اللہ تعالی کی مقدس کتاب، قرآن مجید کا نزول رمضان المبارک کے پاکیزہ مہینے میں ہی شروع ہوا تھا ( البقرہ-2: 185)۔ نزولِ وحی کا یہ سلسلہ، اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری پیغمبرانہ زندگی بھر جاری رہا۔ چوں کہ قرآن پاک کو رمضان المبارک سے ایک خاص نسبت حاصل ہے، اس لیے، یقین کیا جاسکتا ہے کہ ماہ رمضان کے شب و روز میں تدبر اور غور و فکر کے ساتھ اللہ تعالی کی حکمت اور ہدایت کی کتاب، یعنی قرآن مجید کا سنجیدہ مطالعہ مسلمانوں کے لیے ضرور ان کے رب کی معرفت کا ذریعہ بن سکتا ہے، اور ان شاء اللہ، ہم سب علم و فکر کے میدان میں نئی نئی جہتوں سے روشناس ہو سکتے ہیں۔ دوسرے پیغمبروں کے برعکس، اللہ تعالی کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ قرآن ہے۔ جس طرح قیامت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت قابل عمل رہے گی، اسی طرح قرآن پاک بھی ہر آنے والے دور کی مطابقت میں کھرا ثابت ہوتا رہے گا، گویا کہ قرآن مجید کے عجائبات کبھی ختم نہ ہوں گے۔
قرآن پاک، چوں کہ اللہ رب العالمین کی اپنے بندوں کے لیے ہدایت کی کتاب ہے، اس لیے ضرورت اور حالات کے پیش نظر، وحی کی شکل میں، کم یا زیادہ مقدار میں قرآن نازل ہوتا رہا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کی یاد داشت میں جمع ہوتا رہا، تاکہ مکمل ہوجانے کے بعد اس کو ایک جامع کتاب کی صورت میں اس غرض سے آپ کی امت کے حوالے کردیا جائے گا کہ وہ اس کے ذریعے اپنی زندگی کے لیے، نہ صرف خود اللہ رب العزت کی ہدایت حاصل کرتی رہے، بلکہ دنیا بھر کے حال اور مستقبل کے انسانوں تک اس کی رسائی کا بھی اہتمام کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے صحابہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ لکھنا بھی جانتے تھے۔ قرآن پاک کا نازل شدہ حصہ سبھی صحابہ کو یاد کرانے کے ساتھ ہی، مذکورہ اصحاب سے لکھوا بھی لیا جاتا تھا۔ بیچ بیچ میں، تحریر کو یاد سے اور یادداشت کو لکھے ہوئے اقتباس سے ملانے کا کام مسلسل ہوتا رہتا تھا۔
اس سارے اہتمام کے پس منظر میں، محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیئین ہونے کی مصلحت کار فرما تھی۔ چوں کہ آپ کے بعد کوئی نبی یا رسول مبعوث ہونے والا نہیں تھا، اس لیے قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کی ربانی ہدایت کے لیے قرآن ہی وہ واحد کتاب ہوگی جو دین کے تمام ذرائع علم کے لیے میزان (کسوٹی) کا کام کرےگی۔
اللہ تعالی کی رہ نمائی میں قرآنی تحریر کو کسی بھی قسم کی متوقع انسانی غلطیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ دوہری اصلاح (ڈبل چیکنگ) کا پیغمبرانہ طریقہ ایک منفرد طریقہ تھا۔ حفاظت کے اتنے معیاری بندوبست کے باوجود، خود صاحب کتاب یعنی اللہ تعالی کے اس کی حفاظت کے متعلق مزید ضمانت کے اعلان نے قرآن پاک کو ہمیشہ کےلیے کسی بھی قسم کے شکوک و شبہات سے بالاتر ایک محفوظ کتاب بنا دیا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "بیشک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور بیشک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں” (الحجر-15: 9)
