مسجدوں کی بے حرمتی کو مسلمان ہرگز گوارا نہیں کرسکتے
حالات حاضرہ

‘مسجدوں کی بے حرمتی کو مسلمان ہرگز گوارا نہیں کرسکتے’

گزشتہ رات آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ کا ایک ہنگامی آن لائن اجلاس طلب کیا گیا، جس میں خاص طور پر گیان واپی مسجد اور ملک کی مختلف مسجدوں اور عمارتوں کے سلسلہ میں فرقہ پرست طاقتوں نے جو رویہ اختیار کر رکھا ہے، اس پر تفصیل سے غور وخوض کیا گیا۔

اجلاس کا احساس تھا کہ ایک طرف نفرت پھیلانے والی قوتیں پوری طاقت کے ساتھ جھوٹا پروپیگنڈہ کررہی ہیں اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کو نشانہ بنا رہی ہیں، دوسری طرف مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتیں جن پر دستور اور قانون کو نافذ کرنے کی آئینی ذمہ داری ہے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں اس پر مستزاد جو سیاسی پارٹیاں اپنے آپ کو سیکولر اور انصاف پسند کہتی ہیں، وہ بھی خاموش ہیں ،اور اس جھوٹے پروپیگنڈے کے خلاف انہیں جس طرح میدانِ عمل میں آنا چاہیے، نہیں آرہی ہیں، ان کو اس مسئلہ پر اپنا موقف واضح کرنا چاہئے۔ ہمیں امید ہے کہ وہ جلد سے جلد اپنا موقف واضح کریں گی۔ نیز ملک کے دستور اور سیکولر کردار کی حفاظت کے لئے ان کی طرف سے کوئی واضح اور ٹھوس آواز بلند ہوگی۔

اجلاس کا احساس ہے کہ عدالتیں بھی اقلیتوں اور مظلوموں کو مایوس کررہی ہیں۔ ان کے اس طرز عمل کی وجہ سے لاقانونیت کا راستہ اختیار کرنے والی فرقہ فرست طاقتوں کو حوصلہ مل رہا ہے۔ گیان واپی کا مسئلہ آج سے تیس سال قبل عدالت میں شروع ہوا تھا ہائی کورٹ کے اسٹے آرڈر کے باوجود اسے آرڈر کو نظر اندا زکیا گیا۔ گیان واپی پر باربار سوٹ فائل کرنا اور پھر عدالتوں کے ذریعہ اس نوعیت کے احکامات جاری کرنا انتہائی مایوس کن اور تشویشناک ہے۔

بورڈ نے عبادت گاہوں کے متعلق 1991 کے قانون اور بابری مسجد سے متعلق فیصلہ میں اس قانون کی مزید تائید کو سامنے رکھ کر غور کرنے اور مؤثر طور پر مقدمہ کو پیش کرنے کے لئے ایک قانونی کمیٹی بنائی ہے، جو جسٹس شاہ محمد قادری، جناب یوسف حاتم مچھالہ، جناب ایم،آر شمشاد، جناب فضیل احمدایوبی، جناب طاہر ایم حکیم، جناب نیاز فاروقی، ڈاکٹر قاسم رسول الیاس اور جناب کمال فاروقی پر مشتمل ہے۔ یہ کمیٹی تفصیل سے مسجد سے متعلق تمام مقدمات کا جائزہ لے گی اور مناسب قانونی کارروائی کرے گی۔

اجلاس میں طئے کیا گیا کہ: ضرورت پڑنے پر پُرامن عوامی تحریک بھی شروع کی جاسکتی ہے، اجلاس نے یہ بھی طئے کیا کہ: بورڈ انصاف پسند ہندو بھائیوں اور دیگر اقلیتی طبقات کو اعتماد میں لے کر مذہبی عبادت گاہوں اور مقدس مقامات کے احترام اور ان کے تحفظ کے سلسلے میں مشترکہ ذمہ داریوں پر رائے عامہ بیدار کرے گا۔

اجلاس نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ 1991 کے عبادت گاہوں سے متعلق قانون کے بارے میں وہ اپنا موقف واضح کرے، ایسے واقعات پر حکومت کی خاموشی ایک مجرمانہ فعل ہے، جو کسی بھی طرح قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اجلاس نے مساجد کے خطباء اور علماء سے اپیل کی ہے کہ وہ آئندہ تین ہفتے جمعہ کے بیان میں مسجد کی اہمیت، شریعت میں اس کا مقام وتقدس اور مسجد کے تحفظ جیسے موضوعات پر خطاب کریں، نیز شرپسند عناصر کی طرف سے جو غلط دعوے کئے جارہے ہیں، ان کی علمی اور قانونی تردید پر خطاب فرمائیں۔

اجلاس نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ صبر کا دامن تھامے رہیں، ثابت قدمی سے کام لیں، اور اشتعال سے بچتے ہوئے لوگوں کے سامنے اپنا موقف پیش کریں، حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب نے اجلاس کی صدارت فرمائی، بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کارروائی چلائی۔ ملک بھر کی اہم شخصیتوں اور ملی تنظیم کے سربراہوں نے اجلاس میں شرکت کی اور گفتگو میں حصہ لیا۔