کسی بھی قسم کے شکوک و شبہات سے بالاتر، رمضان المبارک کا پاکیزہ مہینہ اللہ تعالی کی رحمتوں، نعمتوں اور خیر و برکت کا مہینہ ہے۔ صرف کتابوں میں درج ہونے کی وجہ سے، آپس کی گفتگو کے اعتبار سے یا اس کی شان میں بہترین شاعری تخلیق کیے جانے کے پس منظر میں ہی ماہ رمضان خیر و برکت کا مہینہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک حقیقتِ واقعہ کا بیان ہے کہ ” رمضان کا مہینہ بڑی برکتوں کا ہے”۔
خلوص دل کی کیفیت کے ساتھ، ہر مومنِ خاص و عام رمضان کے بابرکت اور مقدس مہینے میں، اللہ تعالی کی ہمہ جہت رحمت و برکت کے ہمہ وقت نزول کا مشاہدہ کرسکتا ہے۔ جس طرح اللہ تعالی اپنے روزہ دار بندوں کو ان کے روزے کا بے حساب اجر عطا کرتا ہے، بلکل اسی طرز پر اس نے ایک ماہ کے روزوں کے لیے مخصوص رمضان المبارک کو بھی اپنی لا محدود مہربانیوں اور عنایات سے بھر دیا ہے، جس کی وسعتوں کا احاطہ ہر کس و ناکس کے لیے ممکن نہیں۔
زیر نظر مضمون میں، مختلف تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں اور مختلف زاویوں سے، جملہ کائنات کے رحمٰن و رحیم پروردگار کی بے پایاں رحمتوں، نعمتوں، برکتوں اور عنایتوں کی نسیم و شمیم کے کچھ لمس محسوس کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اللہ تعالی مدد فرمائے۔
رمضان المبارک، اسلامی کیلینڈر کا نوواں مہینہ ہے۔ رمضان سے پہلے شعبان المعظم (آٹھواں) آتا ہے، اور اُس سے پہلے رجب المرجب (ساتواں) وارد ہوتا ہے۔ ماہِ رجب میں ہی مومنین کو گویا رمضان کی خوشبو آنے لگتی ہے، جب کہ ماہِ شعبان آتے آتے، رمضان کا مہینہ خود ہی آتا ہوا نظر آنے لگتا ہے۔
اللہ تعالی نے ایک سال کی مدت کو بارہ مہینوں میں تقسیم کیا ہے، جن میں سے چار کو ‘حرمت’ (sanctity) والے مہینے قرار دیا گیا ہے۔
ان ہی چار مہینوں میں ماہ رجب بھی شامل ہے۔ اسی پس منظر میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے یہ بیان نقل کیا جاتا ہے کہ "رجب اللہ کا مہینہ اور شعبان میرا مہینہ اور رمضان المبارک میری امت کا مہینہ ہے”۔ اسی کے ساتھ، یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ رجب کا چاند دیکھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی سے یوں دعا مانگتے تھے:
"اے اللہ، ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکتیں عطا فرما اور ہمیں رمضان کا مہینہ نصیب فرما”۔ شعبان کے مہینے میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے روزوں کا اہتمام بھی کیا کرتے تھے (سنن ابو داؤد: 2431)۔
