رمضان کا مہینہ آگیا، ہر سو رحمت کی بارش شروع ہو ئی ، خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس باران رحمت سے فائدہ اٹھانے کے لیے پوری طرح تیار ہیں.
جنہوں نے اس ماہ میں اپنی اخروی زندگی کو بنانے اور دنیاوی زندگی کو صحیح سمت اور صحیح ڈگر پر گامزن کرنے کے لیے کمر کس لیا ہے ، رحمت کے اثرات مسجدوں میں بھی نظر آتے ہیں، اور بازاروں میں بھی، رونقیں دونوں جگہ ہوتی ہیں، کشش ہر دو میں ہوتی ہے، جن کے دل اللہ کی طرف مائل ہیں اپنی زندگی میں فوز وفلاح چاہتے ہیں، اور آخرت میں جنت کے طالب ہیں، ان کی توجہ مسجدوں اور اعمال خیر کی طرف ہوتی ہے.
بازار میں ان کا وقت ضرورت کے مطابق ہی گذرتا ہے ، انہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہر وقت یاد رہتا ہے کہ روئے زمین پر مسجد سب سے اچھی جگہ او ربازارسب سے بُری جگہ ہے ، اس احساس کی وجہ سے ضروریات زندگی کی خرید وفروخت کے لیے ان کا بازار جانا ہوتا ہے ، لیکن دل مسجد میں ہی اٹکا ہوتا ہے ، یہ وہ لوگ ہیں جن کا شمار صالحین میں ہوتا ہے اور رحمت خدا وندی انہیں اس ماہ میں خصوصیت سے شرابور کردیتی ہے.
وہ رمضان کے پہلے عشرہ کا سفر حصول رحمت کے لیے کرتے ہیں، دوسرے عشرہ میں انہیں مغفرت کا مژدہ ملتاہے اور اخیر عشرہ میں انہیں جہنم سے گلو خلاصی کا پروانہ مل جاتا ہے ، مؤمن کا مطلوب ومقصود یہی تو ہے۔
اس بابرکت مہینے میں بھی بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن پر مسلسل ہو رہی باران رحمت کا کوئی اثر نہیں ہوتا ، ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ، لہو ولعب کی مشغولیات میں کوئی کمی نہیں ہوتی، نزول رحمت اور شیطان کے پابند سلاسل ہونے کے با وجود ان کے اعمال اور حرکات وسکنات پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور وہ حسب سابق نافرمانیٔ الٰہی میں لگے ہوتے ہیں ، ان کے پاس دل ہوتا ہے، لیکن سمجھنے کی قوت نہیں ہوتی، انہیں قوت سماعت ملی ہوتی ہے، لیکن وہ اچھی باتیں سننے سے محروم ہوتے ہیں، ان کے پاس آنکھیں ہوتی ہیں، لیکن وہ صحیح چیزوں کو نہیں دیکھ پاتے.
ان کی ذات پر اس باران رحمت کا اثر اس لیے نہیں ہوتا کہ ان کے دل پتھر سے زیادہ سخت ہوتے ہیں، زیادہ سخت، اس لیے کہ بعض پتھر سے تو پانی کے چشمے پھوٹتے ہیں، نہریں نکلتی ہیں، وہ خشیت الٰہی سے گر بھی پڑتے ہیں، لیکن ان لوگوں کے دل کے سوتے ایسے خشک ہوتے ہیں کہ رمضان کے مہینے میں بھی ان کی آنکھوں سے آنسو نہیں نکلتے اور ان کے دل خوف خدا سے نہیں لرزتے، اور وہ اپنی ڈگر پر چلتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ موت انہیں آلیتی ہے، او روہ ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم کے ایندھن بن جاتے ہیں، اللہ رب العزت سے ایسی زندگی سے پناہ چاہنی چاہیے، اور کوشش آخری حد تک اس کی کرنی چاہیے کہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کو رو دھو کر منالیں۔
کاغذ پر بہت سے حروف ونقوش ابھرے ہوتے ہیں، ان کے صاف کرنے کے لیے ہم ربر کا استعمال کرتے ہیں،تو کاغذ صاف وشفاف ہوجاتا ہے اور ہمارے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ ہم اس کا غذ کو پھر سے کام میں لاکر اپنی من پسند چیزیں لکھ سکیں ، یہی حال تو بہ واستغفار کا ہے ، ہماری بد عملی اور بے عملی کی وجہ سے ہمارے دل پر گرد جم گئی ہے؛ بلکہ متواتر اور مسلسل گناہ کی وجہ سے یہ کالا ہو گیا ہے۔ اس پر کوئی دوسری تحریر نہیں اُگ پا رہی ہے.
