دشمن کی تعداد سے مرعوب نہ ہونا، جنگ بدر کا یہ پہلا پیغام ہے۔ دوسرا پیغام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر آزمائش سے پہلے خود مسلمانوں کی صفوں میں کھڑے منافقین کو چھانٹ کر الگ کرتا ہے۔ تیسرا پیغام یہ ہے کہ جب تک مسلمان ایک جماعت اور ایک امیر کی اطاعت میں داخل نہیں ہوں گے کوئی بھی جنگ جیتنا ممکن نہیں۔ ان کے علاوہ کچھ اور اہم ترین پیغام جن پر اگر عمل ہو تو آج بھی ایک انقلاب آ سکتا ہے، آیئے ان پر غور کرتے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ کہ سنہ ۲ ہجری میں روزے فرض کئے جاتے ہیں اور سنہ ۲ ہجری میں ہی جنگ بدر ہوتی ہے۔ رمضان اور جہاد کے حکم میں کیا کوئی تعلق ہے؟ یہ تو اللہ ہی بہتر جان سکتا ہے، ہماری سمجھ میں تو یہ بات آتی ہے کہ بھوک اور پیاس کی تکلیف برداشت کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ فتح و نصرت کے دروازے کھول دیتا ہے۔
اس ماہِ مبارک میں افطار کے دستر پر ٹوٹ پڑنے والوں، رات رات بھر موبائیل پر یا فضول بیٹھکوں اور شاپنگ میں جاگ کر، ڈٹ کر سحری میں پیٹ بھرنے والوں کو آپ نے دیکھا ہوگا، یہ شکایت کرتے ہیں کہ ”بھائی رمضان میں کچھ بھی کام نہیں ہوتا، نیند پوری نہیں ہوتی وغیرہ۔ یہ لوگ رمضان پر جھوٹا الزام تراشتے ہیں۔ جہاں کئی دوسری سنّتوں پر بحث، تکرار حتی کہ ایک دوسرے کی تکفیر تک کر ڈالتے ہیں، جیسے تروایح 8 رکعت یا 20 رکعت، افطار اہلِ حدیث کے مسلک پر یا حنفی مسلک پر وغیرہ۔
ان مسائل پر تکرار کرنے سے امت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، ہاں اللہ کے رسول ﷺ افطار اور سحر میں کتنا کھاتے تھے اور کتنا سوتے تھے، اس سنّت پر کوئی شدّت دکھائے تو پوری قوم کا فائدہ ہوسکتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا فرمان ہے کہ آپ ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد جو بدعت سب سے پہلے شروع ہوئی وہ تھی پیٹ بھر کھانا۔ اگر لوگ ایک تہائی پیٹ کھا کر بس کردیں تو اس سے نہ صرف ان کی صحت ہمیشہ درست رہے گی بلکہ جنگیں جیتنا بھی آسان ہوجائے گا۔
صرف بدر ہی نہیں، کئی اور بھی غزوات اور جنگوں میں مسلمانوں نے روزے کی حالت میں ہوکر بھی فتح حاصل کی ہے۔ آپ نے اکثر لوگوں کے پپٹ دیکھے ہونگے جن میں مولوی، مشائخ، تاجر، لیڈر اور ملازمین سبھی شامل ہیں، ان کی توندیں نکلی ہوئی آتی ہیں، ہر وقت اونگھتے رہتے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ کا پیٹ کتنا تھا، کس طرح اللہ کے رسول کی طرح جسامت بنا کر رکھنی چاہئے، یہ انہیں ہرگز پڑھایا نہیں جاتا۔ یہ اسی لئے ہے کہ دوسری ساری سنّتوں پر محاذ آرائی کرتے ہیں، لیکن ایک تہائی کھانے اور بلا ضرورتِ شدید نہ جاگنے کی سنّت پر ہرگز عمل نہیں کرتے۔
کھانے پر ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں گویا یہ آخری کھانا ہو۔ اسی لئے آج دشمن ان کی مسجدوں پر حملے کررہے ہیں، اور یہ صرف اللہ سے حفاظت کی دعا کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔ جنگِ بدر کا یہ بھی پیغام ہے کہ اگر اللہ کے دین کی حفاظت کے لئے لڑنے کی تمنا ہے تو کم سے کم کھاو اور اپنے آپ کو ایک سپاہی کی طرح ہر وقت جہاد کے لئے تیار رکھو۔