رمضان کی آمد سے ایک مہینہ قبل، یعنی شعبان میں ہی مسلمانوں کے اندر اخلاص اور سنجیدگی بڑھتی ہوئی نظر آنے لگتی ہے، اور ان میں سے بیشتر کی حالت کچھ ایسی محسوس ہونے لگتی جیسی کسی شخص کی اپنے عزیزِ خاص کے انتظار میں ہوجایا کرتی ہے۔ اعلیٰ درجہ کی صاف صفائی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ گھروں کی رونق میں نورانیت جھلکنے لگتی ہے، اور گھر کے تمام افراد کی طبیعت میں مزید تقویٰ و طہارت کا میلان پیدا ہوتا ہوا نظر آنے لگتا ہے، گویا اللہ تعالی کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول صرف ماہ رمضان تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ وہ دو ماہ قبل ہی شروع ہوجاتا ہے۔ ایک ماہ قبل تو اللہ کے بندے گویا رمضان کی دلفریب فضاء میں جینے لگتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے اتباع میں، کثیر تعداد میں مسلمان بھی شعبان کے مہینے میں کئی کئی روزے رکھتے ہیں۔
شعبان المعظم کے مہینے کی مختلف تاریخوں میں روزوں کا اہتمام کرتے ہوئے مسلمانوں کی بڑی تعداد گویا رمضان کے روزوں کی مشق (rehearsal) کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ جیسے جیسے رمضان المبارک قریب آتا جاتا ہے، آفاق و انفس کی رعنائیاں بڑھتی ہوئی محسوس ہونے لگتی ہیں۔ چشم بصیرت سے دیکھنے والے زمین سے آسمان تک اپنے رب کی تجلیات کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ ماہِ رمضان المبارک کے طلوع ہوتے ہی گویا انوار کی بارش شروع ہوجاتی ہے۔
یہ نورانی سلسلہ ماہ شعبان کی 29 ویں تاریخ سے پورے آب و تاب کے ساتھ وقوع پذیر ہوجاتا ہے، جب رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے لیے چھتوں پر لوگوں کا ہجوم امڈ پڑتا ہے۔ جو رمضان المبارک اور عید الفطر کے چاند کے دیدار کا جوش و خروش مسلمانوں میں دیکھنے کو ملتا ہے اس کا کوئی ثانی نہیں۔
مسلمانوں کو رمضان المبارک سے پہلے جس طرح رجب اور شعبان کی خوشیاں حاصل ہوتی ہیں، اُسی طرح، بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر رمضان المبارک کے بعد عید الفطر جیسی بڑی خوشی ان کو ان کے رب کی طرف سے عطا کی جاتی ہے۔ عید الفطر کی منادی کرنے والی ‘چاند رات’ کا دوسرا بامعنی نام ‘لیلتہ الجائزہ’ ہے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے- انعام کی رات، جس میں اللہ تعالی اپنے روزہ دار بندوں کو اپنی شان کے مطابق انعام و اکرام سے نوازتا ہے۔
خاص طور پر، اپنی نوجوان (English medium) نسل کو یہ باور کرانا نہایت ضروری ہے کہ مسلمانوں میں چاند دیکھنے کی جو روایت چلی آرہی ہے، وہ چاند کے کسی ‘ تقدس’ (holiness) کی وجہ سے نہیں ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ "اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں یہ رات اور دن اور سورج اور چاند، سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اس خدا کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے اگر فی الواقع تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو” ( حٰم السجدہ-41: 37)