قرآن مجید کے محفوظ کتاب ہونے کا معاملہ صرف مسلمانوں کے عقیدے کا معاملہ نہیں ہے۔ اتنے طویل عرصہ کے بعد بھی، عام و خاص ہی نہیں، بلکہ انسانی اور کائناتی علوم کے ماہر حضرات بھی یہ دیکھ کر دم بخود ہیں کہ قرآن کا چھوٹا یا بڑا کوئی بھی بیان خلاف واقعہ نہیں ہے۔ دین، مذہب یا عقیدہ سے قطع نظر، صرف انسانی علوم کی روشنی میں، انسان یہ دیکھ کر حیران و پریشان ہے کہ قرآن آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے ہی ان حقائق کو سو فی صد صحت کے ساتھ بیان کرچکا ہے، جو انسانی علم میں محض سو، دو سو یا تین سو سال قبل داخل ہوئے ہیں۔
اس سچائی کو واضح کرنے والا ایک مستند حوالہ یہاں پیش کیا جاتا ہے: نئی دہلی کی روپا اینڈ کمپنی (دریا گنج) نے 1984 میں ایک کتاب شائع کی ہے، جس کا نام ہے ـــ "100 گریٹ بُکس” (100 Great Books, edited by John Canning, Souvenir Press Ltd., London, 1974)
اس کتابی مجموعہ کے اندر مختلف کتابوں کی فہرست میں "قرآن” بھی ایک نام ہے۔ قرآن نام کا یہ باب ان الفاظ پر ختم ہوتا ہے ـــــ یہ شبہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ قرآن ، جس کو مسلمان افضل کتاب سمجھتے ہیں، وہ آج بھی انہیں اصل الفاظ پر مشتمل ہے جو صدیوں پہلے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے خدائے واحد کے پیغمبر کی حیثیت سے ادا کئے تھے۔
"There is no reason to doubt that in the ‘Excellent Book’, as the Moslems call the Koran, we have the actual words that Mohammed used, when, all those many centuries ago, he uttered his pronouncements as the Messenger or Apostle of Allah, the One Most High God.”
(With thanks to the Editor and the Publisher!)
علم کے وسیع میدان میں، قرآن کے زندہ معجزات کے با وجود، مختلف علوم کے بہت سے سابق اور موجودہ علماء، ماہرین اور سائنس داں اپنے تعصباتی تذبذب کا شکار رہے ہیں۔
مذکورہ قسم کے تمام علماء اور دانشوروں کو درپیش ذہنی بحران کا حل اس وقت تک حاصل نہیں ہوگا، جب تک وہ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف ‘محمد ابن عبداللہ’ کی حیثیت میں ہی دیکھتے رہیں گے۔
یہ معزز سائنسداں، حضرت محمد صاحب (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو صرف دوسرے انسانوں کی مانند ایک انسان اور قرآن کو ان کی تصنیف تصور کرنے کے چلتے اس حقیقت کی توجیہ نہیں کر پارہے ہیں کہ آخر قرآن کس طرح اتنے لمبے عرصے کے بعد بھی مضبوطی کے ساتھ اپنے حال اور مستقبل کے علوم کا احاطہ کیے ہوئے ہے، جب کہ انسانی تصنیفات کا تو یہ حال ہے کہ وہ چند سال میں ہی اپنی بنیادوں سے اکھڑ جاتی ہیں۔
