مسلم خواتین کی تصاویر
قومی خبریں

سلی ڈیلز، بلی بائی ایپ بنانے والوں کو ضمانت

سلی ڈیلز اور بلی بائی ایپ مسلم خواتین کو ہراساں کرنے اور انہیں آن لائن نیلام کرنے کی غرض سے بنائی گئی تھی۔ سلی ڈیلز کا معاملہ جولائی 2021 میں منظر عام پر آیا تھا جب ایک خاتون نے اس کے خلاف شکایت درج کروائی تھی۔ اور بلی بائی جنوری 2022 میں منظر عام پر آیا۔

نئی دہلی: توہین آمیز "سلی ڈیلز” اور "بلی بائی” ایپس کے پیچھے مبینہ ماسٹر مائنڈز کو قومی دارالحکومت کی ایک مقامی عدالت نے ضمانت دے دی، ایک اہلکار نے بتایا۔

عدالت نے تاکید کی ہے کہ اس ضمانت کے دوران کوئی بھی ملزم ملک سے باہر نہیں جائے گا اور جب بھی عدالت کی جانب سے سماعت کے لیے بلایا جائے گا انہیں فوری طور پر پیش ہونا ہوگا۔ اس کے علاوہ تفتیشی افسر کو اپنی لوکیشن کی تفصیلات دینا ہوں گی، فون کو مسلسل آن رکھنا ہو گا اور کسی متاثرہ شخص سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔

ڈپٹی کمشنر آف پولیس کے پی ایس ملہوترا نے آئی اے این ایس کو بتایا کہ ملزمین – سلی ڈیل ایپ بنانے والا اومکریشور ٹھاکر اور بلی بائی ایپ کے لیے نیرج بشنوئی کو ضمانت دینے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ فارنسک سائنس لیبارٹری (FSL) کے نتائج تھے۔ ملہوترا نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے ملزمین کے خلاف شواہد پر انحصار کیا تھا اور تفتیش میں کسی کوتاہی کی نشاندہی نہیں کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے انسانی بنیادوں پر ضمانت دی ہے اور اس پر غور کیا ہے کہ ان افراد نے پہلی بار جرم کیا تھا اور مسلسل قید ان کی مجموعی صحت کے لیے نقصان دہ ہو گی۔

مدھیہ پردیش کے اندور کے رہنے والے 25 سالہ ٹھاکر کو دہلی پولیس نے 8 جنوری کو گرفتار کیا تھا۔ توہین آمیز ایپ جولائی 2021 میں منظر عام پر آئی تھی، جہاں مسلم خواتین کی تصاویر کو "نیلامی” کے لیے دکھایا گیا تھا۔ دہلی پولیس کے سائبر کرائم یونٹ نے 8 جولائی کو تعزیرات ہند کی دفعہ 354-A (جنسی ہراسانی) کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی۔

بلی بائی
دریں اثنا، "بلّی بائی” جنوری 2022 میں اس وقت منظر عام پر آئی جب دہلی میں مقیم ایک خاتون صحافی نے پولیس میں شکایت درج کروائی جس میں کہا گیا تھا کہ اسے ایک موبائل ایپلیکیشن پر لوگوں کے کچھ نامعلوم گروپ نے نشانہ بنایا ہے۔ ایپ گیتھب پر ہوسٹ کی گئی تھی۔

’’بلّی بائی‘‘ میں بھی خواتین کی متعدد تصاویر تھیں، جن میں صحافی، سماجی کارکن، طلبہ اور مشہور شخصیات شامل تھیں، جن کے ساتھ توہین آمیز مواد تھا۔ اس ایپ نے سینکڑوں مسلم خواتین کو "نیلامی” کے لیے لسٹ کیا۔

اس ایپ کو بنانے والے نیرج بشنوئی کو دہلی پولیس نے 6 جنوری کو گرفتار کیا تھا۔ اس سے پوچھ گچھ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ وہ سوشل میڈیا پر مختلف ورچوئل شناختوں کے ساتھ بات چیت کرتا تھا اور گروپ ڈسکشن میں مشغول رہتا تھا۔’