قرآن کے مختلف بیانات کی روشنی میں، اللہ چاہتاہے کہ اس کے بندے کائنات کی معنویت، حکمت اور انسانوں کے لیے اس کی افادیت کے ادراک کی غرض سے کائنات میں پھیلی ہوئی نشانیوں پر غور و فکر کریں اور اپنے پروردگار کی معرفت (عظمت اور بڑائی کا ادراک) حاصل کریں۔ اللہ تعالی نے انسان کو اپنی عبادت یعنی بندگی، یا دوسرے الفاظ میں اپنی معرفت کے لیے پیدا کیا ہے (الذاریات-51: 56)، جب کہ کائنات کی بقیہ چیزوں کو انسان کے استعمال کے لیے مسخر کردیا گیا ہے تاکہ وہ ان سے فیض حاصل کرے، ان کی تخلیق میں غور و فکر کر کے اپنے شعور کو بلند کرے اور اپنے محسن اور منعم پروردگار کا شکر بجا لانے۔
مندرجہ بالا اقتباس کے ذیل میں، اللہ تعالی نے چاند کو متعدد انسانی فائدوں کے علاوہ ان کے لیے سال (کیلینڈر) کا حساب رکھنے کا بھی ذریعہ بنا دیا ہے۔ زمین کے گرد چاند کے ایک چکر کی مدت ‘مہینہ’ کہلاتی ہے۔ چاند کی ایک دلچسپ خوبی یہ ہے کہ اس کا مہینہ 29 دن کا بھی ہوسکتا ہے اور 30 دن کا بھی۔ 29؍30 دن کے پس منظر میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو تاکید کی ہے کہ وہ ہر مہینے کی 29 تاریخ کو چاند دیکھ لیا کریں۔ چاند نظر آ جانے پر نیا مہینہ شروع ہوجائے گا، ورنہ موجودہ مہینے کے 30 دن پورے کرلیے جائیں گے۔ اسی لیے 30 تاریخ کو چاند دیکھنے کی ضرورت نہیں رہتی ہے۔
کسی دوسرے حساب کی آمیزش کے بغیر چاند کا کیلینڈر (Lunar calendar) ہی دراصل، اسلامی ہجری کیلینڈر ہے۔ اس کا پہلا مہینہ ‘محرم’ جب کہ بارہواں اور آخری مہینہ ‘ذی الحجہ’ کہلاتا ہے۔ دوسری جنتریوں (calendars) کی مانند چاند کے حساب میں کوئی کمی بیشی نہ ہونے کی وجہ سے اس کیلینڈر کو فطری (natural calendar) بھی کہتے ہیں، کیوں کہ اس کیلینڈر کی رو سے کوئی بھی مہینہ کسی بھی موسم میں آسکتا ہے۔ مثال کے طور پر، موجودہ رمضان کا مہینہ 3؍اپریل (سن 2022ء) کو شروع ہوا ہے، تو اگلے سال رمضان المبارک مارچ کے مہینے میں ہی شروع ہوجائے گا، جب کہ چوتھے سال میں اس کی رویتِ ہلال ماہ فروری میں ہوگی۔
گریگورین (Gregorian) یا انگریزی کیلینڈر ( Solar dating system)، جس میں جنوری، فروری، ۔۔۔ دسمبر مہینے ہوتے ہیں اور جس سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں، کے مقابلے چاند کا کیلینڈر تقریباً 11 دن چھوٹا ہوتا ہے، اور اسی وجہ سے سال کا ہر مہینہ ہر موسم کا مزہ چکھ لیتا ہے۔ 70 سال کی عمر کا کوئی بھی شخص دو مرتبہ ہر ایک موسم میں رمضان المبارک کا لطف حاصل کرسکتا ہے۔
پنج وقتہ نماز کے اوقات سورج کے طلوع اور غروب کی مطابقت میں ہی تشکیل دیے گئے ہیں، مگر کسی بھی نماز کی ادائیگی کے لیے سورج دیکھنے کی ضرورت پیش نہیں آتی، کیوں کہ ماہرین فلکیات (Astronomers) نے بہت پہلے ہی صبح صادق (dawn) سے لے کر غروب آفتاب (sunset) کے اوقات کا احاطہ کرنے والا دائمی کیلینڈر تیار کردیا ہے۔ دنیا بھر میں، ساری نمازیں اسی ٹائم ٹیبل کے حساب سے ادا کی جاتی ہیں۔ آج اکیسویں صدی میں، چاند کی گردش کے متعلق بھی اسی طرح کا چارٹ تشکیل دیا جانا ممکن ہے، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان کب اس جانب توجہ کرتے ہیں۔
