اترپردیش اسمبلی انتخابی نتائج توقع کے مطابق ہی آئے ہیں۔ موقع پرست اور سیکولر سٹس کو بی جے پی کا متبادل بننے کیلئے نہ ان میں دلچپسی تھی اور نہ ہی ان میں اعتماد تھا۔ پانچ ریاستوں اتر پردیش، اتر اکھنڈ، پنجاب، گوا اور منی پور کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کے مطابق بی جے پی پنجاب کے علاوہ چار ریاستوں میں آر ایس ایس کی طرف سے طے شدہ پالیسی اور پروگراموں کو آگے بڑھانے کے ایجنڈے پر حکومتیں بنانے والی ہے۔ 2014کے لوک سبھا انتخابات کے دوران ووٹ حاصل کرنے کیلئے ملک میں نئی ترجیحات طے کرکے عوام کے درمیان ایک واضح پیغام دیا گیا اور عوام تک پہنچایا گیا۔ بی جے پی الیکشن تو جیت گئی لیکن ساورکر۔ ہیگڈیوار۔ گولوالکر کے نظریہ کے تحت تفویض کردہ اس کام پوری طرح سے مکمل نہیں ہوسکا۔ لہذا، اسی منشور پر بی جے پی نے 2019کے انتخابات میں بھی منڈیٹ حاصل کرنے کی کوشش کی تاکہ نریندر مودی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت کے پہلے دور میں شروع کیے گئے آرا یس ایس کے پروگراموں کو مکمل طو رپر نافذ کیا جاسکے۔
بی جے پی کے حق میں ووٹ ڈالنے پر زور دیا گیا تاکہ گجرات ماڈل کو وسعت دی جائے جس کا مطلب مسلمانوں کی نسل کشی ہے یا اندرونی دشمنوں کو کمزور کرکے انہیں دوسرے درجے کے شہری بنانا ہے۔ گجرات ماڈل اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ مجرموں کو کھبی انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاسکے۔ ووٹروں کو یہ بات بھی کامیابی کے ساتھ بتائی گئی کہ ہندوستان کے اندرونی دشمنوں کو ختم اور بے اثر کرنے کیلئے پورے ملک میں ایک ہی گجرات ماڈل کے اطلاق کی ضرورت ہے۔ ترقی یا "سب کا ساتھ سب کا وکاس”تکنیکی وجوہات کی بناء پر طنز کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ گجرات ماڈل کے حقیقی معنی کو خوب پذیرائی ملی اور بی جے پی کو دوبارہ مرکزمیں اقتدار حاصل ہوئی ہے۔
پانچ ریاستوں کے انتخابات بھی اسی ایجنڈے پر لڑے گئے تھے جس میں فرقہ وارانہ منافرت، فرقہ وارانہ انتشار اور ذات پات کی وابستگی پھیلائی گئی تھی۔اس کیلئے ملک کے ہر کونے سے تربیت یافتہ اور متعصب بھیڑ کو بلایا گیا تھا۔ واضح پیغام یہ تھا کہ دیگر مسائل کو موخر کرکے گجرات ماڈل کو ترجیح اور اس پر عمل در آمد میں سہولت فراہم کرنا تھا۔ ایک طویل عرصے سے مصنوعی اکثریت پسندی ایک واحد نظریہ کے طور پر پنپ رہی ہے۔ نام نہاد سیکولر پارٹیاں یا تو اکثریتی دباؤ کے سامنے دب چکی تھیں یا ان کے پاس فسطائی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کا کوئی طریقہ کار نہیں تھا۔ لہذا، وہ ظاہری یا ڈھکے چھپے اکثریتی ضمیر کے پروگراموں کی تقلید کرتے رہے ہیں۔ بی جے پی۔ آر ایس ایس سیاسی شطرنج پر سبقت لے کر اصول طے کرتی ہے اور اپنے کمزور اور موقع پرست حریفوں پر سبقت لے جاتی ہے۔ سیکولر پارٹیوں کے پاس عوام کو یہ اعتماد دلانے کیلئے کوئی عوامی اور متبادل پروگرام نہیں ہے جس سے وہ ہندوستان میں فلاحی ریاست کو قائم کرنے کیلئے ایک بہتر، قابل بھروسہ، غیر امتیازی اور منصفانہ طریقہ فراہم کرسکیں جیسا کہ ہمارے آئین میں تصور کیا گیا ہے۔
