قومی خبریں

کھرگون تشدد: گھر سے دور شخص کے خلاف بھی فساد کا مقدمہ” دکان نذرآتش

رام نومی جلوس کے دوران شہر میں بھڑکنے والے تشدد کے دوران ہندوتوا کے ہجوم نے اعظم خان کی دکان اور گھر کو جلا دیا تھا۔

تشدد سے متاثرہ کھرگون سے منظر عام پر آنے والی پریشان کن رپورٹوں میں سے ایک ایسی رپورٹ سامنے آئی جس میں کھرگون میں رہنے والے ایک مسلم ڈرائیور کے خلاف فساد پھیلانے کا مقدمہ درج کیا گیا جبکہ وہ اس دن کھرگون میں موجود ہی نہیں تھا۔

اعظم خان ایک ڈرائیور ہے جو ایک چھوٹی راشن کی دکان بھی چلاتا ہے تشدد میں مبینہ طور پر حصہ لینے کے الزام میں پولیس نے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے، حالانکہ وہ فسادات کے دن کھرگون سے کافی دور کرناٹک میں موجود تھے۔

اعظم خان کرناٹک سے کھرگون جانے کے لئے سولاپور میں تھے جب انہیں اطلاع ملی کہ ان کی دکان کو ہندوتوا کے ہجوم نے نذر آتش کر دیا ہے اور تفتیش کے دوران ان کے بھائی کو پولیس نے مارا پیٹا ہے۔

کھرگون شہر میں 10 اپریل کو رام نومی جلوس کے دوران فرقہ وارانہ تصادم ہوا تھا جس میں پتھراؤ کیا گیا تھا، گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا تھا اور کچھ مکانات کو نقصان پہنچا تھا، جس کے نتیجے میں پورے شہر میں کرفیو نافذ کیا گیا تھا۔

اعظم خان نے آنسو بہاتے ہوئے دی کوگنیٹ کو بتایا ہے کہ جب میں 14 اپریل کو کھرگون پہنچا تو مجھے اطلاع ملی کہ میرا نام پولیس نے فسادیوں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے اور مقدمہ بھی درج کیا گیا۔ میں نے ثبوت کے طور پر پولیس کو میڈیکل رپورٹس اور ٹول بوتھ کی رسیدیں جمع کرائی ہیں‘‘۔

خان کی دکان ہندو برادری کی اکثریت والے علاقے میں ہے، خان نے الزام لگایا کہ وہ ماضی میں بھی کئی بار ان کا نشانہ بن چکے ہیں۔

خان نے کہاکہ ’’پچھلی بار جب میرے خلاف جھوٹی شکایت درج کی گئی تو پولیس نے پوچھ گچھ کے بہانے مجھے گھر سے اٹھا کر قید کر دیا۔ اس وقت انہوں نے میرے خلاف چار مقدمات درج کرائے تھے۔ جب مجھے عدالت میں لے جایا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ شکایت پر مبنی ہے اور کوئی تحقیقات نہیں کی گئی ہیں‘‘۔

خان نے کہاکہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ انہوں نے میری جائیداد کی توڑ پھوڑ کی ہو۔ میرے گھر کو 2015 میں بھی آگ لگا دی گئی تھی‘‘۔

خان کا گھر اور دکان جسے آگ لگا دی گئی تھی، سنجے نگر میں واقع ہے، تالاب چوک سے پانچ کلومیٹر دور، وہ مقام جہاں 10 اپریل کو تشدد پہلی بار ہوا تھا۔

خان نے سوال کیا ہے کہ یہ کیسا انصاف ہے؟ آپ ان لوگوں کو گرفتار کرتے ہیں جنہیں تشدد اور نقصان کا نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ حقیقی فسادی آزاد گھوم رہے ہیں‘‘۔

ہاتھوں سے معذور ایک مسلم شخص وسیم شیخ کے خلاف پولیس نے ‘پتھر مارنے والوں’ کی فہرست میں جھوٹا مقدمہ درج کیا تھا۔ شیخ کے ہاتھ 2005 میں بجلی کا کرنٹ لگنے سے زخمی ہونے کے بعد کاٹ دیے گئے تھے۔

تین مسلم افراد کا نام بھی رام نومی فسادات کے ملزمان کی فہرست میں شامل کیا گیا جو 5 مارچ سے جیل میں بند ہیں۔

10 اپریل کو رام نومی کے ملک گیر جشن کے بعد ہندوستان کے مختلف اضلاع بشمول کھرگون، روڑکی، کرولی، جہانگیر پوری اور سینڈوا میں فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا۔