رمضان المبارک کے روزوں کے متعلق قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے: "اے ایمان والو، تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے والوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو” (البقرہ-2: 183)۔ ‘ تقویٰ’ کا مطلب ہوتا ہے اللہ تعالی کا خوف۔ بجا طور پر اللہ کا خوف ہی تمام بھلائیوں کا سر چشمہ ہے۔ اللہ کا خوف، یعنی اس کی عظمت اور بڑائی کا ادراک۔ جب کوئی مومن حقیقی عظمت اور بڑائی کے ساتھ اپنے پروردگار کی معرفت حاصل کرتا ہے تو اس دریافت میں یہ اعتراف خود بخود شامل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے قادرِ مطلق رب العالمین کا ایک عاجزِ مطلق بندہ ہے۔ اس کی اپنی کوئی شان نہیں۔ اس کو حاصل ہرعزت اور نعمت اس کے رب کی عنایت اور احسان ہے۔
اپنے خالق و مالک کی عظمت اور بڑائی میں جینا ہی یہ حوصلہ عطا کرتا ہے کہ ایک روزہ دار کھانے پینے جیسی بنیادی جبلت کو بھی کنٹرول کرلیتا ہے۔ حرام اور ناجائز چیزوں کے استعمال سے رک جانا ایک مومن کی شان ہے، مگر اپنے رازق کے حکم پر حلال، جائز، بلکہ کھانے پینے جیسی بنیادی چیزوں کو بھی مکمل صبر کے ساتھ ترک کردینا تقویٰ کے بغیر ممکن نہیں۔ اسی کے ساتھ، روزہ ہی ایک ایسی عبادت ہے جس میں ریا کاری کا کوئی دخل نہیں ( یعنی اس کا علم صرف روزہ دار کو ہوتا ہے یا اس کے پروردگار کو)۔
صالح اعمال پر اللہ تعالی کا عام قانون یہ ہے کہ وہ دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک اجر و ثواب عنایت کرتا ہے، مگر متعدد احادیث کی روشنی میں روزہ کی نوعیت اور کیفیت کے پیش نظر اللہ تعالی کا حکم ہے کہ ” روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر عطا کرنے والا ہوں” ۔
اللہ تعالی نے گویا اپنے روزہ دار بندوں کی تعظیم میں ہی رمضان المبارک کے پورے مہینے کو معظم بنا دیا ہے۔ رمضان المبارک کی اسی عظمت کا کرشمہ ہے کہ اس میہنے کا فیضان عام طور پر ہر خاص و عام کو حاصل رہتا ہے۔ یہ بات دیگر ہے کہ مہینہ بھر، رات و دن برستی نعمتوں کا خصوصی ادراک جتنا ایک روزہ دار کو ہوتا ہے، کسی غیر روزہ دار کے لیے ممکن نہیں۔
ہم سب کو روزوں کے ایک مہینہ طویل تربیتی (training) عرصے کو پورے اخلاص اور سنجیدگی کے ساتھ زندگی میں تقویٰ اختیار کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ قرآن مجید کے مطالعہ کے ساتھ، اپنے صبر و شکر کے داعیات کو بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے، کیوں کہ متقی ہونے میں ان عوامل کا بنیادی کردار ہے۔ جھوٹ، خیانت اور وعدہ خلافی جیسی برائیاں انسان کو منافق بنا دیتی ہیں، اس لیے ان سے محفوظ رہنے کی مشق ضروری ہے۔
