آج سماج ومعاشرہ میں بے حیائی، فحاشی اور عریانیت نے جس قدر راہ پالیا ہے، اس کی بڑی وجہ ستر وحجاب کے سلسلہ میں اسلامی احکام کی ان دیکھی ہے، مغرب نے آزادیٔ نسواں کے نام پر عورتوں کو گھر سے باہر نکالا، حجاب اور پردہ کو دقیانوسی قرار دے کر ایسا پروپیگنڈہ کیا کہ عورتوں کو حجاب، قید وبند نظر آنے لگا، چنانچہ وہ بے محابا بازاروں، گلیوں، کوچوں اور حد یہ کہ کوٹھوں کی زینت بننے لگیں، انہوں نے صرف حجاب نہیں اتارا، وہ مادر وپدر آزاد ہوگئیں۔
اس آزادی کے نتیجے میں ان کی عریاں تصویریں ماچس کے ڈبے سے لے کر بڑی بڑی مصنوعات کے پیکٹوں پر چھپنے لگیں، عورتیں ناقص العقل ہوتی ہیں، وہ مردوں کی اس سازش کو نہ سمجھ سکیں کہ مردوں نے اپنی تفریح طبع اور آنکھ سیکنے کے لیے انہیں چادر اور چہار دیواری سے نکالا ہے، مرد عورتوں کا ہاتھ بچوں کی ولادت اور دودھ پلانے میں تو نہیں بٹا سکتا، مگر روزی روٹی کے حصول میں مردوں نے عورتوں کو اپنا شریک وسہیم بنالیا، اب عورت گھریلو ذمہ داری بھی ادا کرتی ہے، نسل کی بقا کا بوجھ بھی اس پر ہے اور دن بھر آفس میں غیر مردوں کی نگاہوں کا نشانہ بنتی ہے اور گھر جب تھکی ماری آتی ہے تو گھر کا کچن اس کا انتظار کررہا ہوتا ہے، اس طرح آزادی کے نام پر عورتوں کے استحصال کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔
اسلام نے آزادی نہ مردوں کو دی، نہ عورتوں کو، دونوں کو احکام الہی کا پابند بنایا، صنفی رجحانات کے پیش نظر ان کی ذمہ داریاں الگ الگ قرار دیں، دونوں کے حقوق مقرر کیے اور دونوں کو فرائض بھی سونپے اور اس قدر حقوق دیئے کہ دوسرے مذاہب میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی، دونوں کی خدمت کا دائرہ کار مقرر کیا، مرد کو نفقہ کے حصول کے لیے تگ ودو کا مکلف بنایا اور عورتوں کو بچوں کی پرورش وپرداخت، شوہر کے مال کی نگہداشت اور امور خانہ داری کی انجام دہی کا ذمہ دیا۔
عورتوں نے اس تقسیم کو پسند نہیں کیا اور وہ مردوں کے محاذ میں جاگھسیں اور یہ بات بھول گئیں کہ یہ محاذ ان کی صنفی صلاحیتوں کے اعتبار سے قطعا غیر مناسب ہے، وہ گھر کے ماحول کو اسلامی رکھ کر اور بچوں میں غیرت اسلامی پیدا کرکے انہیں مجاہد بنانے کے لیے جد وجہد کرسکتی ہیں، لیکن وہ مجاہد بنانے کے بجائے خود میدان کار زار میں کودنا چاہتی ہیں اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ کسی اسلحہ ساز کمپنی کو محاذ پر لے جا کر رکھ دیا جائے تو یہ کمپنی میدان کار زار میں کیا کرلے گی، بلکہ ہوسکتا ہے اس کی حفاظت کی جدو جہد میں جیتی جنگ بھی ہار میں بدل جائے، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ عورت خود مجاہدہ نہیں؛ بلکہ وہ مجاہد پیدا کرنے کا کارخانہ ہے اور جب سے اس کارخانہ نے اپنا یہ کام چھوڑ دیا، مجاہد کی تعداد گھٹتی چلی گئی۔
آزادی کے نام پر عورتوں کا ایک طبقہ تو وہ ہے جس نے حجاب اتار پھینکا ہے، اور ان کا خیال ہے کہ نقاب لگانے سے مردوں کی نگاہ اس طرف زیادہ اٹھتی ہے، حضرت تھانویؒ کے ایک خلیفہ صوفی عبد الرب تھے، وہ کہا کرتے تھے کہ چلو حجاب اتار دو، اب جو لوگ گھوریں گے تو کون کون سے کپڑے اس ڈر سے اتاروگی۔
عورتوں کی ایک جماعت وہ ہے جس نے حجاب کو بے حجابی کا ذریعہ بنا رکھا ہے، ایسا پرکشش، اعضا کے سارے ابھار کو نمایاں کرنے والا نقاب پہنتی ہیں کہ خواہی نخواہی آنکھیں اٹھ جاتی ہیں، یہ کاسیات عاریات کی قبیل سے ہیں، اور دعوت گناہ کی مرتکب ہیں۔ ماضی قریب کے مشہور بزرگ حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحبؒ بار بار فرماتے تھے کہ آئوٹ لک(Out Luck)پر اگر نگاہ ٹک گئی تو ان پٹ (In Put) تک پہنچنے کی خواہش جوان ہوجاتی ہے۔
اس لیے شریعت نے ہر دو کو غض بصر کا حکم دیا، بلکہ عورتوں سے پہلے مردوں کو حکم دیا کہ وہ غص بصر کریں اور شرمگاہ کی حفاظت کریں۔ حضرت حکیم صاحب کبھی یہ بھی فرماتے کہ اگر کسی نے اوپری منزل پر جگہ بنالی، تو گرائونڈ فلور تک پہنچنے سے اسے روکا نہیں جاسکتا، اس جملہ کی معنویت پر جتنا غور کریں گے، نگاہ اور شرمگاہ کی حفاظت کی معنویت اتنی ہی واضح ہوجائے گی۔