موجودہ علماء اور سائنس داں اپنے ذہنی خلفشار سے باآسانی اطمینان کی کیفیت حاصل کر سکتے ہیں، اگر وہ اس سچائی کے مابین غور و فکر سے کام لیں کہ ‘محمد ابن عبداللہ’ محض حضرت ‘عبداللہ’ کے بیٹے ہی نہیں تھے، ساتھ ہی وہ اللہ کے رسول بھی تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ خالق انس و جن نے انسانوں کی طرف ان کی ہدایت اور رہ نمائی کی غرض سے مبعوث کرنے کے لیے اپنے نبی اور رسولوں کا انتخاب ہمیشہ انسانوں میں سے ہی کیا ہے۔
انسانی نفسیات انسان کو غلطی کرنے کے بعد اس کے اعتراف سے روکتی رہتی ہے۔ اس ضمن میں شیطان بھی اس کی پوری مدد کرتا ہے۔ انسانی تاریخ میں، ایسا ہی کچھ حال بیشتر صاحبان علم (سائنسداں) حضرات کا رہا ہے کہ ایک بار غلط نظریات (wrong stipulations) قائم کرلینے کے بعد ان پر نظر ثانی کرنا گویا انہوں نے اپنے اوپر حرام کر لیا ہو، جب کہ یہ بات جدید دور (modern age) کی علمی روشنی میں جینے والے اہل علم کے شایان شان نہیں، کیوں کہ علمی روشنی (light of knowledge) وہ داعیہ ہے جو انسان کو اعتراف کا راستہ دکھاتا ہے۔
اس طرح آج کے متعصب سائنسداں، ان لوگوں سے کیوں کر مختلف ہوسکتے ہیں، جو سائنسی علوم کی روشنی سے بہت پہلے پیغمبروں کے زمانے میں اسی طرح کے تعصبات میں جیتے تھے اور ان کے لیے کھلی دلیل کے باوجود اپنے باپ دادا کے طور طریقوں کو چھوڑنا مشکل ہوتا تھا۔
صاحبِ عقل و شعور انسان کے لیے قرآن کے سنجیدہ مطالعہ سے اس حقیقت کا ادراک مشکل نہ تھا کہ حضرت عبدالمطلب کے پوتے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اللہ تعالی نے اپنے دین اسلام کا آخری پیغمبر اور رسول منتخب کیا تھا اور بذریعہ وحی اپنا کلام (قرآن مجید) ان پر نازل کیا۔ چوں کہ اللہ تعالی خود ہی خالق کائنات ہے، اس لیے، ماضی، حال اور مستقبل کے علوم کا احاطہ کرنا اس کے لیے کیوں کر مشکل ہوسکتا ہے؟ قرآن پاک کے مطالعہ کے ذریعے اپنے رب کی معرفت حاصل کرنے میں انسانی تعصبات آج ہی نہیں، ہمیشہ سے حائل رہے ہیں۔
اس پس منظر میں، اللہ تعالی نے اپنے قادر مطلق ہونے کا اظہار و اعلان کچھ اس طرح کیا ہے:
"ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کے اندر بھی یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ قرآن بلکل حق ہے۔ اور کیا تیرے رب کا ہر بات کا شاہد ہونا کافی نہیں”! (حٰم السجدہ-41: 53)
قرآن پاک میں روزہ کا مقصد بیان کیا گیا ہے "۔۔۔ تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو” (البقرہ-2: 183)۔
تقویٰ کے معنی ہوتے ہیں خود کو بچانا، اپنی حفاظت کرنا اور خوف و اندیشہ پیدا ہونا وغیرہ، جب کہ اسلامی اصطلاح میں تقویٰ کا مطلب ہوتا ہے ‘اللہ کا خوف’۔