جہاں ایک روزہ دار کے لیے، اپنا کھانا پینا چھوڑنے کا حکم اللہ تعالی کی طرف سے ہی صادر کیا جاتا ہے، تو وہیں اسی وقت یہ بندوبست بھی اسی رازق پروردگار کی طرف سے کردیا جاتا ہے کہ ‘روزہ کی نیت’ کرنے کے ساتھ ہی گویا روزہ دار پر اللہ کی سکینت نازل ہونے لگتی ہے، اور وہ گویا دن بھر کے لیے شکم سیر (satiated) ہوجاتا ہے۔ بے شک، اللہ تعالی اپنے بندوں کو بھوکا پیاسا رہنے کا حکم تو دے سکتا ہے، مگر ان کو بے سہارا نہیں چھوڑ سکتا۔
رمضان المبارک میں، اللہ تعالی کی رحمت و سکینت کا میں نے خود متعدد بار تجربہ کیا ہے۔ اپنا صرف ایک تجربہ یہاں نقل کرتا ہوں تاکہ یقین کی سچی کیفیت پیدا ہو۔ ریاست اتر پردیش کے گونڈا شہر میں تقریباً چار سال میری تقرری (پوسٹنگ) رہی ہے۔ میں اپنی بینک کے قریب ہی ایک رہائشی ہوٹل میں ایک کمرہ کرائے پر لے کر اکیلا رہتا تھا جہاں پانی، بجلی، پنکھا، بستر، باتھ روم اور سیکیورٹی (حفاظت ) کا معقول بندوبست تھا، مگر ہوٹل کے اندر کھانے کا کوئی انتظام نہ تھا۔ میں عام دنوں میں، لنچ بینک میں ہی منگا کر کیا کرتا تھا اور ڈنر رات کو شہر میں پیدل جاکر کرتا تھا۔ اس طرح رہنے میں، چند پریشانیوں کے مقابلے آسانیاں زیادہ تھیں، الحمدللہ۔
گونڈا رہائش کے دوران تین مرتبہ رمضان المبارک کی آمد نصیب ہوئی۔ رمضان کے دنوں میں، حالات کے پیش نظر، چار یا پانچ کھجوریں کھا کر پانی پینا میری سحری، اور اس کے بعد صبح سے شام تک آفس میں مسابقت کی کیفیت کے ساتھ کام کرنا میرے دن کا معمول رہتا تھا۔ اس ضمن میں، صرف یہی کہنا موزوں رہے گا کہ اللہ تعالی کے لیے روزہ رکھنے کی نیت ہی میرے لیے کافی ہوجاتی تھی۔
تراویح کے شروعاتی چند دنوں میں تو باقاعدہ ڈنر سے محروم ہونے کی نوبت ہی آجاتی تھی، مگر اس صورت حال میں بھی شہر کے بس اڈے پر چائے پانی حاصل ہوجانا کسی بڑی نعمت سے کم نہ تھا۔
شروع رمضان میں، تراویح میں ضرورت سے کچھ زیادہ ہی سپارے سنانے کی گویا کسی رسم کا آغاز ہوجاتا ہے، گونڈا بھی اس سے مستثنیٰ نہ تھا۔ رات کو تقریباً گیارہ بجے تک بھی نماز سے فراغت نہیں ہوپاتی تھی اور تب تک کھانے کے ہوٹل بند ہو جاتے تھے۔ بظاہر ان ساری مشکلات کے باوجود، مجھے روزہ رکھنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ روزہ کی حالت میں مجھے ہمیشہ ہی ایسا محسوس ہوتا رہا ہے، گویا اللہ کے فرشتے روزہ دار کے چاروں طرف سکینت (repose) نازل کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ میرے پاس رمضان المبارک میں اللہ کی رحمتوں کے اور بھی تجربات ہیں، اور میں سمجھتا ہوں کہ میری طرح دوسرے روزہ داروں کو بھی اللہ تعالی کے فضل و کرم کے لمس ضرور محسوس ہوئے ہوں گے۔
اللہ تعالی نے رمضان المبارک میں پورے ماہ کے روزے فرض کئے تاکہ اس کے مومن بندے تقویٰ حاصل کریں۔ تقویٰ کی بات کو اللہ تعالی نے اپنے قول تک ہی محدود نہیں رکھا، بلکہ اس ضمن میں اپنے روزہ دار بندوں کی مدد کا بھی جامع بندوبست کیا۔ رمضان المبارک کی پوری مدت کے لیے شیطان کو قید کردیا جاتا ہے۔ قید ہوجانے کی وجہ سے، شیطان مجبور اور بے اختیار ہو کر رہ جاتا ہے۔ شیطان کی یہ مجبوری اور بے اختیاری، خصوصی طور پر، عام اور کمزور مسلمانوں کے لیے بہت بڑی راحت کا سامان ہے۔
