اسلام کے جو پانچ بنیادی ارکان ہیں ان میں روزے کا تیسرا درجہ ہے گویا روزہ اسلام کا تیسرا رکن ہے اس اہم رکن کی جو تاکید اور بیش از بیش اہمیت ہے اسے ماہرین شریعت ہی بخوبی جان سکتے ہیں روزہ کا انکار کرنے والا کافر اور اس کا تارک فاسق اور اشد گنہگار ہوتا ہے چنانچہ در مختار کے باب مایفسد الصوم میں یہ مسئلہ اور حکم نقل کیا گیا ہے کہ ولہ اکل عمدا اشہر بلا عذر یقتل ، جو شخص رمضان میں بلا عذ علی الاعلان کھاتا پیتا نظر آئے اسے قتل کر دیا جائے۔
روزہ کی فضیلت کے بارے صرف اسی قدر کہہ دینا کافی ہے کہ بعض علماءنے اس اہم ترین اور باعظمت رکن کے بے انتہا فضائل دیکھ کر اس کو نماز جیسی عطیم الشان عبادت پر ترجیح اور فضیلت دی ہے اگرچہ یہ بعض ہی علماء کا قول ہے جب کہ اکثر علماء کا مسلک یہی ہے کہ نماز تمام اعمال سے افضل ہے اور اسے روزہ پر بھی ترجیح و فضیلت حاصل ہے مگر بتانا تو صرف یہ ہے کہ جب اس بات میں علماءکے ہاں اختلاف ہے کہ نماز افضل ہے یا روزہ ؟ تو اب ظاہر ہے کہ نماز کے علاوہ اور کوئی بھی دوسرا عمل اور دوسرا رکن روزے کی ہمسری نہیں کر سکتا۔
روزہ کے فوائد :۔
کسی بھی عبادت اور کسی بھی عمل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت کی خوشنودی حاصل ہو جائے اور پرودگار کی رحمت کاملہ اس عمل اور عبادت کرنے والے کو دین اور دنیا دونوں جگہ اپنی آغوش میں چھپا لے ظاہر ہے کہ اس اعتبار سے روزہ کا فائدہ بھی بڑا ہی عظیم الشان ہو گا مگر اس کے علاوہ روزے کے کچھ اور بھی روحانی اور دینی فوائد ہیں جو اپنی اہمیت و عظمت کے اعتبار سے قابل ذکر ہیں لہٰذا ان میں سے کچھ فائدے بیان کئے جاتے ہیں۔
(۱) روزہ کی وجہ سے خاطر جمعی اور قلبی سکون حاصل ہوتا ہے نفس امارہ کی تیزی و تندی جاتی رہتی ہے، اعضاءجسمانی اور بطور خاص وہ اعضاءجن کا نیکی اور بدی سے براہ راسات تعلق ہوتا ہے جیسے ہاتھ، آنکھ، زبان ، کان اور ستر وغیرہ سست ہو جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے گناہ کی خواہش کم ہو جاتی ہے اور معصیت کی طرف رجحان ہلکا پڑ جاتا ہے۔
چنانچہ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جب نفس بھوکا ہوتا ہے تو تمام اعضاءسیر ہوتے ہیں یعنی انہیں اپنے کام کی رغبت نہیں ہوتی اور جب نفس سیر ہوتا ہے تو تمام اعضاءبھوکے ہوتے ہیں انہیں اپنے کام کی طرف رغبت ہوتی ہے اس قول کو وضاحت کے ساتھ یوں سمجھ لیجئے کہ جسم کے جتنے اعضاءہیں قدرت نے انہیں اپنے مخصوص کاموں کے لئے پیدا کیا ہے مثلاً آنکھ کی تخلیق دیکھنے کے لئے ہوئی ہے گویا آنکھ کا کام دیکھنا ہے لہٰذا بھوک کی حالت میں کسی بھی چیز کو دیکھنے کی طرف راغب نہیں ہوتی ہاں جب پیٹ بھرا ہوا ہوتا ہے تو آنکھ اپنا کام بڑی رغبت کے ساتھ کرتی ہے اور ہر جائز و ناجائز چیز کو دیکھنے کی خواہش کرتی ہے اسی پر بقیہ اعضاءکو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے۔