سنجیدہ غور و فکر سے سمجھ میں آتا ہے کہ بندہ کا اپنے قادرِ مطلق خالق و مالک پروردگار کے سامنے اپنے چھوٹے ہونے، کمزور ہونے اور عاجزِ مطلق ہونے کا ادراک ہی دراصل، خدا کا خوف ہے۔ کسی بھی انسان کا اپنے رب العالمین کے مقابلے میں مکمل طور پر عاجز ہونے کا احساس اس کو گستاخی اور سرکشی کے ارتکاب سے محفوظ رکھتا ہے۔ روزہ کی حالت میں کسی کو بھی کھانا، پینا اور شہوانی جبلتوں پر کنٹرول کی کوشش، "نانی یاد دلا دیتی ہے” اور وہ اچھی طرح اس حقیقت کا ادراک کر لیتا ہے کہ اپنے رازق کی عنایتوں کے بغیر وہ کتنا زیادہ عاجز اور بے زور ہے۔ اپنے اسی عجز کی دریافت گویا اس کے خالق کی عظمت اور بڑائی کی معرفت ہے۔ اپنی اس دریافت کے بعد، وہ اپنے ہر معاملہ میں اپنے رب کی مرضی جاننے کی کوشش کرنے لگتا ہے اور اس طرح اس کی شخصیت سراپا بندگی بن جاتی ہے۔
اس زاویہ سے دیکھنے پر واضح ہوجاتاہے کہ رمضان المبارک کے روزے اللہ تعالی کا اپنے مومن بندوں پر کتنا عظیم احسان ہے۔ روزہ کی لگا تار ایک مہینہ طویل تربیت زھد و تقویٰ کی کیفیت کو مستحکم کرنے میں مسلمانوں کی زندگی میں بقدر خلوص ایک جامع کردار ادا کرسکتی ہے۔ ایک متقی شخص اپنی بظاہر چھوٹی اور معمولی لغزشوں سے بھی پرہیز کرنے لگتا ہے، اور بلا شبہ، اس کی خالص پرہیزگاری یا پارسائی اس کو جنت کا مستحق بنا دیتی ہے ــــ "قصر جنت تو بنا ہے پارسا کے واسطے” (خطبہ علمی ـــــ شکریہ کے ساتھ )
تقویٰ یا پرہیزگاری انسانی زندگی کا وہ شرف ہے جو تمام انبیاء کی تعلیم کا نچوڑ رہا ہے، اور یہ ہی وہ قیمتی سرمایہ بھی ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور قرب حاصل کرنا آسان ہوجاتاہے۔ قرآن میں بقدر استطاعت تقویٰ کا حکم دیا گیا ہے: "پس تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، جہاں تک ہوسکے” ( التغابن-64: 16)۔ وضاحت کے طور پر، ہر مومن کو اللہ تعالی سے ڈرنے والا ہونا چاہیے۔ تفکر و تدبر کے ذریعے اس کو اپنی ذہنی تربیت اس طرح کرنی چاہیے کہ وہ اپنے مزاج سے ہی اللہ سے اندیشہ رکھنے والا بن جائے۔ نتیجتاً، فطری طور پر ہی اس کا متقی ہونا مستحکم ہوجائے اور کسی بھی صورت حال میں مثبت جواب (positive response) دینا اس کے لیے آسان ہوجائے۔ اس لیے، رحمتوں اور برکتوں کے نزول کے پس منظر میں، ماہِ رمضان المبارک میں متقی شخصیت تشکیل دینے کی خصوصی سنجیدہ کوشش کی جانی چاہیے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق، اللہ تعالی کی نظر میں کسی کے بلند مرتبہ ہونے کا معیار، انسان کی نسلی و خاندانی عظمت، خوب صورت اور با وقار شخصیت، افزائشِ دولت و ثروت، معاشرہ میں بڑا عہدہ یا مقام نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالی کی نظر میں اپنے بندوں کا مقام و مرتبہ وضح کرنے کا ایک ہی دو جہتی پیمانہ ہے ــــ ایمان اور تقویٰ۔
قرآن پاک میں کثرت سے تقوی اختیار کرنے والوں کے لیے خوش خبری کا ذکر ہے، اختصار کے ساتھ، کچھ حوالے یہاں درج کئے جا رہے ہیں :
1۔ ہدایت ملتی ہے۔( البقرہ2: 2)
