فلسطینی کمیشن برائے اسیران اور سابق اسیران کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے 1967 میں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر قبضہ شروع کرنے کے بعد سے اب تک 50 ہزار سے زائد فلسطینی بچوں کو گرفتار کیا ہے۔
یہ بات فلسطینی کمیشن برائے اسیران اور سابق اسیران کے امور کی طرف سے اپنی سرکاری ویب سائٹ پر فلسطینی بچوں کے دن کے موقع پر جاری کردہ ایک رپورٹ میں سامنے آئی ہے جو ہر سال 5 اپریل کو منایا جاتا ہے۔ 1995ء میں مرحوم فلسطینی صدر یاسر عرفات نے 5 اپریل کو فلسطینی بچے کا دن قرار دیا تھا۔
غزہ کی پٹی میں قیدیوں اور سابق قیدیوں کی اتھارٹی کی ایڈمنسٹریشن کمیٹی کے رکن محقق عبدالناصر فروانہ نے رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیلی غاصب فلسطینی بچوں کے ساتھ تشدد میں، تحقیقات اور نظربندی کے معاملے میں بڑوں کی طرح برتاؤ کرتے ہیں۔
کئی فلسطینی بچے ایسے ہیں جن کا بچپن اسرائیلی قید میں گذرا جن میں قابل ذکر عہد تمیمی، ملاک الغلیظ اور حسام وغیرہ شامل ہیں۔ ملاک الغلیظ کو 14 سال کی عمر میں اسرائیلی فوجیوں پر چاقو سے حملہ کرنے کے الزام میں ایک چیک پوسٹ سے انھیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
سولہ سالہ عھد تمیمی نے مبینہ طور پر ایک اسرائیلی فوجی کو تھپڑ مارا تھا۔ اس کے بعد انھیں جیل میں آٹھ مہینے گزارنے پڑے۔ عھد نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ اس کی گرفتاری کے بعد اس کے ساتھ برا سلوک کیا گیا۔ عہد تمیمی کا تھپڑ پوری دنیا میں گونجا تھا اور اس تمیمی کی گرفتاری کی دنیا بھر میں مذمت بھی کی گئی تھی۔
ملاک الغلیظ ہو یا عہد تمیمی ہو، ان لوگوں کی کہانی کوئی انوکھی نہیں۔ اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بچوں کے لیے خصوصی فوجی عدالتوں کا نظام ہے۔
غرب اردن کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فوجی قبضے کی بدولت فلسطینی بچوں پر اسرائیلی فوج کا فوجداری نظام لاگو کیا جاتا ہے۔ اسرائیلی فوج ہر سال 500 سے زائد فلسطینی بچوں کو گرفتار کر لیتی ہے جن میں سے کچھ کی عمریں 12 برس کے لگ بھگ ہے۔
کئی فلسطینی بچوں کو بغیر کسی جرم کے مظاہروں کے دوران گرفتار کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ انتہائی تشدد پر مبنی سلوک کیا جاتا ہے۔ سنہ 2017 میں اسرائیلی قابض افواج کے ہاتھوں 16 سالہ فلسطینی فوزی الجنیدی کی گرفتاری کی تصویر ایک عالمی علامت کی صورت اختیار کر گئی تھی۔
یہ تصویر فسلطینی اسرائیلی تنازع میں اُن سنگین خلاف ورزیوں کی عکّاسی کر رہی ہے جن کا فلسطینی بچوں کو قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے سامنا ہے۔ اس کے علاوہ عہد تمیمی اور دیگر کئی ایسے بچے ہیں جنہیں بغیر کسی جرم اسرائیلی قید و بند کا سامنا ہے۔
فروانہ کے مطابق، اسرائیل نے 2021 میں تقریباً 1,300 لڑکوں اور لڑکیوں کو گرفتار کیا تھا، جو پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً 140 فیصد زیادہ ہے۔ سنہ 2022 کے آغاز سے مبینہ طور پر 200 سے زائد بچوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، اور اسرائیل اب بھی تقریباً 160 بچوں کو اپنی جیلوں اور حراستی مراکز میں قید کر رہا ہے۔
اسرائیل نے مغربی کنارے پر 1967 سے قبضہ کر رکھا تھا اور اس پر بستیاں قائم کر رکھی تھیں جو کہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی تصور کی جاتی ہیں۔ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں 700,000 سے زیادہ اسرائیلی آباد کار رہتے ہیں۔