بدر کا یہ پیغام ہے کہ دشمن کی تعداد یا اس کے ہتیار یا اس کے گھوڑوں اور اونٹوں کی تعداد دیکھ کر ہرگز نہ ڈرو۔ ”لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون“ کی تفسیر یہی بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جو سب سے بڑا ہتیار مومنین کے ہاتھوں میں دیتا ہے وہ یہ کہ خوف اور حزن کو ان کے دلوں سے نکال دیتا ہے۔ جب تک انصاف کو قائم کرنے کے لئے گھروں سے نکلوگے نہیں، انصاف ملنے والا نہیں ہے۔ جو لوگ گھروں سے بیٹھ کر سوشیل میڈیا یا اخباروں میں خوب لکھ رہے ہیں یا تقریریں فرمارہے ہیں، وہ اب یہ سوچ کر نکل پڑیں کہ اگر اب انہوں نے باہر نکل کر مقابلہ کیا تو کل ان کی آنے والی نسل اس ظلم اور زیادتی کا خاتمہ کرے گی، ورنہ کل آپ کی نسلیں آپ سے زیادہ ڈرپوک، بزدل اور سر جھکاکر چلنے والی، مصلحتیں تراشنے والی اور دشمن کے خوف سے انہی کی جاسوسی کرنے والی نکلے گی۔
مسجدوں پر حملے اسی وقت ہوتے ہیں جب مسجدیں خالی ہوتی ہیں، اور اطراف رہنے والے مرد سارے مستی میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں، مسجد میں آنے والے فقط چند بوڑھے ہوتے ہیں۔ اگر مسجدوں کی حفاظت کرنی ہو تو دفاع اور مزاحمت لازمی ہے۔ بستی کا ہر مرد کم سے کم ایک یا دو نمازیں مسجد میں ادا کرے تو اس سے صرف 27 گنا زیادہ ثواب ہی نہیں بلکہ مسجدوں کی حفاظت بھی ہے اور مزاحمت یا Resistance کی طرف پہلا قدم ہے۔کیونکہ اتنی بڑی تعداد کو مسجد میں داخل ہوتے ہوئے اور نکلتے ہوئے جب دشمن دیکھتے ہیں تو ان کے دلوں پر خودبخود ہیبت طاری ہوتی ہے۔
آج مندریں آباد ہیں، کوئی ان کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔ مسجدیں چونکہ جوان مردوں سے خالی ہیں، اسی لئے غنڈوں کی زد پر ہیں۔ ان غنڈوں پر الزام نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ مسجدوں، قبرستانوں، درگاہوں یا اوقاف کی زمینیں خالی ہوں تو ان پر فاشسٹ قبضہ کرنے سے پہلے تو خود مسلمان لیڈر، غنڈے اور پہلوان، قبضہ کرلیتے ہیں، اور متولی، سجادے،پولیس اور خود حکومت ان کے ساتھ مل کر چوری کا مال بانٹ لیتی ہے۔
بدر کا تیسرا پیغام یہ ہے کہ جو لوگ مزاحمت کرنے کی ہمت رکھتے ہیں ان کا قتل عام یا جینوسائڈ کبھی نہیں ہوسکتا۔ جینو سائڈ انہی کاہوتا ہے جو مزاحمت کرنے کی ہمت نہیں کرتے۔ چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ 1948 میں حیدرآباد کے مسلمان ہزاروں کی تعداد میں گاجر اور مولی کی طرح کاٹ دیئے گئے، ان کی بے شمار بستیاں اور کھیت جلادیئے گئے اور ان پر قبضے ہوگئے کیونکہ وہ مزاحمت کے بجائے صرف دعائیں کررہے تھے۔
یاد رہے اُس وقت کا حیدرآباد ایک انتہائی مذہبی کلچرکی حامل ریاست تھی۔ گھر گھر آیت ِ کریمہ، قصیدہ بردہ شریف کی محفلیں، شاندار مسجدیں اور مدرسے، تراویح، شب قدر، شب برات اور شب معراج کے شاندار تقاریب اور اس کے ساتھ ساتھ عرس، صندل پنکھے اور دستار بندیوں کے مقدّس اجتماعات سبھی کچھ تھے۔ لیکن مدرسوں کے نصاب میں جہاد، قتال، مزاحمت، انصاف کو قائم کرنے کے تھیوریٹیکل اور پراکٹیکل اسباق نہیں تھے۔ صرف چار دن میں ایک پورا ملک بابری مسجد کی طرح ڈھا دیا گیا۔
