نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے وارانسی میں گیان واپی مسجد پر جاری تنازع کے درمیان منگل کو ایک ہنگامی میٹنگ کی جہاں ایک سروے کے دوران مسجد کے اندر ایک شیولنگ پائے جانے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
بورڈ کے مطابق چونکہ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے، بورڈ کی قانونی ٹیم مسلم فریق کو تمام ضروری مدد فراہم کرے گی۔ یہ میٹنگ تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہی جس کے دوران بورڈ کے 45 ممبران نے اس مسئلہ پر بات چیت کی۔
IANS کے مطابق بورڈ کے ایک ذمہ دار نے کہا کہ "ہم منگل کو عدالت میں زیر بحث اور پیش کیے گئے معاملات کو دیکھیں گے، اور ہماری قانونی ٹیم مسلم فریق کو مدد فراہم کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم پمفلٹس، کتابوں وغیرہ کے ذریعے گیان واپی مسجد کے حقائق کو لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کریں گے تاکہ لوگ گمراہ نہ ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ "اس کے علاوہ ہم عبادت گاہوں کے ایکٹ 1991 پر مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ دیگر سیاسی جماعتوں کا موقف بھی جاننا چاہیں گے”۔ اس وقت کے وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ نے 1991 میں عبادت گاہوں سے متعلق ایک قانون لایا تھا۔
یہ قانون 15 اگست 1947 سے پہلے موجود کسی بھی عبادت گاہ کے مذہبی نقطہ نظر کو تبدیل کرنے سے منع کرتا ہے۔ جو بھی ایسا کرنے کی کوشش کرے گا اسے ایک سال سے تین سال کے درمیان جرمانہ اور قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ایک اور میٹنگ منعقد ہوگی جس میں مزید تفصیلات پر گفتگو کی جائے گی۔
قبل ازیں منگل کو سپریم کورٹ نے وارانسی انتظامیہ کو ہدایت دی تھی کہ وہ اس علاقے کی حفاظت اور سیل کرے جہاں گیانواپی مسجد کمپلیکس کے اندر ایک ویڈیو سروے کے دوران ایک ‘شیولنگ’ پایا گیا تھا، جبکہ متعلقہ حکام کو یہ بھی ہدایت دی تھی کہ مسلمانوں کو نماز ادا کرنے کے لیے مسجد میں داخل ہونے سے نہ روکا جائے۔
جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور پی ایس نرسمہا کی بنچ نے کہا: ’’جس علاقے میں شیولنگ پایا جاتا ہے اس کی حفاظت کی جانی چاہیے۔‘‘ بنچ نے مزید کہا کہ مسلمانوں کے مسجد میں نماز یا مذہبی تقاریب کے لیے داخل ہونے پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی جانی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے معاملے کی مزید سماعت 19 مئی کو مقرر کی ہے۔