اللہ تعالی کے صالح مومنین تو ہمیشہ ہی اس حیثیت میں ہوتے ہیں کہ وہ خود کو شیطان کے مکر و فریب سے محفوظ رکھ سکیں۔ نیک صالح بزرگ ہستیوں سے تو شیطان خود بھی ڈرنے لگتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ "جب شیطان تمہیں کسی راستے پر چلتے ہوئے دیکھتا ہے تو تمہارے راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے (متفق علیہ حدیث)۔
شیطانی آلائشوں سے پاک رمضان کے پاکیزہ ماحول میں، اللہ تعالی کی بے پایاں رحمتوں اور نعمتوں کی بارش کو فطری طور پر، عام انسان بھی اپنے خالق و مالک کا ہی عطیہ تصور کرنے لگتے ہیں، اور ان کی یہی دریافت انسانی زندگی میں ‘شکر’ کے دریا رواں کردیتی ہے۔ صبح و شام کے تجربات کی روشنی میں، جب شکر کے جذبات و احساسات پورے ایک ماہ تک کسی شخص کی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں، تب وہ مبارک ساعت بھی اس کو نصیب ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے حقیقی محسن اور منعم کی نہ صرف عنایات، بلکہ اس کی ‘بڑائی’ کا بھی ادراک کرنے لگے۔
بلا شبہ، ایسے مسلمان کا کوئی ثانی نہیں جس کے صبح و شام اور رات و دن اپنے پروردگار کی بڑائی اور اس کی حمد میں گزرنے لگیں۔ ایک شخص کو مسلمان گھر میں پیدا ہونے کی وجہ سے حاصل ایمان، جب اس کی اپنی دریافت کی سطح پر پہنچتا ہے، تب وہ صاحب ایمان، گویا کائنات کی حقیقتوں کا مشاہدہ کرنے کے لائق ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالی کے ایسے ہی مومن بندوں کے دل میں امڈ رہے تشکر کے احساسات ان کی زبان پر بھی شکر کے فوارے جاری کردیتے ہیں۔
یقیناً، کسی کی زبان پر شکر و اعتراف کے فوارے جاری ہونا، انسانی دنیا میں کوئی معمولی واقعہ نہیں، کیوں کہ عام حالات میں، شیطانی وسوسوں اور اس کی رنگین رغبتوں کے زیر اثر انسان کے مونھ سے تشکر کے کلمات کا مظاہرہ مفقود ہی بنا رہتا ہے۔ اللہ تعالی کے قانون اور اصولوں کی روشنی میں، جب انسان اپنے باطن میں شکر کے جذبات و احساسات کی نشونما کے ساتھ ساتھ اپنی زبان سے بھی "اللہ کا شکر” اور "الحمدللہ” جیسے پاکیزہ کلمات ادا کرنے لگتا ہے، تو نازل ہونے والی رحمتوں اور نعمتوں کو مزید بڑھا دیا جاتاہے۔ اللہ تعالی شکر کرنے والوں کو مزید عنایت کرتا ہے ( ابراہیم-14: 7)۔
مندرجہ بالا سطور سے واضح ہوجاتا ہے کہ رمضان المبارک میں برسنے والی رحمتیں اور برکتیں، اپنے بندوں کے لیے اللہ تعالی کی دریا دلی کا ہی ثبوت ہیں۔ یہ بھی اسی کی عنایات میں شامل ہے کہ وہ اپنے بندوں کو شکر کی ‘توفیق’ بھی عطا کرتا ہے اور پھر ان کے احساساتِ شکر کی بدولت مزید نعمتوں اور عنایات سے مالامال کردیتا ہے، نہ صرف دنیا کی مختصر اور عارضی زندگی میں، بلکہ آخرت کی دائمی زندگی میں بھی۔
