رمضان المبارک کے آخری عشرے کی فضیلت
اسلامی مضامین

اعتکاف کے مسائل

اعتکاف بھی ایک قسم کی عبادت ہے، اعتکاف کی حکمت یہ ہے کہ اعتکاف کرنے والا نماز باجماعت کا انتظار کرے، خود کو فرشتوں کے مشابہ بنانے کی کوشش کرے اور اللہ تعالی کا قرب حاصل کرے، اعتکاف میں معتكِف اللہ کے تقرب کی طلب میں، اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ تعالی کی عبادت کے سپرد کردیتا ہے اور نفس کو اس دنیا کے مشاغل سے دور رکھتا ہے، جو اللہ کے تقرب سے رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔

یہاں پر اعتکاف کے چند مسائل بیان کیے جارہے ہیں تاکہ اعتکاف کرنے والوں کو سہولت حاصل ہوسکے۔

مسئلہ: رمضان کے سنت اعتکاف کا وقت بیسواں روزہ پورا ہونے کے دن غروبِ آفتاب سےشروع ہوتا ہے اور عید کا چاند نظر آنے تک رہتا ہے، معتکف کو چاہیے کہ وہ بیسویں دن غروبِ آفتاب سے پہلے اعتکاف والی جگہ پہنچ جائے۔

مسئلہ: جس محلے یا بستی میں اعتکاف کیا گیا ہے،اس محلے اور بستی والوں کی طرف سے سنت ادا ہو جائے گی اگرچہ اعتکاف کرنے والا دوسرے محلے کا ہو۔

مسئلہ: آخری عشرے کے چند دن کا اعتکاف، اعتکافِ نفل ہے،سنت نہیں۔

مسئلہ: عورتوں کو مسجد کے بجائے اپنے گھر میں اعتکاف کرنا چاہیے۔

مسئلہ: سنت اعتکاف کی دل میں اتنی نیت کافی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا کیلیے رمضان کے آخری عشرے کا مسنون اعتکاف کرتا ہوں۔

مسئلہ: کسی شخص کو اجرت دے کر اعتکاف بٹھانا جائز نہیں۔

مسئلہ: مسجد میں ایک سے زائدلوگ اعتکاف کریں تو سب کو ثواب ملتا ہے۔

مسئلہ: مسنون اعتکاف کی نیت بیس تاریخ کے غروبِ شمس سے پہلے کر لینی چاہیے، اگر کوئی شخص وقت پر مسجد میں داخل ہو گیا لیکن اس نے اعتکاف کی نیت نہیں کی اور سورج غروب ہو گیا تو پھر نیت کرنے سے اعتکاف سنت نہیں ہو گا۔

مسئلہ: اعتکافِ مسنون کے صحیح ہونے کیلیے مندرجہ ذیل چیزیں ضروری ہیں:
۱
: مسلمان ہونا
۲: عاقل ہونا
۳: اعتکاف کی نیت کرنا
۴: مرد کا مسجد میں اعتکاف کرنا
۵:مرد اور عورت کا جنابت یعنی غسل واجب ہونے والی حالت سے پاک ہونا (یہ شرط اعتکاف کے جائز ہونے کےلیے ہے لہٰذا اگر کوئی شخص حالت جنابت میں اعتکاف شروع کر دےتو اعتکاف تو صحیح ہو جائے گا لیکن یہ شخص گناہگار ہو گا)
۶: عورت کا حیض ونفاس سے خالی ہونا
۷: روزے سے ہونا ( اگر اعتکاف کے دوران کوئی ایک روزہ نہ رکھ سکے یا کسی وجہ سے روزہ ٹوٹ جائے تو مسنون اعتکاف بھی ٹوٹ جائےگا)
۱۱: جس شخص کے بدن سے بدبو آتی ہو یا ایسا مرض ہو جس کی وجہ سے لوگ تنگ ہوتے ہوں تو ایسا شخص اعتکاف میں نہ بیٹھے البتہ اگر بدبو تھوڑی ہو جو خوشبو وغیرہ سے دور ہوجائے اور لوگوں کو تکلیف نہ ہو، تو جائز ہے۔

اعتکاف کی حالت میں جائز کام

کھانا پینا (بشرطیکہ مسجد کو گندا نہ کیاجائے)، سونا، ضرورت کی بات کرنا، اپنا یا دوسرے کا نکاح یا کوئی اور عقد کرنا، کپڑے بدلنا، خوشبو لگانا، تیل لگانا، کنگھی کرنا(بشرطیکہ مسجد کی چٹائی اورقالین وغیرہ خراب نہ ہوں )، مسجد میں کسی مریض کا معائنہ کرنا نسخہ لکھنا یا دوا بتا دینا لیکن یہ کام بغیر اجرت کے کرے تو جائز ہیں ورنہ مکروہ ہیں، برتن وغیرہ دھونا، ضروریات زندگی کیلیے خرید و فروخت کرنا بشرطیکہ سودا مسجد میں نہ لایا جائے، کیونکہ مسجد کو باقاعدہ تجارت گاہ بنانا جائز نہیں، عورت کا اعتکاف کی حالت میں بچوں کو دودھ پلانا، معتکف کا اپنی نشست گاہ کے ارد گرد چادریں لگانا، معتکف کامسجد میں اپنی جگہ بدلنا، بقدر ضرورت بستر،صابن، کھانے پینے کے برتن، ہاتھ دھونے کے برتن اور مطالعہ کیلیے دینی کتب مسجد میں رکھنا۔