2۔ کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ (آل عمران-3: 130)
3۔ نیک عمل کی قبولیت ہوتی ہے۔ ( المائدہ-5: 27)
4۔ ایسا علم ملتا ہے جس کے ذریعہ حق وباطل کے درمیان فرق کیا جاسکے۔ (الانفال-8: 29)
5۔ اللہ کی محبت ملتی ہے۔(التوبہ-9: 7)
6۔ اللہ کی جانب سے خوشخبری ملتی ہے۔ (یونس-10: 63-64)
7۔ اللہ کی مدد حاصل ہوتی ہے۔ ( النحل-16: 128)
8۔ جہنم سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔ ( مریم-19: 71-72)
9۔ اللہ کا ساتھ حاصل ہوتا ہے۔ ( الجاثیہ45: 19)
10۔ غم دور ہوجاتے ہیں، وسیع رزق ملتا ہے اور دنیاوی امور میں آسانی ہوجاتی ہے۔ ( الطلاق-65: 2-4)
اخلاق و کردار اور شخصیت کی پاکیزگی، تقویٰ کا ہی نہ جدا ہونے والا حصہ ہے۔ مال کی پاکیزگی بھی انسانی شخصیت کی تعمیر اور اس کو پاکیزہ بنائے رکھنے کے لیے ایک بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ اللہ تعالی نے مال و دولت کو ہمیشہ پاکیزہ رکھنے کے لیے، اپنے مومن بندوں پر ان کے موجود مال میں سے ہر سال نصاب کے مطابق ذکات (زكوٰة) ادا کرنے اور اس کو ہدایت کے مطابق خرچ کرنے کا حکم صادر فرما دیا ہے۔
انسان کی موجودہ امتحانی دنیا کی اقتصادیات کو منظم کرنے کے لیے نافذ کیا گیا یہ ربانی حکم اپنے آپ میں بے مثال ہے۔ یہ تو ایک عام مشاہدہ ہے کہ اللہ تعالی دنیا میں ہر انسان کو امیر اور دولت مند نہیں بناتا ہے۔ امتحان کی غرض سے انسانی دنیا میں امیر اور غریب، طاقتور اور کمزور اور خود کفیل اور محتاج لوگوں کی بیک وقت موجودگی جیسے ضروری بنادی گئی ہے۔ جہاں اللہ تعالی نے کچھ انسانوں کو دولت پیدا کرنے کا شعور، صلاحیت اور توفیق عنایت کی ہے، تو وہیں صاحب حیثیت لوگوں کو مختلف صورتوں میں غریب، مفلس اور محتاج انسانوں کی پرورش اور کفالت کا ذریعہ بنادیا جاتا ہے۔
انہیں ذرائع میں سے ذکات بھی ایک اہم ذریعہ ہے۔ ذمے داری کے ساتھ ذکات کی ادائیگی، تقویٰ اور پاکیزگی کے ساتھ ساتھ، انسان کو بہت سی آفات سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دولت سے بخل کی حد تک محبت کرنے والوں اور دولت کی نعمت کا حق ادا نہ کرنے والوں کا انجام اچھا نہیں ہوا۔ قارون جیسے بڑی دولت کے مالک صفحہ ہستی سے مٹادیے گئے، اور عبرت کا یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں آج بھی جاری ہے۔ ضرورت صرف ان نظر والوں کی ہے جو واقعات سے نصیحت و عبرت حاصل کرسکیں۔
ربانی رشد و ہدایت کی آخری کتاب، قرآن مجید قیامت تک کے لیے فرقان (سہی اور غلط میں فرق کرنے والی) کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے، اس تناظر میں قرآن کے پیغام سے آگاہی انتہائی ضروری ہے، اور اس آگاہی کے لیے قرآن کا سنجیدہ مطالعہ درکار ہے۔