شعبان المعظم کی 29 یا 30 تاریخ کو غروب آفتاب کے بعد جب ہلالِ رمضانُ المبارک، یعنی نیا چاند (crescent moon) نظر آجاتا ہے، تب یہی رات رمضان کی چاند رات کہلاتی ہے اور اسی رات میں نماز عشاء کے بعد نماز تراویح ادا کی جاتی ہے۔ نماز تراویح کا یہ سلسلہ عید الفطر کا چاند نمودار ہو نے کے ساتھ ہی منقطع ہوتا ہے۔ اکثر اوقات، مسجدوں میں تراویح کی پہلی رات بہت دلچسپ ہوتی ہے۔ ذیلی سطور میں، ایک دلچسپ واقعہ کے ذیل میں ایک سنجیدہ حکمت عملی اس اعتماد کے ساتھ، وضح کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ان شاء اللہ، ضرور کوئی خیر کا نتیجہ برآمد ہوگا:
رویت ہلال کی تصدیق و اعلان کے بعد، ہماری مسجد میں، مورخہ 2؍اپریل 2022ء بروز سنیچر پہلی نمازِ تراویح کا انعقاد کیا گیا۔ اس متعلق، ایک روز قبل جمعہ کی نماز کے بعد یہ اعلان کیا گیا تھا کہ نماز تراویح میں قرآن پاک کی قرائت کا سلسلہ، ان شاء اللہ، 15 رمضان تک جاری رہے گا۔
مذکورہ اعلان کے بعد، مزید کسی وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہی اور فطری طور پر، مسجد میں مقتدی کی حیثیت میں آنے والے نمازیوں کو باور ہو گیا کہ تراویح میں روزانہ اوسطاً دو سپارے پڑھے جائیں گے۔
مگر یہ کیا؟ 20 رکعات تراویح کی 8 رکعتیں ہوتے ہوتے ہی، مسجد میں شور مچ گیا۔ لوگ پریشانی محسوس کرنے لگے اور پچھلی صفوں کے کچھ نمازی مسجد چھوڑ کر بھی جانے لگے۔ لوگوں کی ناراضگی کے درمیان یہ عُقدہ کھلا کہ امام صاحب کے گرد مسجد کی کمیٹی نے بطور خود ہی یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ پہلے دن ہی پانچ سپارے پڑھے جائیں گے۔ پیدہ شدہ افراتفری کے درمیاں منتظم حضرات معذرت خواہانہ انداز میں صفائی پیش کرتے ہوئے نظر آئے کہ کل سے ‘دو سپارے’ ہی پڑھے جائیں گے۔
سرکاری ملازمت میں ہونے کی وجہ سے، مجھے اپنے ملک کے مختلف شہروں کی مساجد میں نماز تراویح پڑھنے کا موقعہ ملا ہے، مگر مذکور بالا صورت حال ہر جگہ کم یا زیادہ کے فرق کے ساتھ، تقریباً ایک جیسی ہی پائی گئی ہے۔ میں اکثر اس صورت حال کے متعلق سوچتا رہا ہوں کہ اسلامی تعلیمات میں تو مشکل راستوں کے مقابلے آسان راستہ کو ترجیح دی جاتی ہے، پھر کیوں ہمارے معاشرے میں، پُر مشقت عمل پر زور دیا جاتا ہے؟
عبادات کے معاملہ میں تو خاص طور پر، سختی کا رویہ اپنایا ہی نہیں جاسکتا، کیوں کہ عبادت میں مشقت کے ساتھ ‘خشوع و خضوع’ (humility) کی مطلوبہ کیفیت حاصل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