ضرورت ہے دل کی سیاہی کی صفائی کی، جب تک یہ سیاہی دور نہیں ہوگی، گناہ کے اثرات ختم نہیں ہوں گے، طاعت وبندگی کے حروف اُگانے کے لیے پہلے اس سیاہی کو صاف کرنا ہوگا، توبہ استغفار، گناہوں پر ندامت اس ربر کی طرح ہے ، جس سے نا پسندیدہ الفاظ وحروف کو مٹایا جا سکتا ہے، اللہ بھی کیسا غفور الرحیم ہے، بندہ جب تو بہ استغفار کرتا ہے، ندامت کے آنسو بہاتا ہے ، اللہ سے اچھی امید رکھتا ہے تو اللہ اس کو ایسا بنا دیتے ہیں، جیسے اس نے کبھی گناہ کیا ہی نہیں تھا.
آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے کبھی گناہ کیا ہی نہیں ہے ، اس توبہ پر رحمت خدا وندی کو ایسا جو ش آتا ہے کہ وہ گناہوں سے تو پاک کر ہی دیتاہے ، ان گناہوں کو بھی نیکیوں میں تبدیل کر دیتا ہے ، جو اس نے توبہ سے قبل کیے تھے، صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ مراحم خسروانہ کا لفظ انسانوں پر مجازی معنی میں بولا جاتا ہے ، حقیقی مرحمت کا تعلق تو اللہ رب العزت کی ذات سے ہے ، دوسرا کوئی ایسا ہوہی نہیں سکتا، کیوں کہ اللہ کی کٹیگری کا دوسرا ہے ہی نہیں ۔ وَلَمْ یَکُنْ لَہٗ کُفُوا اَحَد۔
رمضان المبارک کے اس مہینے میں روزہ سب سے بڑی عبادت ہے، جو پورے شرعی تقاضوں کے ساتھ بند ے نے رکھا ہو ۔ تلاوت قرآن، تہجد کا اہتمام ، ذکر واذکار کی کثرت، تراویح کی پابندی، فرض نمازوں کی با جماعت ادائیگی ، غرباء ومساکین کا خیال، جھگڑے لڑائی سے اجتناب اور پر ہیز ان چیزوں میں سے ہے جس سے روزہ، روزہ بنتا ہے، پورے ماہ اس طرح کا روزہ رکھیے کہ سال بھر نیکیوں کی طرف دل مائل رہے اور برائیوں سے نفرت پیدا ہوجائے۔
لیکن بعض بدبخت وہ بھی ہوتے ہیں جن کے قلوب اس مہینے میں بھی شیطان کے نرغے میں ہوتے ہیں، شیطان پابند سلاسل ہوتا ہے، لیکن اس کے اثرات کسی نہ کسی درجہ میں انسانوں پر باقی رہتے ہیں، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کا نفس امارہ ہی شیطان بن جاتا ہے، اور اس ماہ میں چل رہی باد بہاری سے وہ متاثر نہیں ہوتا، بالکل اسی طرح جس طرح رحمت کی برسات بھی اُسّراور بنجر زمینوں میں ہر یالی پیدا کرنے میں ناکام رہتی ہے، وہ حسب سابق مسجد کا رخ نہیں کرتے ، روزہ نہیں رکھتے اور بہت بے شرمی سے ہوٹلوں میں کھاتے رہتے ہیں، پہلے شرم ایسوں کو آتی تھی، ان کے شرم کی حفاظت کے لیے ہوٹلوں پر پردے پڑے ہوتے تھے اور ایسے لوگ چھپ کر کھا یا کرتے تھے، اب یہ شرم ختم ہو گئی ہے ، گھر اور باہر سب جگہ ایسے روزہ خوروں کی بڑی تعداد دیکھنے کو ملتی ہے، گو اب بھی بعض ہوٹلوں پر پردے پڑے ہوتے ہیں، لیکن دن بدن اس میں کمی آتی جا رہی ہے، جو اچھی علامت نہیں ہے.
