مدھیہ پردیش کے کھرگون میں رام نومی فسادات کے ملزمین کی فہرست میں 5 مارچ سے جیل میں بند تین مسلم افراد کا نام بھی شامل کیا گیا ہے۔ اتوار کو ہونے والے فسادات کے بعد فسادات کا الزام میں سے ایک کا گھر 11 اپریل کو 16 دیگر مکانات کے ساتھ مسمار کر دیا گیا۔
مقدمے میں نامزد افراد میں شہباز، فکرو اور رؤف بھی شامل ہیں۔ ان تینوں پر 10 اپریل کو رام نومی جلوس کے دوران کھرگون میں فسادات کرنے کا جھوٹا الزام لگایا گیا۔ این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق تینوں گزشتہ ماہ گرفتاری کے بعد سے جیل میں قید ہیں لیکن ان پر 10 اپریل کو بروانی ضلع کے سینڈوا میں ایک موٹر سائیکل کو آگ لگانے کا الزام ہے۔ ان پر اسی پولیس اسٹیشن میں فسادات کا الزام عائد کیا گیا ہے جہاں ان پر قتل کی کوشش کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
اس کوتاہی کے بارے میں پوچھے جانے پر باروانی کے پولیس حکام نے کہا کہ شکایت کنندہ کے بیان کی بنیاد پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ سینئر پولیس افسر منوہر سنگھ نے این ڈی ٹی وی کے حوالے سے بتایا کہ ’’ہم معاملے کی تحقیقات کریں گے اور جیل سپرنٹنڈنٹ سے اس کی معلومات لیں گے، مقدمہ شکایت کنندہ کے الزامات کی بنیاد پر درج کیا گیا ہے۔
دریں اثناء شہباز کی والدہ سکینہ نے الزام لگایا کہ حکام کی جانب سے ان کے گھر کو بلڈوز کرنے سے قبل انہیں کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔ سکینہ نے این ڈی ٹی وی کے حوالہ سے بتایا کہ ”پولیس یہاں آئی، میرا بیٹا تقریباً ڈیڑھ ماہ سے جیل میں ہے۔ اسے لڑائی کے بعد گرفتار کیا گیا لیکن پولیس نے آکر ہمیں باہر پھینک دیا، میرا بچہ جیل میں ہے تو میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ اس کے خلاف ایف آئی آر کیوں درج کی گئی۔ ہم نے پولیس والوں کو بتایا کہ وہ جیل میں ہے لیکن کوئی ہماری بات سننے کو تیار نہیں تھا۔ ہم نے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی۔ وہ میرے چھوٹے بیٹے کو بھی لے گئے ہیں‘‘۔
کھرگون میں رام نومی کے موقع پر ہونے والے تشدد میں کم از کم دس گھروں کو آگ لگا دی گئی، اور کھرگون کے پولیس سپرنٹنڈنٹ سدھارتھ چودھری سمیت دو درجن سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے۔
کھرگون میں تشدد کے بعد ایم پی کے وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان نے تشدد کے ملزمین کے خلاف سخت کارروائی کی بات کی تھی وہیں وزیر داخلہ نروتم مشرا نے ایک انتباہ جاری کرتے ہوئے کہاتھا "جس گھر سے پتھر آئے ہیں ان گھروں کو پتھروں کا بنادیا جائے گا۔
اس کے بعد ضلعی انتظامیہ نے پیر کے روز مسمار کرنے کی مہم چلائی، قصبے کے پانچ علاقوں میں 16 مکانات اور 29 دکانیں گرادی گئیں، جن میں شہباز کا گھر بھی شامل تھا، جو فسادات کے وقت جیل میں تھا۔