مضمون ھذا کے پلیٹ فارم پر اس مسئلہ کا حل تجویز کرنا مناسب رہے گا۔ حفاظ حضرات قرآن سنانے کی غرض سے کئی دنوں پہلے سے ہی زبردست مشق کررہے ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں، حفاظ کرام کا نقطہ نظر باآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ پہلے ہی دن جتنا زیادہ قرآن سنادیں وہی ان کے حق میں بہترین ہوگا۔ مگر مسجد کے جملہ معاملات کے تناظر میں، مقتدی حضرات کا پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اسی کے ساتھ، انسان کی نفسیات میں یہ بھی شامل ہے کہ آج تکلیف اٹھا لیتے ہیں، کل سے مزے میں رہیں گے۔ مگر، ‘آج مشکل، کل آسانی’ کا فلسفہ اکثر و بیشتر الٹے نتائج پیدا کرنے کا ہی سبب ہوتا ہے۔ صرف میانہ روی (middle path) کے طریقہ کو ہی یہ وصف حاصل ہے کہ وہ سہی نتائج سے ہم کنار کرسکے۔ اس ضمن میں، ایک مزید بہتر طریقے پر بھی عمل کیا جاسکتا ہے۔ یہ طریقہ دفاتر میں بہت کام یاب نظر آتا ہے۔ دفتر کی زبان میں یہ حکمت عملی (strategy) باس (Boss) کو اعتماد (confidence) میں لینا کہلاتی ہے۔ غور کرنے پر معلوم ہوگا کہ دفتروں میں کام یابی سے ہم کنار ہونے والا طریقہ مساجد میں بھی بلا شبہ، قابل عمل ہے۔
در اصل، مسجد میں نمازی حضرات ہی امام صاحب اور اراکینِ انتظامیہ کمیٹی کے باس ہوتے ہیں۔ مذکورہ طریقہ اپنائے جانے پر نہ صرف نمازِ تراویح، بلکہ مسجد کے دوسرے تمام معاملات بھی کسی انتشار کے بغیر حل ہوسکتے ہیں۔ مسجد کمیٹی جو مناسب سمجھے وہ فیصلہ کرسکتی ہے، مگر اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے سے دو ایک دن قبل، وہ ضرور سارے نمازیوں کے سامنے اپنے فیصلے کو بیان کردے۔
کیا کمیٹی کے حضرات کسی زعم و انا کا شکار ہوجاتے ہیں کہ اتنا آسان کام بھی ان کو مشکل نظر آتا ہے؟ کئی بار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسجد کی انتظامیہ کمیٹی گویا کوئی سیاسی جماعت ہے جو اپنی فکر کو ہٹ دھرمی کے ساتھ عمل میں لانا چاہتی ہے، جب کہ اس طرح کی کمیٹیاں تو مسجد اور نمازیوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہی تشکیل دی جاتی ہیں۔
نمازیوں کے سامنے مقررہ مدت سے پہلے آپ کو صرف یہ اطلاع دینی ہے کہ مسجد کمیٹی نے فلاں یا فلاں فلاں فیصلے کیے ہیں اور مسجد اور نمازیوں کو ان فیصلوں سے یہ فائدہ یا فائدے ہونے والے ہیں۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ نیا مشورہ تو شاید ہی کوئی آئے، مگر آپ کو سارے نمازیوں کی رضامندی ضرور حاصل ہوجائے گی۔ لوگ پانچ نہیں، چھ سپارے خوشی خوشی سننے کے لیے تیار نہ ہوجائیں تو آپ ضرور مجھے کوئی سزا دے سکتے ہیں۔
یہ ایک فطری اصول ہے کہ جب آپ کسی سے مخلصانہ طور پر اپنی پلاننگ یا راز کی بات (confidentiality) اشتراک کرتے ہیں، تو مخاطب شخص کی نفسیات اس کو اپنی عزت افزائی کے طور پر دیکھتی ہے، اور بطور نیک ردعمل اس کا نفسِ لوامہ (conscience) محسوس کرتا ہے کہ اس کو بھی بدلے میں اچھائی سے پیش آنا چاہیے۔ گویا کہ آپ کا مخاطب بھی آپ کے لیے عزت افزائی کا عزم کرلیتا ہے، یعنی دوسرے الفاظ میں وہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ آپ کی بات بھی خراب نہیں ہونی چاہیے۔ حقیقتاً، اللہ تعالی کے تخلیقی قوانین کے تحت "بھلائی کا عمل دشمن کو بھی دوست بنا دیتا ہے” ( حٰم السجدہ-41: 34)۔