آر ایس ایس کے زیر کنٹرول بی جے پی ہندوستان کی واحد سیاسی پارٹی ہے جس کا ایک واضح نظریہ ہے، اوپر سے نیچے تک مضبوط ڈھانچہ ہے، کام کرنے کا نظم وضبط، میڈیا کے ساتھ ساتھ کارپوریٹس کی حمایت کو بھی موثر طریقے سے منظم کیا جاتا ہے۔ دیگر تمام اہم سیاسی پارٹیوں کے پاس کوئی وژن، نظریہ، پر عزم کارکن اور سیاسی ڈھانچہ نہیں ہے جس پر انحصار کیا جائے۔ لہذا، بی جے پی کے حریف وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے حکومت مخالف جذبات کو لیکر بھی مقابلہ نہیں کرسکتے کیونکہ وہ اپنے کارکنوں اور قائدین کی ذہنیت کو جمہوری بنانے میں ناکام رہے ہیں۔انتخابات سے قبل موقع پرست، غدار، غیر معروف اور غیر منسلک لیڈروں کو میدان میں اتارنے کے ان کے موقع پرست فیصلوں نے انہیں غیر مستحکم کردیا ہے۔
مسلم امیدوار صرف ان اسمبلی حلقوں میں جیت سکتے ہیں جہاں انتخابی فہرستوں میں ان کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اترپردیش کے انتخابات بی جے پی کے ارد گرد ہی مرکوز رہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے عوام کے سامنے کوئی ایجنڈا نہیں رکھا گیا سوائے اس کے کہ بی جے پی جاری رہے یا اسے ختم کردیا جائے۔ بی جے پی طویل عرصے سے آر ایس ایس کے زیر کنٹرول کیڈروں اور لیڈروں کو تعینات کرکے انتخابات کی تیاری کررہی ہے جبکہ کسی بھی دوسری سیاسی پارٹی کے پاس ایسی کوئی تیاری نہیں ہے۔ بی جے پی نے خاص طور پر مسلمانوں کے بی جے پی مخالف ووٹوں کو تقسیم کرنے کا خیال رکھا ہے۔ اگرچہ 403میں سے بی جے پی کا کوئی مسلم امیدوار نہیں تھا، لیکن دوسری سیاسی پارٹیوں کے ذریعے مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارنے کا پورا خیال رکھا گیا تھا جو بی جے پی کی جیت کو آسان بناسکتے ہیں۔
اتر پردیش میں بی جے پی کو 255، سماج وادی کو 111، کانگریس کو 2اور بی ایس پی کو 1سیٹ ملی۔ بی جے پی نے مقبول مینڈیٹ پر حالیہ یوپی الیکشن نہیں جیتا ہے بلکہ بی جے پی مخالف ووٹوں کو تقسیم کرنے کے حربے استعمال کیے ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت نے ایس پی کو ووٹ دیا اور مسلمانوں کی اکثریت والے حلقوں میں ووٹ ڈالنے کا فیصد بھی زیادہ رہا۔ زیادہ تر مسلم اکثریتی حلقے یا تو ایس پی نے جیتے ہیں یا دوسری پارٹیوں کے مسلم امیدواروں کی ووٹ تقسیم کی وجہ سے بی جے پی نے جیتے ہیں۔
مسلمانوں نے ‘کوئی دوسرا متبادل ‘نہ ہونے کی وجہ سے سماج وادی پارٹی کو ووٹ دینے کا انتخاب کیا کیونکہ بی ایس پی اور کانگریس طویل عرصے سے بدنام ہیں اور محترمہ مایاوتی بالواسطہ طور پر بی جے پی کی مدد کرنے کیلئے مشہور تھیں کیونکہ انہوں نے ایس پی اور دیگر اتحادی جماعتوں کے مسلم امیدواروں کے امکانات کو نقصان پہنچانے کیلئے 100کے قریب مسلم امیدوار کھڑے کیے تھے۔
چنانچہ103 امیدواروں میں سے 102امیدواروں کی ضمانت کی رقم ضبط ہوگئی اور بی ایس پی کے زیادہ تر مسلم امیدواروں کی خود مسلمانوں نے حمایت نہیں کی لیکن وہ اس دلیل کو تقویب دیتے ہیں کہ وہ بی جے پی کے بالواسطہ حلیف رہے ہیں۔
