آسام کے ناگون میں پولیس تحویل میں مبینہ طور پر ایک مچھلی فروش کی موت کے بعد پولیس اسٹیشن کو جزوی طور پر آگ لگانے کے بعد حکام نے پانچ مسلم خاندانوں کے گھروں کو بلڈوز کر دیا۔
دی انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق سلونا باڑی گاؤں کے تقریباً 40 لوگوں کے ایک ہجوم نے سنیچر کی دوپہر ڈھنگ سرکل میں بٹدروا پولیس اسٹیشن کے ایک حصے کو آگ لگا دی تھی۔ واقعے کے بعد پولیس نے متعدد ملزمان کو گرفتار کر لیا اور ان میں سے پانچ افراد کے گھروں کو بلڈوز کر دیا گیا۔ آسام کے اسپیشل ڈی جی پی (امن و قانون) جی پی سنگھ نے دعویٰ کیا کہ جو گھر مسمار کیے گئے وہ "غیر قانونی آباد کاروں” کے تھے۔
یہ پورا معاملہ کا آغاز اسلام نامی ایک شخص کی موت سے ہوا۔ اس شخص کو ایک شکایت کی بنیاد پر اٹادروا پولیس اسٹیشن لایا گیا تھا کہ وہ ’’نشے میں تھا‘‘۔ اس کے اہل خانہ نے دعویٰ کیا۔
انڈین ایکسپریش کے مطابق بٹادروا اسٹیشن پر پولیس نے اس کی رہائی کے لیے 10,000 روپے اور ایک بطخ بطور رشوت مانگی۔ گاؤں کے ایک 25 سالہ رہائشی کے مطابق، اسلام کی بیوی اور بھتیجی جمعے کی رات ایک بطخ کے ساتھ تھانے پہنچیں، لیکن پولیس کی جانب سے ان سے رقم کا "انتظام” کرنے کو کہا گیا۔
ایک مقامی شخص نے کہا کہ "جب وہ اگلی صبح واپس آئے تو انہوں نے دیکھا کہ وہ بیمار ہے اور اس شخص کو قریبی ڈسپنسری میں لے جایا گیا، پھر اس کے بعد اس کو سول اسپتال ریفر کیا گیا لیکن وہ راستے میں ہی دم توڑ گیا‘‘۔
مکانات کو بلڈوز کرنے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کانگریس ایم ایل اے عبدالخالق نے ایک ٹویٹ میں کہا، "ہم پولیس اسٹیشن پر حملے کی کبھی حمایت نہیں کرتے۔ لیکن پولیس کی طرف سے حملہ آوروں کے گھروں کو بلڈوز کرنا انسانی حقوق کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔ اس پیش رفت کی اے آئی یو ڈی ایف ایم ایل ایز نے بھی مذمت کی۔
واضح رہے کہ مدھیہ پردیش، اترپردیش اور دہلی اور دیگر علاقوں میں غیر قانونی تعمیرات کے نام پر مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو منہدم کردیا گیا۔