پانچ اسمبلی انتخابات کے نتائج میں بی جے پی اترپردیش منی پور اتراکھنڈ میں حکومت بنانے کے موقف میں ہے۔
نئی دہلی۔(پریس ریلیز)۔ سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) کے قومی صدر ایم کے فیضی نے اپنے جاری کردہ اخباری بیان میں کہا ہے کہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج نہ حیران کن ہیں اور نہ ہی غیر متوقع، درحقیقت یہ نام نہاد ‘سیکولر’ پارٹیوں کی کمزوری اور نااہلی کو بے نقاب کرتا ہے نہ کہ یہ بی جے پی کی کامیابی ہے۔
سیکولر پارٹیاں فاشسٹوں کا دفاع اور شکست دینے میں ناکامی کا الزام ای وی ایم پر لگاتے ہوئے ہاتھ نہیں دھوسکتے۔ ان پارٹیوں نے گزشتہ سات سالوں میں اب بھی کچھ مثبت نہیں سیکھا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تمام غیر بی جے پی پارٹیاں بی جے پی کے ساتھ دوستانہ میچ کھیل رہے ہیں۔ دائیں بازو کے ہندوتوا فاشسٹوں کے خلاف متحد ہونے میں ان کی ناکامی اور انہیں ہندوستانی سیاسی میدان سے باہر رکھنے میں ناکامی بی جے پی کی جیت میں اہم عنصر ہے۔
صدی پرانی انڈین نیشنل کانگریس، جس کا ابھی بھی ملک گیر نیٹ ورک ہے اور پورے ملک میں کارکنان ہیں، ا س کے پاس ایک قابل قیادت کا فقدان ہے جو ملک کیلئے تیار شدہ سیاسی منظر نامے کیلئے موزوں انتخابی حکمت عملیوں کی منصوبہ بندی کرسکے۔ درحقیقت کسی بھی پارٹی کے پاس خوفناک حد تک بڑھتے ہوئے فاشزم کے خلاف کوئی ٹھوس ایجنڈا نہیں ہے۔ ان کا مقصد صرف کسی نہ کسی طرح اقتدار پر قبضہ کرنا ہے، اور اگر مواقع اجازت دیں تو وہ اقتدار میں رہنے کیلئے فاشسٹوں کا بھی ساتھ دے سکتے ہیں۔
پانچ اسمبلیوں کے نتائج میں ملک میں اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کیلئے بہت مضبوط پیغام اور سبق ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ انہیں یہ احساس ہو کہ انہیں اب بھی ‘سیکولر’پارٹیاں ووٹ بینک کے طور پر استعما ل کررہی ہیں۔ اب بھی غیر بی جے پی پارٹیوں کے ذریعے نرم ہندوتوا کارڈ کھیلا جارہا ہے۔ جیسا کہ ان پارٹیوں کے کچھ لیڈروں نے صحیح کہا ہے کہ نرم ہندوتوا دائیں بازو کے فاشسٹوں کے سخت گیر ہندوتوا کا متبادل نہیں ہے۔ انتخابات کے نتائج شناخت کی سیاست کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
اقلیتیں، خاص طور پر مسلمانوں کو جو ان پارٹیوں کے ذریعے انتخابات کے دوران ہمیشہ نرم ہندوتوا کے شکنجے میں جکڑے جاتے ہیں، انہیں اس کے نقصان کو پہچاننا چاہئے اور آگے آکر شناخت کی سیاست کو فروغ دینے اور اس پر کھڑے ہونے والی سیاسی تحریکوں کی حمایت کرنی چاہئے۔
انتخابات کے نتائج کا ایک اور انتہائی منفی پیغام یہ ہے کہ ہندوستانی رائے دہندگان کو تباہ کن طور پر فرقہ واریت کا نشانہ بنایا گیا ہے، اور اکثریتی طبقہ ریاست یا قوم کی ترقی کے مقابلے میں جنونی تعصب کو ترجیح دیتا ہے۔ اتر پردیش، آدتیہ ناتھ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے انتہائی نقصان دہ، انتہائی تباہ کن عوام مخالف اور جمہوریت مخالف اقدامات کا مشاہدہ کررہا ہے۔
ریاست، اس کی ترقی اور عوام کیلئے پچھلے پانچ سالوں میں دائیں بازو کے آئی ٹی پلیٹ فارم کے علاوہ اتر پردیش میں کچھ بھی مثبت رپورٹ نہیں ہوا ہے۔ اس عرصے کے دوران تناسب سے جو چیز پنپی ہے وہ ہے جنونیت، تعصب، نفرت، بدگمانی، اقلیتوں اور دلتوں کے خلاف مظالم اور طاقت کا مظاہرہ ہے۔پھر بھی اتر پردیش کے لوگوں کی اکثریت نے وہی پارٹی کو منتخب کرکے اقتدار میں لایا ہے، جو پورے ملک کیلئے اچھا شگون نہیں ہے۔
ایس ڈی پی آئی بی جے پی مخالف سیاسی پارٹیوں پر زور دیتی ہے کہ وہ طاقت کے خواہشمند ہونے کے بجائے عوام کے حامی بنیں اور ملک کو فاشزم کے شکنجے سے بچانے کیلئے متحد اور مضبوط حکمت عملی تشکیل دیں۔
ایس ڈی پی آئی ملک کی غیر متعصب اور غیر جنونی اکثریت سے بھی مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ان انتخابی نتائج سے اس پیغام کو حاصل کریں اور ان عوام نواز پارٹیوں اور تحریکوں میں شامل ہوں جن کا مقصد ملک کی ترقی و ترویج اور ایک ایسے ہندوستان کی تعمیر ہے جو تنوع میں اتحاد کو پروان چڑھائے اور ایک ایسا ہندوستان جس کے تمام شہریوں کو بلا تفریق مساوی حقوق حاصل ہوں.