ممنوعات و مکروہات

بلاضرورت باتیں کرنا، اعتکاف کی حالت میں فحش یا بےکار اور جھوٹے قصے کہانیوں یا اسلام کے خلاف مضامین پر مشتمل لٹریچر ،تصویر دار اخبارات و رسائل یا اخبارات کی جھوٹی خبریں مسجد میں لانا،رکھنا،پڑھنا،سننا۔  ضرورت سے زیادہ سامان مسجد میں لا کر بکھیر دینا، مسجد کی بجلی،گیس اور پانی وغیرہ کا بے جا استعمال کرنا، مسجدمیں سگریٹ وحقہ پینا، اجرت کے ساتھ حجامت بنانا اور بنوانا، لیکن اگر کسی کو حجامت کی ضرورت ہے اور بغیر معاوضہ کے بنانے والا میسر نہ ہو تو ایسی صورت اختیار کی جا سکتی ہےکہ حجامت بنانے والا مسجد سے باہر رہے اور معتکف مسجد کے اندر۔

حاجاتِ طبعیہ

پیشاب،پاخانہ اوراستنجے کی ضرورت کیلیے معتکف کو باہر نکلنا جائز ہے،جن کے مسائل مندرجہ ذیل ہیں:
پیشاب، پاخانہ کیلیے قریب ترین جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے۔ اگر مسجد سے متصل بیت الخلاء بنا ہوا ہے اور اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے تووہیں ضرورت پوری کرنی چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہے تو دور جا سکتا ہے، چاہےکچھ دورجانا پڑے، اگر بیت الخلاء مشغول ہو تو انتظار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ فارغ ہونے کے بعد ایک لمحہ بھی وہاں ٹھہرنا جائز نہیں۔
قضاء حاجت کیلیے جاتے وقت یا واپسی پر کسی سے مختصر بات چیت کرنا جائز ہے، بشرطیکہ اس کیلیے ٹھہرنا نہ پڑے۔

مسجد کی حد

اعتکاف کا اہم ترین رکن یہ ہے کہ اعتکاف کے دوران مسجد کی حدود ہی میں رہیں اور حوائج ضروریہ کے سوا ایک لمحہ کے لئے بھی مسجد کی حدود سے باہر نہ نکلیں، کیونکہ ایک لمحہ کے لئے بھی شرعی عذر کے بغیر حدود مسجد سے باہر چلا جائے تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔

عموماً معتکفین حدود مسجد کا مطلب ہی نہیں سمجھتے اور اس بناء پر ان کا اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے، اس لیے جب کسی مسجد میں اعتکاف کرنے کا ارادہ ہو تو سے سب سے پہلے یہ کام کرنا چاہیے کہ مسجد کے بانی یا متولی سے مسجد کے احاطہ کی ٹھیک ٹھیک حدود معلوم کرلیں اور خوب اچھی طرح حدود مسجد کا مطلب سمجھ لیں۔

عام بول چال میں تو مسجد کے پورے احاطے کو مسجد ہی کہتے ہیں لیکن شرعی اعتبار سے پورا احاطہ مسجد ہوناضروری نہیں بلکہ شرعاً صرف وہ حصہ مسجد ہوتا ہے جسے بانی مسجد نے مسجد قرار دے کر وقف کیا ہو، استنجا کی جگہ، نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ، امام و موذن اور خادم صاحبان کے حجرے پر شرعاً مسجد کے احکام جاری نہیں ہوتے، بلکہ یہ خارج مسجد ہوتے ہیں، وضو خانہ بھی مسجد کا حصہ نہیں ہوتا، اس لیے معتکف کے لیے ضروری ہے کہ بغیر شرعی ضرورت کے وہاں نہ جائے۔

اسی طرح مسجد میں جوتے اتارنے کی جگہ، مسجد میں داخل ہونے کے زینے، بعض مسجدوں کے صحن میں حوض بنا ہوتا ہے، وہ حوض اور بعض مسجدوں میں نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ بنی ہوتی ہے، وہ جگہ یہ سب کے سب خارج مسجد کہلاتے ہیں۔ مسجد کی چھت مسجد کا ہی حصہ ہے، اس لیے چھت پر جانا جائز ہے، مگر شرط یہ ہے کہ چھت پر جانے کا راستہ مسجد کے اندر سے ہو اور اگر باہر سے ہے تو جائز نہیں، اگر جائے گا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔

اللہ رب العزت رمضان المبارک کی صحیح طرح سے قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العلمین۔