اسی کے مقابلے میں کشمیر یا افغانستا ن کو لیجئے، ان قوموں نے مزاحمت کی، سالہاسال سے کررہے ہیں۔ جتنے لوگ حیدرآباد میں صرف چند دنوں میں ہلاک کردیئے گئے، اتنے لوگ کشمیر یا افغانستان میں تیس سال میں نہیں مرے۔ بلکہ دشمن کو یا تو مات دی یا کم از کم خوف میں رکھا۔ جنگِ بدر کا یہ پیغام ہے کہ ”ان الذین آمنوا یقاتلون فی سبیل اللہ والذین کفروا یقاتلون فی سبیل الطاغوت، فقاتلوا اولیاء االشیطٰن، ان کید الشیطٰن کا ن ضعیفا“۔ کافر کو بھی قتال کا اتنا ہی حق ہے جتنا مومن کو۔
ایمان لانے کے بعد قتال کے لئے تیاری کرنا ایمان والوں کی نشانی ہے، کیونکہ فاشسٹ آج پورے قتال کے موڈ میں ہیں۔ دھرم سنسد میں جو کچھ کہا گیا وہ اسے کرکے دکھارہے ہیں۔ اب مسلمانوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ ایک جماعت ہوکر مقابلہ کریں۔پاپولر فرنٹ کے بانیوں میں سے ایک مرحوم اے۔سعید تھے جنہوں نے اپنی کتاب ”دین الحق“ میں ایک اہم بات لکھی کہ اگر مرغی اپنے چوزوں کے ساتھ باہر نکلتی ہے، اور چوزے کسی کے پاؤں میں آنے لگتے ہیں تو وہ اچھل اچھل کر اُس شخص پر حملہ کرتی ہے۔
یہ نہیں دیکھتی کہ جس شخص کو وہ چیلنج کررہی ہے، وہ اس مرغی سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مال یا اپنی اولاد کی حفاظت کے لئے لڑنا یا مزاحمت کرنا فطرت میں رکھا ہے۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ ایک جانور میں تو یہ فطرت زندہ ہے لیکن آج کے مسلمان مردوں کی یہ فطرت نہ جانے کہاں دفن ہوگئی کہ ان کے بھائیوں کے گھر پر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں، مسجدیں جلائی جارہی ہیں، میناروں اور درگاہوں پر چڑھ کر غنڈے بھگوا جھنڈے لہرا رہے ہیں، لیکن نہ جانے ان کی غیرت کہاں مرگئی ہے۔
بدر کا یہ بھی ایک اہم پیغام ہے کہ جب تک ایک جماعت قائم نہیں ہوتی، اس وقت تک تو انہیں صبر اور قربانیوں کو پیش کرنا ہے۔ لیکن ایک بار جماعت قائم ہوجائے،تو ہر شخص پر جہاد فرض ہوجاتا ہے۔ اس کے لئے انہیں اگر ہجرت کرنی پڑے تو کریں کیونکہ فرمانِ رسول ﷺ ہے کہ جس نے جہاد نہیں کیا، یا جہاد کرنے کی اس کے دل میں آرزو بھی پیدا نہیں ہوئی، وہ منافق کی موت مرا۔ اللہ کے بنی ﷺ کا حکم ہے کہ پانچ چیزوں کا میں تمہیں حکم دیتا ہوں۔
جماعت، والسمع والطاعۃ والھجرۃ والجہاد۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی ایک ویڈیو”اِ س حدیث کو کیوں چھپایا گیا؟“ یوٹیوب پر دستیاب ہے، ضرور سنئے کہ جماعت والسمع والطاعۃ کے بغیر آپ کبھی جیت نہیں سکتے۔ آپ کو ایسے وقت میں کسی ایسی پارٹی کے لئے اپنا مال، وقت اور توانائیاں لگادینا ضروری ہے جو پارٹی اس ملک سے فاشزم کو ختم کرکے تمام انسانوں چاہے وہ اقلیتیں ہوں، چاہے جاتی واد ہو یا چاہے کسی بھی قسم کی ناانصافی ہو، ان کو ختم کرنے کے لئے سڑکوں پر آنے کی ہمت رکھتی ہو، اور نشاۃ ثانیہ کا خواب رکھتی ہو، اورجس کے جوان شہادت کا جام پینے کے لئے بے چین رہتے ہوں۔ تب جاکر 313 کی مثال اس سرزمین پر دُہرائی جاسکتی ہے۔
