یو پی اے ٹی ایس کے ذریعہ دیوبند سے حراست میں لئے گئے دو نوجوانوں میں ایک پر ملک مخالف سرگرمیوں میں شامل ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے، اور اس شخص کو گرفتار کرلیا گیا۔ حالانکہ یوپی اے ٹی ایس نے موبائل فون وغیرہ کے علاوہ ملزم کے پاس سے کچھ خاص برآمد نہیں کیا ہے۔جبکہ اس کے دو ساتھیوں کے خلاف تفتیش جاری ہے۔
گزشتہ 14/ مارچ کو یوپی اے ٹی ایس نے دیوبند میں کارروائی کرتے ہوئے دو نوجوانوں کو حراست میں لیا تھا۔
بتایا جارہا ہے کہ وہ دونوں کسی دینی ادارہ میں زیر تعلیم تھے، اے ٹی ایس نے پریس نوٹ جاری کرکے بتایاکہ اے ٹی ایس کو پچھلے کئی مہینوں سے یہ اطلاع مل رہی تھی کہ دیوبند میں رہنے والے کچھ لوگ سوشل میڈیا پر مجرمانہ سازش کے تحت انتہا پسند اور ملک مخالف نظریات کو فروغ دے رہے ہیں، اور ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
ملک کے مختلف مذہبی مقامات پر دھماکے کرکے مختلف طبقات کے درمیان سماجی ہم آہنگی کو بگاڑنا چاہتے ہیں۔
اے ٹی ایس نے دعوی کیا ہے کہ وہ فیس بک پیج اور یوٹیوب چینل وغیرہ کے ذریعے انعام الحق کی جہاد سے متعلق ویڈیوز ڈالتا اور دوسروں کو جہاد کی ترغیب دے رہا ہے۔ وہ تربیت کے لیے پاکستان جانا چاہتا تھا۔
اے ٹی ایس کے مطابق انعام الحق ایک اور شخص کے ذریعے لشکر طیبہ کے شدت پسندوں سے جڑا ہوا تھا جس سے اس نے اسلحہ اور تربیت حاصل کرنی تھی۔ وہ مختلف واٹس ایپ گروپس کے ذریعے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان جہاد کے سلسلے میں دوسرے ممالک کے لوگوں سے منسلک تھا۔
انعام الحق عرف انعام امتیاز کے خلاف انکوائری اور انٹیلی جنس سے موصولہ حقائق کی تصدیق کے بعد 14.3.2022 کو قواعد کے مطابق گرفتاری عمل میں لائی گئی اور دیوبند سہارنپور میں مقدمہ درج کیا گیا۔
اس کے علاوہ اس کیس میں محمد فرقان علی اور انعام الحق کے ہاسٹل کے ساتھی نبیل خان ساکن مظفر نگر ضلع کے ملوث ہونے کے سلسلے میں، فی الحال دستیاب شواہد کی جانچ کی بنیاد پر، دفعہ 108 Cr.P.S. تھانہ کوتوالی نگر، ضلع مظفر نگر کے تحت احتیاطی کارروائی کی گئی ہے۔
پورے معاملے کی جانچ کی جارہی ہے۔حالانکہ اے ٹی ایس نے ملزم انعام الحق پر انتہائی سنگین الزامات لگائے ہیں لیکن اس کے پاس سے ایک آدھار کارڈ، دو نمبر پین کارڈ، ایک نمبر اے ٹی ایم، چار ایئرٹیل سم، ایک موبائل فون Redmi 6A، ایک میموری کارڈ برآمد کیا ہے۔