(۲) روزہ کی وجہ سے دل کدورتوں سے پاک و صاف ہو جاتا ہے کیونکہ دل کی کدورت آنکھ، زبان اور دوسرے اعضاءکے فضول کاموں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یعنی زبان کا ضرورت و حاجت سے زیادہ کلام کرنا، آنکھوں کا بلا ضرورت دیکھنا، اسی طرح دوسرے اعضاءکا ضرورت سے زیادہ اپنے کام میں مشغول رہنا افسردگی دل اور رنجش قلب کا باعث ہے اور ظاہر ہے کہ روزہ دار فضول گوئی اور فضول کاموں سے بچا رہتا ہے بدیں وجہ اس کا دل صاف اور مطمئن رہتا ہے اس طرح پاکیزگی دل اور اطمینان قلب اچھے و نیک کاموں کی طرف میلان و رغبت اور درجات عالیہ کے حصول کا ذریعہ بنتا ہے۔
(۳) روزہ مساکین و غرباءکے ساتھ حسن سلوک اور ترحم کا سبب ہوتا ہے کیونکہ جو شخص کسی وقت بھوک کا غم جھیل چکا ہوتا ہے اسے اکثر و بیشتر وہ کر بناک حالت یاد آتی ہے چنانچہ وہ جب کسی شخص کو بھوکا دیکھتا ہے تو اسے خود اپنی بھوک کی وہ حالت یاد آ جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کا جذبہ ترحم امنڈ آتا ہے۔
(۴) روزہ دار اپنے روزہ کی حالت میں گویا فقراءمساکین کی حالت بھوک کی مطابقت کرتا ہے بایں طور کہ جس اذیت اور تکلیف میں وہ مبتلا ہوتے ہیں۔ اسی تکلیف اور مشقت کو روزہ دار بھی برداشت کرتا ہے اس وجہ سے اللہ کے نزدیک اس کا مرتبہ بہت بلند ہوتا ہے جیسا کہ ایک بزرگ بشرحافی کے بارے میں منقول ہے کہ ایک شخص ان کی خدمت میں جاڑے کے موسم میں حاضر ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ وہ بیٹھے ہوئے کانپ رہے ہیں حالانکہ ان کے پاس اتنے کپڑے موجود تھے جو ان کو سردی سے بچا سکتے تھے۔
مگر وہ کپڑے الگ رکھے ہوئے تھے۔ اس شخص نے یہ صورت حال دیکھ کر ان سے بڑے تعجب سے پوچھا کہ آپ نے سردی کی اس حالت میں اپنے کپڑے الگ رکھ چھوڑے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ میرے بھائی فقراءو مساکین کی تعداد بہت زیادہ ہے مجھ میں اتنی استطاعت نہیں ہے کہ میں ان کے کپڑوں کا انتظام کروں لہٰذا (جو چیز میرے اختیار میں ہے اسی کو غنیمت جانتا ہوں کہ) جس طرح وہ لوگ سردی کی تکلیف برداشت کر رہے ہیں اس طرح میں بھی سردی کی تکلیف برداشت کر رہا ہوں اس طرح میں بھی ان کی مطابقت کر رہا ہوں۔
یہی جذبہ ہمیں ان اولیاءعارفین کی زندگیوں میں بھی ملتا ہے جن کے بارے میں منقول ہے کہ وہ کھانے کے وقت ہر ہر لقمہ پر یہ دعائیہ کلمات کہا کرتے تھے۔ اللہم لا تواخذنی بحق الجائعین۔ اے اللہ مجھ سے بھوکوں کے حق کے بارے میں مواخذہ نہ کیجئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں منقول ہے کہ جب قحط سالی نے پورے ملک کو اپنے مہیب سایہ میں لے لیا باوجودیکہ خود ان کے پاس بے انتہا غلہ کا ذخیرہ تھا مگر وہ صرف اس لئے پیٹ بھر کر نہیں کھاتے تھے کہ کہیں بھوکوں کا خیال دل سے اتر نہ جائے نیز یہ انہیں اس طرح بھوکوں اور قحط زدہ عوام کی تکلیف و مصیبت سے مشابہت اور مطابقت حاصل رہے۔