نماز تراویح کے درمیان قرآن کے پڑھے جانے کو مطالعہ کی صورت بھی دی جا سکتی ہے، اور وہ اس طرح کہ ہر رات نماز کے بعد یہ اعلان کیا جائے کہ کل، ان شاء اللہ، تراویح میں فلاں سورہ سے فلاں سورہ تک تلاوت کی جائے گی، اس لیے سبھی نمازیوں سے درخواست ہے کہ وہ اپنے گھر سے مذکورہ سورتوں کے تراجم اور تفاسیر کا مطالعہ کرکے آئیں، تاکہ وہ قرائت کے وقت گلشنِ قرآن کی خوشبوئوں سے خود کو وابستہ محسوس کر سکیں۔ اس میں شک نہیں کہ قرآن سنتے وقت حفاظ، علماء اور ذہین لوگوں کے علاوہ دوسرے عام اشخاص گھر پر ترجمہ پڑھنے کے باوجود، تلاوت اور معنیٰ کا تال میل نہیں بٹھا پائیں گے۔
کوئی بات نہیں، مگر ایک بڑا فائدہ پھر بھی حاصل ہوگا، بلکل اسی طرح جس طرح مسجد کی دیواروں پر لگے پنکھوں سے ہوتا ہے۔ میری اس بات سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو کہ دیواروں پر آویزاں گھومنے والے پنکھے ہر جگہ برابر ہوا نہیں دیتے ہیں، بلکہ کسی نقطہ پر بہت زیادہ، کسی پر نسبتاً کم اور کسی پوائنٹ (point) پر تو بالکل بھی ہوا فراہم نہیں کرتے ہیں، پھر بھی مسجد کے ماحول کو ہوا دار بنا دیتے ہیں۔ ان پنکھوں کی طرح ہی کبھی کچھ سمجھ میں آئے گا، کبھی نہیں آئے گا، مگر یقینی طور پر سیکھنے کا ایک سلسلہ ضرور شروع ہوجائے گا۔ اور اگر تراویح کے بعد بھی گھر پر جاکر، قرآن کے مذکورہ حصہ کو عربی اور اردو میں دوبارہ پڑھ لیا جائے تو بہت کچھ ذہن نشین ہو سکتا ہے۔
مندرجہ بالا حکمت عملی کے ذیل میں، سنجیدگی کے ساتھ میری کوشش ہے کہ مسلمانوں کے گھروں میں، نہ صرف عربی عبارت میں قرآن پڑھا جائے، بلکہ ان کو اس کے معنی، مطالب اور تشریحات سے بھی دلچسپی پیدا ہوجائے، تاکہ وقت ضرورت وہ بطور خود بھی، پیش آمدہ مسائل کی بابت قرآنی رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کرسکیں۔ علماء سے رجوع تو اختصاصی (specialisation) نوعیت کا ہی ہونا چاہیے۔ اس صورت حال کے تناظر میں، بچے اپنے لڑکپن میں ہی عملی طور پر عالم نظر آنے لگیں گے۔ علمی و فکری استفادہ کی غرض سے میں اپنی ایک ذاتی مثال پیش کرتا ہوں:
والد صاحب کی اخلاقی، مدرسہ کے قاری صاحب اور مولوی صاحب کی علمی اور اسکول کے ماسٹر صاحب کی ذہنی تربیت کی بدولت، میرے والد صاحب نے محض دس سال کی عمر میں میرا دوسرا ( اعزازی) نام "مولانا” رکھ دیا تھا۔
مسلمانوں کے دینی مدارس میں ہر سال بڑے پیمانے پر سند یافتہ عالم اور فاضل فراغت حاصل کرتے ہیں۔ میری ساری تگ و دو کا ہدف صرف وہ مسلمان ہیں جو موجود اور نو مولود علماء کے علاوہ ہیں۔ مذکورہ علماء تو ماشاء اللہ، پہلے ہی قرآنی علم و حکمت سے معمور ہوتے ہیں۔ عربی متن اور اردو مطالب کی کیا بات کی جائے، ان میں سے بیشتر خود ہی قرآن پاک کا ترجمہ اور تفسیر لکھنے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ثواب کی نیت سے قطع نظر، تلاوت کے ساتھ ہی قرآن کا ترجمہ پڑھنا اور اس کو سمجھنا اس لیے ناگزیر ہے کہ اس کے بغیر اللہ تعالی کے اس حکم پر عمل ممکن نہیں، جس کی روشنی میں خالق کائنات کی آیات (نشانیاں) پر غور و فکر کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔
بر صغیر ہند کے مسلمانوں کی ہمہ جہتی (multi dimensional) پریشانی تقریباً ایک صدی پر محیط ہے، جو بلا شبہ، ایک طویل عرصہ ہے۔ اب اس عرصہ کو مزید طویل نہیں ہونا چاہیے۔
چوں کہ قرآن حکیم سے جملہ انسانی مسائل کو حل کرنے کے بنیادی اصول اخذ کئے جاسکتے ہیں، اس لیے تمام مسلمانوں کے لیے اب اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے کہ قرآن کا مطالعہ گہرائی اور گیرائی کے ساتھ کیا جائے۔ عرب حضرات کو قرآن مجید کی ناظرہ تلاوت کرتے ہوئے دیکھ کر، شاید ہم ہندو پاک کے مسلمان مطمئن رہتے ہیں کہ ہم بھی قرآن کی تلاوت کے معاملہ میں سہی راستہ پر ہیں۔ مگر اسی وقت، ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ عربی زبان عرب باشندوں کی مادری زبان ہے، اور اسی لیے ان کی ناظرہ تلاوت، معنی کے ساتھ پڑھنے کے ہی قائم مقام ہے، جب کہ ہمارا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے۔ ہماری مادری زبان نہ ہو نے کی وجہ سے، عربی کا مطلب سمجھنے کے لیے ہمیں الگ سے کوشش درکار ہے۔ اس لیے، گھروں اور مدرسوں میں ترجمہ کا باقاعدہ احتمام کرنا ضروری ہو جاتاہے۔
ہمارے خالق و مالک اور حکیم و علیم پروردگار کی کتاب ہونے کی وجہ سے، قرآن پاک کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھنا، رکھنا، چھونا، چومنا اور ناظرہ طرز پر اس کی تلاوت کرنا بھی باعث خیر و برکت ہوسکتاہے، مگر اس طرح یقینی طور پر، وہ مقصد پورا ہونے سے رہ جائے گا، جس کے لیے قرآن حکیم کو نازل کیا گیا ہے۔ بلا شبہ، قرآن مجید ہدایت اور دعوت کی کتاب ہے۔ اس لیے اس کے معنی اور مطالب تک رسائی کے بغیر مذکورہ مقاصد پورے نہیں ہوسکتے۔اس لیے قرآنی تحریر کو اپنی زبان میں سمجھنا، سبھی مرد و زن کی بنیادی ضرورت ہے۔
معاشرہ میں عام طور پر، عام مسلمانوں کے درمیان تراجم (و تفاسیر) کے ساتھ قرآن کے مطالعہ کا ماحول نہ ہونے کی وجہ سے، اس کا ضروری ہونا بھی ہمارے احساس کا حصہ نہیں رہا ہے۔ مگر ایک معروف مقولہ کے مطابق، "جب آنکھ کھل جائے، تبھی سویرا”۔
اس لیے، لا علمی اور غیر سنجیدگی کی پاداش میں مسلمانوں کو علم کی روشنی سے محرومی کے نقصان کا جو تجربہ پیش آیا ہے اس کا جلد از جلد ازالہ کرنے کی نیت اور کوشش کی جانی چاہیے۔ قرآن شریف نہ صرف ماضی، حال اور مستقبل کے حقائق کا احاطہ کرتا ہے، بلکہ اچھی اور مبارک زندگی جینے کی خاطر اس کی مختلف صورتوں سے نبردآزما ہونے کے لیے بھی ضروری نصیحت و عبرت اور حکمت کا سامان فراہم کرتا ہے۔
