سپریم کورٹ نے ملک سے بغاوت کے قانون کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے بغاوت کے قانون کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ ملک سے بغاوت کے قانون یعنی 124A کے تحت دوبارہ غور کرنے تک کوئی نیا مقدمہ درج نہیں کیا جانا چاہیے۔
مرکز اس ضمن میں ریاستوں کو ایک ڈائرکٹری جاری کرے گا۔ ساتھ ہی عدالت نے کہا ہے کہ زیر التوا مقدمات پر جمود برقرار رکھا جائے۔ عدالت نے کہا ہے کہ جو لوگ بغاوت کے الزام میں مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں اور اس الزام میں جیل میں قید ہیں، وہ عدالتوں میں ضمانت کے لیے درخواست دائر کر سکتے ہیں۔ اب اس معاملے کی سماعت جولائی کے تیسرے ہفتے میں کی جائے گی۔
ملک سے بغاوت کا قانون کیا ہے؟
ملک سے بغاوت کے قانون جس کو ہم انڈین پینل کوڈ یعنی تعزیرات ہند کی دفعہ124اے کے تحت سیڈیشن کے مقدمہ کے نام سے جانتے ہیں، یہ قانون1857کی پہلی جنگ آزادی کے بعد انگریز حکومت نے ہندوستان میں قوانین کی تدوین کے دوران بنایا تھا، جس کا واحد مقصد انگریز حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز و آزادی کی ہر کوشش کو انگریز پولیس و سخت قوانین کے ذریعے ختم کرنا تھا۔
آزادی سے پہلے ہمارے ملک میں اس قانون کے تحت عمر قید کی سزا متعین کی گئی تھی جب کہ انگلینڈ میں اسی قانون کے تحت سزا صرف دو سال تک کی قید تھی۔ انگلینڈ میں سیڈیشن کا مقدمہ ضمانتی جرم تھا یعنی جس کے الزام میں ضمانت ملزم کا حق ہوتا تھا اور پولیس بغیر حراستی وارنٹ کے کسی بھی ملزم کو گرفتار نہیں کرسکتی تھی۔
پولیس ملک سے بغاوت کے الزام میں ایف آئی آر درج کرنے کے بعد عدالت سے ملزم کو گرفتار کرنے کی اجازت حاصل کرتی تھی، حتیٰ کہ بال گنگا دھر تلک کو بھی گرفتار کرنے کے لیے انگریز پولیس نے عدالت سے گرفتاری کا وارنٹ حاصل کیا تھا جب کہ ہمارے آزاد ہندوستان میں کوئی بھی پولیس افسر کسی کے خلاف بھی ملک سے بغاوت کا مقدمہ درج کرکے متعلقہ فرد یا افراد کو گرفتار کرسکتا ہے۔ انگریز حکومت نے اس قانون کے تحت بال گنگا دھر تلک اور مہاتما گاندھی جیسے قائدین آزادی کے خلاف مقدمات درج کرکے اپنے خلاف اٹھنے والی آواز کو زور زبردستی سے دبانے کی کوشش کی تھی۔
ہندوستان میں آزادی کے بعد بھی ان کالے قوانین کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی البتہ انہیں قوانین کے ذریعہ ہر اس آواز کو زبردستی دبانے کی کوشش کی گئی جو آواز حکومت کرنے والے افراد کو پسند نہیں آئی، یا جس نے بھی حکومت کی عوام مخالف پالیسی کی مخالفت کی۔ آزادی کے بعد دستور ہند نافذ ہوا اور دستور نے شہریوں کو متعدد بنیادی و شہری حقوق فراہم کیے جن میں آرٹیکل 19 بھی شامل ہے، جس کی روشنی میں ہرشہری کو اظہار رائے کی آزادی دی گئی۔ تاہم آرٹیکل19کی دوسری ہی شق میں حکومت کو یہ اختیار بھی دے دیا گیا کہ وہ قوانین و ضوابط اور امن و امان قائم کرنے کے لئے معقول پابندیاں بھی نافذ کرسکتی ہے اور نئے قوانین بنا سکتی ہے۔
واضح رہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں بغاوت کے قانون کا کچھ زیادہ ہی استعمال ہونے لگا ہے۔ کسی بھی حکومت مخالف آواز اور تحریک میں شامل افراد کے خلاف فورا ہی سیڈیشن مقدمہ درج کرلیا جاتا ہے۔ مودی حکومت میں تو اس قانون کا بہت زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔ حکومت مخالف احتجاج بالخصوص سی اے اے، این آر سی احتجاج کرنے والوں کے خلاف بھی اسی کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔ مودی حکومت کے تین زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں کے خلاف بھی سیڈیشن کیسز درج کیے گئے تھے جس کے بعد ملک میں اس پر خاصی بحث بھی ہوئی تھی۔