جنوبی اسرائیل کے شہر بیر السبع (بیئر شیوا) میں ایک شاپنگ سینٹر کے قریب مبینہ طور پر چاقو سے حملہ کرنے کے بعد ایک فلسطینی شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا، فلسطینی شخص کے چاقو حملے میں کم از کم چار افراد ہلاک اور دو زخمی ہو گئے۔
مقامی میڈیا نے مشتبہ حملہ آور کی شناخت 33 سالہ احمد القیان کے طور پر کی ہے، جو کہ ایک استاد تھا، جس کا تعلق نقب (نیگیو) کے علاقے کے قصبے حورہ سے تھا، اور اسے داعش (آئی ایس آئی ایس) گروپ سے مبینہ تعلق کے الزام میں قید کیا گیا تھا۔ اسرائیلی پولیس نے بتایا کہ اسے پٹرول سٹیشن پر ایک راہگیر نے گولی مار دی۔ حملہ آور کے ہاتھوں تین خواتین اور ایک مرد ہلاک ہوئے، اور کم از کم دو دیگر افراد زخمی ہوئے، جن میں سے ایک کی حالت نازک ہے۔
فلسطینی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیلی پولیس نے اس واقعے کے بعد حورہ میں چھاپہ مارا، سڑکیں بند کر دیں اور القیان کی رہائش گاہ کو گھیرے میں لے لیا۔ اسرائیل کی ایک عدالت نے 2015 میں اسے داعش کا رکن ہونے کا الزام لگا کر چار سال قید کی سزا سنائی تھی۔ اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ سیکورٹی فورسز "ہائی الرٹ” پر ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ ہم دہشت گردی کی کارروائیوں کے خلاف بھرپور طریقے سے کارروائی کریں گے۔ ہم ان کی پیروی کریں گے اور ان لوگوں کو گرفتار کریں گے جنہوں نے انہیں مدد فراہم کی۔
دریں اثنا، مقبوضہ غزہ کی پٹی پر حکومت کرنے والے گروپ حماس اور فلسطینی اسلامی جہاد نے اس حملے کی ستائش کی۔ حماس کے ترجمان عبداللطیف القانو نے کہا کہ فلسطینی عوام کے خلاف "قبضے کی طرف سے کیے جانے والے جرائم” کا مقابلہ ایسے ہی "بہادرانہ اقدامات” سے کیا جا سکتا ہے۔
اسلامی جہاد کے ترجمان طارق سلمی نے کہا کہ یہ حملہ "نقب میں قبضے کے جرائم کا فطری ردعمل تھا”، انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کو "ایک بار پھر احساس ہو جائے گا کہ ہمارے لوگ ہتھیار نہیں ڈالیں گے”۔
واضح رہے کہ نقب میں فلسطینی بدوؤں کو طویل عرصے سے امتیازی سلوک کا سامنا ہے کیونکہ اسرائیل نے بدوئین کے گاؤں کو صرف یہودیوں کے قصبوں سے تبدیل کرنے کے منصوبے کو آگے بڑھایا ہے۔ انہیں اکثر ریاستی خدمات بشمول پانی، بجلی اور تعلیمی سہولیات سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اسرائیلی شہریت رکھنے والے تقریباً تین لاکھ فلسطینی بدو اس خطے میں رہتے ہیں، جو کہ ملک کے رقبے کا تقریباً نصف بنتا ہے۔
ان میں سے کم از کم 30 فیصد "غیر تسلیم شدہ” دیہاتوں میں رہتے ہیں جن کو مسمار کیے جانے کا خطرہ رہتا ہے، اور انہیں اسرائیلی حکومت "ناجائز قبضہ کرنے والے” سمجھتی ہے۔