بدر کا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر آزمائش کے وقت منافقین کو مسلمانوں کے صفوں میں سے نکال باہر کرتا ہے۔ لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب مومن جہاد کے لئے گھروں سے نکلیں۔ ورنہ تو سارے مومن ہونے کا دعوی کریں گے۔ کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ خود آپ کی مسجدوں، جماعتوں، درگاہوں اور چلتے پھرتے عوام کے بیچ کتنے ضمیر فروش جاسوس پھیل گئے ہیں، جو اپنے مفادات کے لئے یا اپنی تنخواہوں کے لئے آپ کی جاسوسی کررہے ہیں۔ آپ ان سے ڈر کر یا ED یا IT یا پولیس یا کسی اور ڈپارٹمنٹ سے ڈرکر جب تک قوم سے ہمدرد ی صرف پرانے شہر کی بیٹھکوں میں کرتے رہیں گے، منافقین آپ کے ساتھ شامل رہیں گے، خود آپ کو پتہ نہیں چلے گا کہ آپ خود کب منافقین میں شامل ہوگئے۔
عبداللہ بن ابی، رئیس المنافقین کی زندہ مثال ہے۔ جب مومن ایک ہزار کے لشکر کے خلاف مقابلے کے لئے نکلے اور کہہ دیا کہ اگر رسول اللہ ﷺ سمندر میں کود جانے کو کہیں گے تو کود جائیں گے، ایسے وقت میں عبداللہ بن ابی نے بہانے کئے، ایک اور مثال سورہ بقرہ میں طالوت کی آئی ہے کہ انہوں نے حکم دیا کہ اس نہر سے جو بھی پانی پئے گا وہ مجھ سے نہیں، پھر بھی کچھ لوگوں نے پانی پیا اور نافرمانی کی، اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو چھانٹ کر اسی طرح الگ کردیا جس طرح عبداللہ بن ابی کو۔
آج حالات سے ڈر کر جتنے لوگ گھروں میں چھپے بیٹھے ہیں، جہادسے انہیں خطرہ بلکہ چِڑ ہے، مصلحت اور مفادات کے پیش نظر صحیح جگہ ایک روپیہ جیبیوں سے خرچ کرنا نہیں چاہتے اور نہ ایسی کسی بھی مہم کا حصہ بننا چاہتے ہیں جو مزاحمت کا اعلان کرے، یہ تمام وہی لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ خود چھانٹ کر الگ کررہا ہے۔ یہ ہمیشہ اکثریت میں ہوتے ہیں۔
مکہ میں جب ہجرت کا حکم ہوا تو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہجرت کے لئے تیار ہونے والے صرف 70 کے لگ بھگ صحابہ ؓ تھے۔ حالانکہ اور بھی بہت سارے لوگ مکہ میں تھے جنہوں نے ایمان تو لایا لیکن ہجرت کرنے سے پیچھے ہٹ گئے۔ ان کو سورہ نساء میں منافق کہا گیا۔ اس لئے جو لوگ آج کے حالات میں مسلمانوں کو تباہ کرنے کی ان تمام سازشوں کو دیکھتے ہوئے بھی صرف اللہ حفاظت فرمائے کہہ کر اپنی جان بچاتے ہیں اور گھروں سے نہیں نکلتے، یہ تمام وہی منافقین ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ خود چھانٹ رہا ہے۔
اس لئے بدر کا پیغام یہی ہے کہ ایسے لوگوں کی وجہ سے نہ ہمت ہاریئے، نہ شکایت کیجئے، کیونکہ مومنِ مجاہد کا اجر تو یوں بھی اس دنیا میں نہیں ہوتا، اس کا اجر تو اللہ تعالیٰ نے جنت میں محفوظ کردیا ہے، اور شہادت کے ساتھ ہی جب اسے یہ انعام ملے گا تو وہ یہ کہے گا کہ کاش میں پہلے ہی یہ انعام حاصل کرلیتا، میں نے اتنی دیر کیوں کی۔
( مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں)