرویشن کی بات کہی ہے، اس رزرویشن میں اقلتیں 27 فیصد کا 8.4فی صد ہیں ، اس لیے OBCکے تحت دیے جانے والے رزرویشن میںسے 8.4فیصدان کے لیے مختص کرنا چاہیے۔
اس رپورٹ کے نفاذ کے لیے حکومت مجبور نہیں تھی، اس لیے کہ اس نے اس کمیشن کو کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت نہیں بنا یا تھا، اس کمیشن نے انکشاف کیا تھا کہ سرکاری ملازمتوں میں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کی نمائندگی بہت کم ہے، بلکہ بہت سارے محکمے مسلمانوں سے خالی ہیںاوران میں مسلمانوں کی نمائندگی صفر ہے، اس رپورٹ کو صرف مغربی بنگال نے ریاستی طور پر نافذ کرنے کا اعلان کیا، لیکن کمیونسٹ حکومت کے تیس سالہ دور اقتدار میں مسلمانوں کے ساتھ کی گئی نا انصافی کے ازالے کی کوئی شکل نہیں بن سکی۔
9؍ مارچ 2005ء کو یوپی اے کی سرکار نے ایک نوٹی فیکیشن کے ذریعہ مسلمانوں کی سماجی اقتصادی اور تعلیمی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے جسٹس راجندر سنگھ سچر کی قیادت میں کمیٹی تشکیل دی ، یہ من موہن سنگھ کا دور وزارت تھا ، کمیٹی نے اپنی رپورٹ ۱۷؍ نومبر ۲۰۰۶ء کو وزیر اعظم کی خدمت میں پیش کیا اور انہوں نے ۳۰؍ نومبر کو پارلیامنٹ کے سامنے رکھا، اس رپورٹ کا بڑا چرچا رہا ، کمیٹی نے مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لیکر اس سمت میں جس اقدام کی ضرورت پر زور دیا۔
ان میں محروم طبقات خصوصا اقلیتوں کے لئے ’’یکساں مواقع کے حصول کا کمیشن‘‘ EQUAL OPRORTUNITY COMMISSIONکے قیام کی تجویز رکھی تھی ، کمیٹی کا خیال تھا عوامی اداروں میں اقلیتوں کی حصہ داری بڑھانے کے لیے نامزدگی کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے،اس نے اپنی رپورٹ میںاس بات پر بھی زور دیا تھا کہ ایک ایسا حد بندی کمیشن قائم کرنا چاہیے جو اس بات پر نگاہ رکھے کہ بڑی آبادی والے حلقوں کو (S.C)کے لئے رزرو نہ کیا جائے، کمیٹی کی رپورٹ میں اس بات کی وضاحت کی گئی تھی کہ مدارس کے نظام کو ہائر سکنڈری کی تعلیم سے مربوط کیا جائے ، اور مدارس کی اسناد کو دفاع ، سول اور بینکنگ اداروں کے امتحانات کیلئے تسلیم کیا جائے۔
اس کمیٹی نے مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال کا جائزہ لے کر بتایا کہ پورے ملک میں خواندگی کی شرح 64.8فی صد ہے، جس میں ہندوؤں میں 65.1،مسلمانوں میں 59.1اس سی اس ٹی میں 52.8اور دیگر 70.8فی صد ہیں۔ مختلف سرکاری محکموں کی ملازمتوں کا جائزہ لے کر اس کمیٹی نے بتایا کہ مسلمان آئی اے اس میں 3.0، پولس دفاعی اور حفاظتی عملوں میں 4.0محکمہ تعلیم (ریاستی )میں 6.5پولس کانسٹیبل میں 6.4محکمۂ ٹرانسپورٹ میں 6.5آئی اف ای میں 1.8انڈین ریلویزمیں 4.5محکمہ داخلہ (ریاستی)میں7.3محکہ صحت میں 4.5 عدلیہ میں 7.8فیصدہیں، یعنی 8فیصد بھی نہیں ہیں۔ جبکہ مطالبہ دس فیصد کا ہوتا رہا ہے۔
سچر کمیٹی کی سفارشات پر جزوی عمل در آمد کے بعد پروفیسر امیتابھ کنڈو کی قیادت میں اگست ۲۰۱۳ء میں حکومت نے ایک نئی کمیٹی بنائی تاکہ مسلمانوں کی آبادی ، بے روزگاری، طرز زندگی ،معیار زندگی ، پس ماندگی ، اوقاف کی جائیداوں ، عام تعلیمی پالیسی اور صحت کی صورت حال کا جائزہ لیا جا سکے، کمیٹی نے ۲۰؍ ستمبر ۲۰۱۴ء کو اپنی رپوٹ سرکار کو سونپ دی ، جس میں سچر کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں جو اقدامات کیے گیے، اسے ناکافی قرار دیتے ہوئے مزید اقدام کی ضرورت پر زور دیاگیا ،کمیٹی نے اپنی سفارشات میں لکھا ہے کہ جو اقدام مسلمانوں کے لیے کیے گیے وہ بھی ان تک براہ راست اور مؤثر انداز میں نہیں پہونچ سکے، ٹرینڈ افراد کی بحالی پر بھی توجہ نہیں دی گئی ، جن امور کی انجام دہی کے لیے سرکار مستعد تھی، اس کے لیے مسلمانوں کی طرف سے مطالبات کم آئے، اس لیے مقامی سطح پر اس ضمن میں کامیابی کا گراف بہت نیچے رہا، اس سلسلے میں مسلمانوں کو خود بھی جس طرح کی مستعدی دکھانی چاہیے تھی وہ دیکھنے میںنہیں آئی ۔
اس سلسلے میں مہاراشٹر کے لیے قائم محمود الرحمن کمیٹی کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے،جس میں مسلمانوں کو ہاؤسنگ پروجیکٹ ، تعلیمی اداروں اور سرکاری محکموں میں 8فیصد رزرویشن دینے، مسلمانوں کے کمزور طبقات کو OBCمیں مسلمان دلتوں کو شیڈولڈ کاسٹ کے زمرے میں شامل کرنے ،اقلیتی ترقیاتی محکموں کو مضبوط کرنے، ریاستی اقلیتی کمیشن کو بااختیار بنانے، وقف املاک کو ناجائز قبضوں سے آزاد کرانے،مسلمان طلبہ کے لیے پری میٹرک اور پوسٹ میٹرک وظائف کی شرطوں کو نرم کرنے، مسلم اکثریت والے علاقوں میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قائم کرنے اور ایس سی ، ایس ٹی کے طرز پر مسلمانوں کے تحفظ کے لئے قانون بنانے کی سفارش کی تھی،قانون تو بنا نہیں مسلمانوں کی جان ومال عزت وآبرو سے کھلواڑ کرنے کی روایت چل پڑی۔
آج صورت حال یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہراساں وخوف زدہ کیا جا رہا ہے، ان کے مکانوں پر بلڈوزر چلایا جارہا ہے ، مساجد بھی محفوظ نہیں ہیں، انہیں دوسرے درجہ کے شہری بنانے کے منصوبے پر تیزی سے کام ہو رہا ہے ، تاریخ کو مسخ کرکے مسلم عہد حکومت کی تاریخی عمارتوں اور شہروں کے نام بدلنے کی ایک مہم چل رہی ہے ، تباہی وبربادی کی داستان طویل ہوتی جا رہی ہے ، ہمارے وزیر اعظم ان موضوعات پر زبان نہیں کھولتے، جس سے فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہیں، انہیں ’’من کی بات‘‘ سننے کی فرصت نہیں ہے ، وہ صرف ’’من کی بات‘‘ کہنا جانتے ہیں، جس طرح آمریت میں ایک ڈکٹیٹر ہوتا ہے، اسی طرح ہمارے یہاں کی جمہوریت دو آدمی کے گرد گھوم رہی ہے ، نہ کسی وزیر کی چلتی ہے اور نہ کسی اور کی، سب اپنی کرسی کو بچائے رکھنے کے لیے مودی مودی کے نعرے بلند کرنے میں لگے ہیں۔
ظاہر ہے، ان حالات میں صرف مسلمان ہی نہیں ملک کا مستقبل خطرے میں ہے، جمہوریت کی ساری بنیادیں منہدم ہو گئی ہیں، پندرہ سو قوانین میں ترمیم کی جا چکی ہے ، یکساں سول کو ڈ اور ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی تیاری زوروں پر چل رہی ہیں، مسلمانوں کے حوالے سے ساری کمیٹیوں کی رپورٹیں سرد خانے میں چلی گئی ہیں، ہو سکتا ہے کمیٹیوں کی تشکیل آئندہ بھی ہو ۔کمیٹیاںبنتی رہیں گی ، کمیشن کے ذریعہ مرض کی تشخیص کرائی جائے گی ، لیکن اپنی حالت کے سدھارنے کا احساس جب تک خود مسلمانوں میں نہیں ہوگا۔ حقوق کی بازیافت کی جد وجہد کا حوصلہ نہیں ہوگا، صورت حال نہیں بدلے گی اور بقول شاعر یہ مسئلہ زیر غور ہی رہے گا۔
سارے جہاں کی شام غم صبح بہار اں بن گئی
میری سحر کا مسئلہ اب بھی زیر غور ہے