کچھ ہم مذہب دوستوں کے اندیشوں کے ذیل میں، قرآن کو اپنی زبان میں مطالعہ کرنے سے پیدہ ہونے والا متوقع کنفیوژن (عدم اطمینان) اور دوسری متعلقہ غلطیوں کی بابت، ہمیں زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ غلطیاں تو متواتر مشق سے یا پھر علماء حضرات کے ساتھ رجوع کرنے سے دور ہوسکتی ہیں، مگر علم سے محروم رہ جانا دنیا و آخرت کا بڑا خسارہ ہے۔ دراصل، دنیا میں معیاری زندگی حاصل کر نے کے لیے علم بنیادی حیثیت رکھتا ہے، اور اسی کے ساتھ، علم کے بغیر اللہ تعالی کی عظمت اور بڑائی کا ادراک بھی ممکن نہیں۔ اس ضمن میں اللہ، علیم و حکیم کا ارشاد ہے کہ "صرف علم والے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں” (فاطر-35: 28)
لا تقنطو من رحمت الله ( اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں) کے جذبہ کے تحت، اللہ تعالی سے دعا کرتے ہوئے، رمضان المبارک کے موجودہ مہینے میں ہی اگر یہ تحیہ کر لیا جائے تو بہت خوش آئند ہوسکتاہے کہ گھر کے سبھی بچوں کو قرآن کی ناظرہ تلاوت کے ساتھ اردو زبان میں اس کے عربی الفاظ کا مطلب بھی سکھایا جائے گا۔ کم سِنی کے دنوں میں بچے نئی نئی چیزیں بڑے ذوق و شوق سے سیکھتے ہیں۔ صرف سیکھتے ہی نہیں، مسابقت (competition) کی روح کے ساتھ ان کا چرچہ بھی کرتے ہیں۔ عام تاثر کے برخلاف، ماں باپ کے لیے ایک خوش خبری یہ ہے کہ بچے زیادہ سیکھنے سے تھکتے نہیں ہیں، بلکہ وہ ایک ساتھ تین تین زبانیں بخوبی اور باآسانی سیکھ سکتے ہیں۔ یہ "ہوا میں باتیں” نہیں ہیں، بلکہ علم نفسیات کے مصدقہ اصول ہیں۔ گھروں میں بچوں کے اردو پڑھنے سے گویا قوم کی علمی روایات کو زندہ رہنے کی ضمانت مل جائے گی۔ دین اسلام سے متعلق، اردو زبان میں جتنا زیادہ کام ہوا ہے، اتنا شاید عربی زبان میں بھی دستیاب نہ ہو۔
صدیوں کی فرقت کے باوجود مسلمان اپنے ماضی کے سنہرے دور کو ابھی بھی بہت زیادہ مِس (miss) کرتے ہیں۔ یہ خواہش رکھنا بھی برا نہیں ہے کہ ان کا کھویا ہوا مقام و عروج ان کو واپس مل جائے۔ مگر چھوٹی بڑی ہر خواہش کا حصول ایک سنجیدہ اور مسلسل کوشش کا تقاضا کرتا ہے۔ یقیناً، سفر کا ابتدائی مقام حاصل ہوتے ہی منزل کی امید پیدا ہوجاتی ہے۔
مسلمانوں کے سفر کا ابتدائی نقط یہ ہے کہ گھر میں پیدا ہونے والے ہر بچہ کے لیے اردو اور عربی زبان سیکھنا کمپلسری (compulsory) کر دیا جائے، اور اللہ تعالی سے خیر کی دعائوں کے ساتھ اس کی رحمتوں کا انتظار کیا جائے۔ ہندی اور انگریزی زبان کو اچھی طرح سیکھنے کے لیے اسکولی تعلیم کافی ہے۔ کالج/یونی ورسٹی تک پہنچتے پہنچتے بچہ خود ہی اپبے مستقبل کے لیے لائحہ عمل مرتب کرسکتا ہے۔
اپنے ماضی کے تقدس اور علمی روایات کو زندہ رکھنے کی خاطر اسرائیلی (یہود) قوم نے زبردست کوششوں سے اپنی کسی قدر مردہ عبرانی (Hebrew) زبان کو زندہ کرلیا ہے۔
"Hebrew is the only Canaanite language still spoken today, and serves as the only truly successful example of a dead language that has been revived”.
(With thanks to Google!)
اس کے برعکس، اردو تو پھر بھی ابھی ایک زندہ زبان ہے۔ اس لیے، اس کو آگے بھی زندہ رکھنے کے لیے بہت زیادہ محنت درکار نہیں ہوگی۔ صرف مستقل طور پر اس کے ساتھ وابستہ رہنے کی ضرورت ہے۔
٭ عبدالرحمٰن