ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں اسمبلی انتخابات سے پہلے یہ تصور کیا جارہا تھا کہ مسلمانوں کا ووٹ بی جے پی کے خلاف جائے گا تاہم ایک سروے میں یہ بات غلط ثابت ہوئی ہے، انتخابات میں بی جے پی کو مسلمانوں کا 8 فیصد ووٹ حاصل ہوا ہے۔
عام تاثر کے باوجود بی جے پی اتر پردیش میں انتہائی پولرائزڈ اسمبلی انتخابات میں کم از کم آٹھ فیصد مسلم ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
CSDS-Lokniti کے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسمبلی انتخابات میں 20 فیصد مسلم ووٹوں میں سے سماج وادی پارٹی نے تقریباً 79 فیصد ووٹ حاصل کیے اور کم از کم آٹھ فیصد ووٹ بی جے پی کے حصے میں آئے، جو کہ 2017 کے مقابلے میں ایک فیصد زیادہ ہے۔
سروے کے مطابق مسلم ووٹوں کا بی جے پی کو جانے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اتر پردیش میں پچھلے پانچ سالوں کے دوران مختلف فلاحی اسکیموں سے مسلمانوں نے اتنا ہی فائدہ اٹھایا جتنا ہندوؤں کو ہوا ہے۔
سروے کے مطابق مسلمانوں کو بی جے پی کے لیے کھلنے کے امکانات کو تلاش کرنا چاہیے۔ بی جے پی کے خوف سے غیر بی جے پی حکومتوں کی حمایت کرنے سے ان کی کوئی مدد نہیں ہوئی ہے کیونکہ ان کی سماجی و اقتصادی حالت دہائیوں کے دوران بد سے بدتر ہوتی چلی گئی ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ”مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے۔
اترپردیش کے مسلمانوں کی صورت حال پر ایک نظر :۔
اترپردیش میں 20 فیصد سے زیادہ بلکہ بھارت کی منجملہ مسلم آبادی میں تناسب سے اعتبار سے سب سے زیادہ یعنی 23 فیصد ہیں۔اترپردیش میں آزادی سے پہلے مسلمان جو ہر اعتبار سے بہتر حالت میں تھے، آج وہ سماجی، اقتصادی، تعلیمی اور سیاسی غرض یہ کہ ہر میدان میں اپنے ہم وطنوں سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
اس ریاست میں شہرہ آفاق تعلیمی ادارے جیسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، دارالعلوم دیوبند (جسے مصر کے جامعہ الازہر سے تشبیہ دی جاتی ہے)، ندوۃ العلماء لکھنو، جامعتہ الفلاح، علامہ شبلی کا دارالمصفین اور شبلی کالج وغیرہ جیسے اہم تعلیمی و علمی ادارے واقع ہیں، وہاں تعلیم میں مسلمان پیچھے رہ جائیں یہ کیسے ممکن ہوا؟
یو پی میں 40.83 فی صد مسلمان ناخواندہ ہیں جبکہ مجموعی ناخواندگی کی اوسط شرح 34.01 فی صد ہے۔ وسطانوی سطح کی تعلیم میں مسلمانوں کی شرح 16.8 فی صد ہے جبکہ پوری ریاست میں یہ کی شرح 25.5 فی صد ہے۔ صرف 4.4 فی صد مسلمان ہی یونیورسٹی کی سطح کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی 15 سال عمر سے اوپر کی آبادی میں 71.2 فی صد افراد ناخواندہ یا پرائمری سطح سے نیچے کی تعلیم حاصل کیے ہوئے جبکہ قومی شرح اوسط 58.3 فی صد ہے۔
باقاعدہ یا منظم روزگار میں مسلمانوں کا تناسب 25.6 فیصد ہے جبکہ قومی اوسط 31.6 فی صد ہے۔ یعنی مسلمانوں کی بڑی اکثریت چھوٹے موٹے کاموں اور غیر منظم پیشوں میں کام کر رہی ہے۔ غربت کا یہ عالم ہے کہ مسلم خاندان میں فی کس ماہانہ خرچ 752 روپے ہے جبکہ قومی اوسط پورے ملک میں فی کس 988 روپے ہے۔ دیگر تمام طبقات کے موزانہ میں مسلمانوں میں افلاس کی شرح بہت زیادہ ہے۔