ایس ڈی پی آئی کا اترپردیش کے کئی اسمبلی حلقوں میں مضبوط ڈھانچہ ہے اور اس نے ریاست بھر میں ضلع پنچایت انتخابات سمیت بلدیہ اداروں میں کئی عہدوں پر کامیابی حاصل کی ہے لیکن یوگی حکومت کے مظالم اور عوام دشمن پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے ایس ڈی پی آئی نے علامتی طور پر صرف 3اسمبلی حلقوں پر انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔ تاکہ ہندوستان بھر میں اس کی انتخابی پالیسی کے مطابق ووٹوں کی تقسیم سے بچاجاسکے۔
مسلم ووٹوں کی تقسیم کیلئے تقریبا 200 مسلم امیدوار کھڑے کیے گئے تھے اور اس نے اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی جیت کو آسان بنایا ہے۔ نتائج کے بعد یہ واضح ہوا ہے کہ جہاں اے آئی ایم آئی ایم کے 7امیدوار، بی ایس پی کے 27امیدوار اور کانگریس کے 4امیدواروں کے علاوہ بی ایم پی، اے ایس پی اور دیگر کے امیدواروں نے حکومت سازی میں فرق پیدا کیا۔ انہوں نے اتنی تعداد میں ووٹ حاصل کیے جس کے نتیجے میں ایس پی کے امیدواروں کو شکست ہوئی۔ بی جے پی نے تقریبا 200ووٹوں کے فرق سے 7سیٹیں، تقریبا 500ووٹوں کے فرق سے 23سیٹیں،1000ووٹوں کے فرق سے لگ بھگ 49سیٹیں، 2000ووٹوں کے فرق سے لگ بھگ 86سیٹیں جیتی ہیں اور اترپردیش میں حکومت بنائی ہے۔
پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں جو نتائج آئے ہیں وہ لوک سبھا انتخابات 2024کا پیش خیمہ ہیں کیونکہ ہندوستان میں کسی بھی سیاسی پارٹی کے پاس مستحکم اور مستقل تنظیمی صلاحیت اور بصیرت والی قیادت، جامع نظریہ،یکساں دور اندیشی اور آر ایس ایس کے خطرے کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔سیاسی پارٹیوں کا مقصد صرف الیکشن لڑنا ہوتا ہے اور وہ غیر انتخابی دور میں عوام کے مسائل پر آواز نہیں اٹھاتے ہیں۔ تمام سیاسی پارٹیاں انتخابات کیلئے کام کرتی ہیں، اس لیے وہ عوامی شکایات اور مسائل سے فاصلے پر رہتی ہیں اور دقیانوسی تصورکے کردار اور پیش کش کو برقرار رکھتی ہیں۔
جب تک بی جے پی کی مخالفت کرنے والی سیاسی پارٹیاں بی جے پی کی پالیسیوں اور پروگراموں کا ایک حقیقی متبادل کے طور پر سامنے نہیں آئیں گی اور ڈھٹائی کے ساتھ موقع پرستی، فاشسٹ رجحانات، عوام دشمن پالیسیوں اور استحصالی نظام کاکھل کر مقابلہ کرنے اور سماجی جمہوریت کے ساتھ وابستگی اور حقیقی تناظر میں آئین کے اصولوں کا مکمل نفاذ کرنے کیلئے آگے نہیں آئیں گی، انتخابات کا کوئی دوسرا نتیجہ نہیں ہوسکتا ہے۔انتخابی نتائج صر ف اسی صورت میں فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں جب بی جے پی کے خلاف مقابلہ کرنے والی سیاسی پارٹیوں میں شخصیت پرستی، اقربا پروری اور پسندیدہ افراد کو ہٹادیا جائے۔
بنیادی ووٹ اور ووٹ بینک کے درمیان کھیل کھیلنے اور فرقہ وارانہ، تقسیم اور امتیازی حربوں سے گریز کرنا ہوگا۔ سیاسی پارٹیوں میں داخلی جمہوریت کے تحت مضبوط کیڈر پر مبنی ڈھانچہ قائم کیا جانا ہے جس سے سیاسی اخلاقیات کو یقینی بنایا جائے جو ہندوستان میں موجودہ سیاست کی طرف متوازی تبدیلی کی طرف اشار ہ کرے۔
پانچ ریاستی انتخابات ایک ہاری ہوئی جنگ ہے اگر غلطیوں کو سدھارنے اور ہم خیال قوتوں کو مضبوط کرنے کیلئے قدم اٹھائے نہیں گئے تو 2020کے اگلے لوک سبھا انتخابات کی جنگ بھی ہار سکتے ہیں۔۔۔
( مضمون نگار: اڈوکیٹ شرف الدین احمد
قومی نائب صدر۔ ایس ڈی پی آئی)
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ متفق ہونا ضروری نہیں