بھوپال میں مسلم علماء کے ایک گروپ نے کھرگون اور بروانی اضلاع میں حالیہ فرقہ وارانہ تشدد کے بعد ریاستی حکومت کی بلڈوزر مہم کے خلاف مدھیہ پردیش ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔
شہر قاضی سید مشتاق علی ندوی کی قیادت میں علماء نے الزام لگایا کہ ریاستی حکومت نے کئی مسلم خاندانوں کو بے گھر کر دیا اور انہیں اس شدید گرمی میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا۔
علماء نے بی جے پی کی زیرقیادت ریاستی حکومت پر تعصب اور تشدد کے معاملات کی بغیر کسی پیشگی تحقیقات کے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا الزام بھی لگایا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بہت سے خاندانوں کے مکانات گرادیے گئے حالانکہ خاندان کا کوئی فرد تشدد میں ملوث نہیں تھا۔ اور ان تین مسلم نوجوانوں کے گھروں کو بھی منہدم کردیا گیا جو مارچ سے قتل کے الزام میں جیل میں بند تھے۔
حکومت کسی کے گھر کو کیسے گرا سکتی ہے جب یہ پردھان منتری آواس یوجنا (PMAY) کے تحت بنایا گیا تھا، انہوں نے اس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھا کہ ضلع انتظامیہ نے کھرگون میں PMAY کے تحت بنائے گئے ایک مکان کو بلڈوز کر دیا۔
مشتاق علی ندوری نے کہا کہ”ہم نے ہائی کورٹ میں حکومت کے بلڈوزر چلانے کی مخالفت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم نے آپس میں اس مسئلے پر بات چیت کی ہے اور ہم یقینی طور پر اس یکطرفہ مہم کے خلاف عدالت میں جانے والے ہیں‘‘۔
10 اپریل کو فرقہ وارانہ جھڑپوں کے ایک دن بعد کھرگون اور باروانی اضلاع میں فسادات کا الزام عائد کرتے ہوئے مسلمانوں کے گھروں کو منہدم کرنے کی مہم شروع کی گئی تھی۔ ریاستی حکومت نے کہا کہ بلڈوزر مہم غیر قانونی تجاوزات کے خلاف شروع کی گئی تھی۔ حالانکہ جن لوگوں کے گھر منہدم کیے گئے ہیں انہیں کسی قسم کا کوئی نوٹس نہیں بھیجا گیا۔