ان روزہ خوروں سے پوچھیے کہ سال کے گیارہ مہینے تو کھاتے ہی ہو، ایک مہینہ دن میں اللہ کی خوشنودی کے حصول اور فرض کی ادائیگی کے جذبے سے نہ کھاؤ تو کیا فرق پڑتا ہے تو بڑی لجاجت سے کہیں گے کہ حضرت! طبیعت خراب رہتی ہے، ڈاکٹروں کی ہدایت ہے کہ روزہ نہ رکھوں؛ اس لیے مجبوری ہے، یقینا مریضوں کو چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ صحت یابی کے بعد قضاء رکھیں ، لیکن عموما یہ بیماری فرضی ہوتی ہے اوررمضان میں روزہ خوری کے بعد کبھی روزے کی قضا کا خیال بھی نہیں آتا، حالاں کہ روزہ عبادت بھی ہے اور مختلف امراض کا علاج بھی ۔
جدید تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ روزہ رکھنے سے جسم کی قوت مدافعت بڑھتی ہے، چوں کہ اعضاء رئیسہ کو روزے کی حالت میں آرام ملتا ہے اور اس آرام کے نتیجے میں ان کی کارکردگی بڑھ جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ رمضان میں معدہ کے مریض کو بھی اسہال کی شکایت نہیں ہوتی، پیٹ خراب نہیں ہوتا، ہارٹ کے مریضوں میں دل کی بے چینی اور سانس پھولنے کی تکلیف کم ہوجاتی ہے، دفاع کی صلاحیت بڑھ جانے کی وجہ سے جسمانی کھچاؤ اور ڈپریشن سے بھی نجات مل جاتی ہے.
روزہ خوروں کی ایک بڑی تعداد شوگر کے مریضوں کی ہے ، اور انہیں ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق ہر دو گھنٹے پر کچھ نہ کچھ کھانا ہوتا ہے، یہ عذر صحیح ہے، لیکن اگر آپ کی قوت ارادی مضبوط ہے اور اللہ کے فضل پر بھروسہ ہے اور آپ روزہ رکھنا چاہتے ہیں تو اللہ کی نصرت آپ کے ساتھ ہوگی اور شوگر کنٹرول ہو جائے گا۔
ضرورت قوت ارادی کی ہے، آپ روزہ نہیں رکھنا چاہتے تو آپ کا نفس جواز کے لیے دسیوں اسباب ومحرکات پیش کردے گا ، اور اگر آپ رکھنا چاہتے ہیں تو صرف اللہ کی خوشنودی کے حصول کا جذبہ پورے مہینے آپ کو روزہ رکھنے پر خوش دلی سے تیار کردے گا۔
حال ہی میں شائع ایک تحقیق کے مطابق روزہ کینسر جیسے موذی مرض کی روک تھام میں بھی مؤثر کردار ادا کرتا ہے، اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ روزہ کی حالت میں گلوکوز کی کمی ہوجاتی ہے جسم کو جب گلوکوز نہیں ملتا ہے تو قدرتی طور پر چربی کا استعمال شروع کر دیتا ہے، اس عمل کے نتیجے میں پروٹین چھوٹے ذرات کی شکل میں بکھرنے سے محفوظ ہوجاتے ہیں، کینسر کے خلیات اور ٹشوز اپنی نشو نما کے لیے ان ذرات کا سہارا لیتے ہیں، روزے کی حالت میں یہ ذرات نہیں ملتے تو کینسر کی نشو نما نہیں ہوپاتی.
روزہ موٹا پے کے مریضوں کے لیے بھی نعمت ہے، اس سے وزن کم ہوتا ہے اور روزہ رکھنے والے کو ڈائٹنگ یعنی غذا میں کمی کی ضرورت نہیں پڑتی، جاپان کے ایک ڈاکٹر ٹیسدایوشی ہیسی کے مطابق روزہ رکھنے سے بانجھ پن دور ہوجاتا ہے ، اس کا تجربہ اس نے چھ خواتین پر کیا ، جن میں سے چار خواتین، تین مہینے کے اندر حاملہ ہو گئیں اور انہوں نے صحت مند بچوں کو جنم دیا ، اسی طرح نفسیاتی مریضوں کے لیے بھی روزہ رکھنا مفید ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے ذہنی تناؤ میں کمی آتی ہے اور بندہ کی توجہ ہمہ وقت مولیٰ کی طرف ہوتی ہے جس سے اسے ذہنی سکون ملتا ہے۔
مختصر یہ کہ روزہ خوری عام حالات میں معصیت ہے، سوائے ان لوگوں کے جو واقعتا مریض ہیں، جو عورتیں حاملہ ہیں، جو دودھ پلا رہی ہیں اور جو لوگ مسافر ہیں ان کو شریعت نے روزہ مؤخر کرنے کی اجازت دی ہے، لیکن مؤخر کرنا اور چیز ہے اور سرے سے روزہ نہ رکھنا بالکل دوسری چیز ، اس فرق کو ہمیں ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے ، سِرے سے روزہ نہ رکھنا ایسا جرم ہے جس کی تلافی کے لیے کوئی کفارہ نہیں ہے۔
سن ایاس کو پہونچا ہوا شخص جو روزہ کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس کو شریعت نے روزہ کے بدلے بعض حالتوں میں فدیہ دے کر اس کی تلافی کی اجازت دی ہے ، ان کے علاوہ جو لوگ روزہ خوری کرتے ہیں، وہ اللہ سے بغاوت کرتے ہیں، او راللہ کا باغی کبھی کامیابی وکامرانی سے سر فراز نہیں ہو سکتا.
خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ ہوٹل کے گیٹ پر پردہ کرکے کھانے اورڈاکٹروں کے فرضی نسخے دکھاکرآپ لوگوں کو تومطمئن کر سکتے ہیں، لیکن اس مالک کائنات کو جو دلوں کے احوال کو جانتا ہے اور جس کے نزدیک جلوت کے تماشے اور خلوت کی بے راہ رویوں کو چھپا یا نہیں جا سکتا، اس سے بچ کر کہاں جائیے گا اور اس کو کس طرح دھوکہ دے پائیے گا۔
اللہ نے اپنے کرم سے شیطان کو پابند سلاسل کر دیا ہے، تاکہ خیر کی طرف لوگ متوجہ ہوں اور اپنے رب کی مغفرت کی طرف دوڑیں ، لیکن اگر ہم نے اپنے نفس امارہ کو پابند سلاسل نہیں کیا تو وہ اس پورے ماہ کی برکت ، رحمت اور مغفرت کو کھا جائے گا، قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے.
رمضان کے اس بابرکت مہینے میں عہد کیجئے کہ ہم اپنی زندگی میں ایسی تبدیلی لا ئیں گے ، جس سے ہمارا مولیٰ راضی ہو جائے گا اور ہم حضرت جبرئیل کی اس وعید کے مستحق نہیں ہوں گے ۔ جس پر آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر سے اترتے ہوئے آمین کہی تھی ۔