۸/ مارچ کو یوم خواتین کے نام پر پوری دنیا میں جشن منایا جاتا ہے۔ اور اسلام کے بارے میں غلط فہمی پھیلائی جاتی ہے اور یہ بدگمانی پیدا کی جاتی ہے کہ اسلام عورتوں کو اس کا جائز حق نہیں دیتا ہے۔ آئیے اس غلط فہمی کو دور کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو عورت کو اس کا جائز حق دلاتا ہے۔
بعثت نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وقت (اور اس سے پہلے برسوں سے) سب سے زیادہ جو مظلوم اور ستم رسیدہ طبقہ تھا وہ دو طبقات تھے خواتین اور غلام۔ ان دو طبقوں کی آفتاب نبوت کے طلوع( ہونے) کے وقت جو حالت اور پوزیشن تھی اگر اس کا تذکرہ کیا جائے تو انسانیت شرم سار ہونے لگتی ہے اور دل و دماغ اس کی منظر کشی سے متاثر ہونے لگتے ہیں۔ بعض قبیلے ایسے تھے کہ بچی کی ولادت کو نحوست اور اپنے لئے شرم و عار سمجھتے تھے اور بچیوں کے پیدا ہونے پر انہیں زندہ در گور کر دیا کرتے تھے۔ ان کے ذہن میں یہ منفی تصور تھا کہ اگر لڑکی بڑی ہوگی تو اس کی شادی کرانی ہوگی اور وہ اپنی بچی کا عقد کرکے کسی دوسرے مرد کے حوالے کرے یہ تو اس کے لئے شرم اور عار کی بات ہے وہ کسی کو اپنا داماد بنائیں یہ رشتہ انہیں بالکل پسند نہیں تھا۔ حیض (ایم سی) کی حالت عرب اپنی بیویوں کو ایک طرح سے کال کوٹھری میں بند کر دیتے تھے اور ان کے ہاتھ کا بنا بنایا کھانا نہیں کھاتے اور نہ ہی ان کے ہاتھ سے پانی پیتے تھے ( آج بھی یہ رواج کیرالا وغیرہ کے ہندووں میں پایا جاتا ہے بلکہ بعض ناخواندہ مسلمانوں میں بھی یہ تصور ہے) حیض کی حالت میں ان کو ڈبو اور بڑے چمچے کے ذریعہ دور سے کھانا پانی دیا جاتا تھا۔ ان کو غسل کرنے اور کپڑے تبدیل کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ صرف شوہر ہی ان سے دور نہیں رہتا بلکہ گھر کے سارے لوگ اس حالت میں ان سے کتراتے تھے۔ اس حالت کو بہت منحوس خیال کرتے تھے۔
دوسری جہالت یہ بھی تھی کہ شوہر کے انتقال کے بعد بیوی ترکہ میں شمار کی جاتی اور بڑے بیٹے کا ماں پر حق بن جاتا اور وہ ماں ہی سے شادی کر لیتا تھا۔ اس طرح بے شمار گندگی اور جہالت تھی جس کا تذکرہ زبان پر لانا ممکن نہیں ہے۔ عورتوں کو جانوروں کا سا درجہ دے رکھا تھا، میراث میں عورتوں کا کوئی حصہ نہیں تھا، عورتوں کی عزت و حرمت اور شرافت کو اس درجہ مجروح کر دیا گیا تھا کہ ایک خاتون کے کئی شوہر بھی ہو سکتے تھے۔ اسی لئے اس زمانے کو زمانئہ جاہلیت کے نام سے جانا جاتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو ان کا کھویا ہوا مقام دلایا۔ ان کی صنفی نزاکتوں کے خیال رکھنے کی بھرپور تلقین کی۔ ان کے ساتھ حسن سلوک کی شہادت کے لئے یہی کافی ہے کہ یا تو عورتوں کو گناہ کا دروازہ اور سامان نگ وعار تصور کیا جاتا تھا، اسلام نے ان کو ایسی عزت دی کہ قران پاک میں مستقل ایک سورہ عورتوں سے منسوب کی گئی اور اس کا نام ۰۰ النساء۰۰ قرار پایا۔ جب کہ مردوں سے منسوب ۰۰الرجال۰۰ نام کی کوئی سورہ قرآن مجید میں موجود نہیں۔ ایک پاکباز اور باعصمت خاتون ۰۰ مریم۰۰ کے نام پر ایک سورہ کا نام رکھا گیا۔ اسی طرح دنیا میں بلکہ آخرت کے اعتبار سے بھی جو جگہ اور گاوں اور شہر سب زیادہ قابل احترام اور بابرکت ہے اس کی نسبت بھی ماں کی طرف کی گئی ہے اور جس کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی ہے یعنی ۰۰ام القری۰۰۔
عورت کے احترام اور ان کے مقام و مرتبہ کی قدر دانی کا اندازہ اس واقعہ سے بھی کیجئے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کے تمام نسخوں کو ختم کرکے جو سب سے زیادہ مشہور و معروف نسخہ تھا جب اس خط والا نسخہ (حجازی لغت والا نسخہ) اور ایڈیشن تیار کروایا تو اس خط عثمانی والا پہلا نسخہ ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو ہدیہ کیا اور پھر اس کی مدد سے سارے نسخے تیار کرکے عالم اسلام میں بھیجا گیا۔
ان تمام حقائق اور واقعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں یہ طبقہ کتنا قابل احترام اور معزز ہے !
عورتوں کی صنفی نزاکتوں کا اسلام میں کتنا خیال رکھا گیا اس اندازہ اس واقعہ سے لگائے کہ ایک موقع پر حضرت انجشہ رضی اللہ عنہ اونٹ پر اپنی بیوی اور بچوں کو سوار کرکے اونٹ تیز ہکا رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر مبارک حضرت انجشہ پر دور سے پڑ گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فورا مخاطب کرکے فرمایا : یا انجشہ ! رفقا بالقوایر : انجشہ ان آبگینوں مہ پاروں اور صنف نازکوں کا خیال رکھو ! خبر دار اونٹ کو تیز مت ہکاو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو مستقل شخصیت کی مالک قرار دیا۔ ملکیت میں تصرف کا پورا حق دلایا،حق نقد و تنقید دیا، ان کی تعلیم و تربیت کے خاص انتظام کیا گیا ،ان کے لئے خصوصی وعظ و نصیحت کی مجلس قائم کی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانےمیں جو خیر القرون تھا عورتوں کو مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی اجازت دی۔ زندگی کا تحفظ دیا اور عزت و وقار اور آبرو کی حفاظت کی نیز عصمت و حیا کی چادر دی۔
الغرض عورتوں کے جو بھی حقوق (ان کی صنفی نزاکتوں کا خیال کرتے ہوئے) ہو سکتے تھے وہ تمام اسلام نے اور پیغمبر اسلام نے بیٹی کی شکل میں ماں کی شکل میں بہن کی شکل میں اور بیوی کی شکل میں دئے، سچائی یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مظلوم و مقہور اور ستم رسیدہ طبقہ کو عزت کا مقام دیا، ان کے جائز حقوق دلائے اور ایک ایسا سماجی قانون اور آئین عطا کیا جس میں عورتوں کی عزت نفس اور شرافت و خوداری کا پورا پورا لحاظ رکھا گیا ہے ،اور ان کی صنفی نزاکتوں کا بھر پور خیال رکھا گیا ہے۔
عام طور پر ہم لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کا احسان ہے کہ اس نے مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوات و برابری کا حکم دیا ہے یہ تعبیر اور یہ بات صحیح نہیں ہے اس نے اس سلسلہ میں عدل کا حکم دیا ہے اور عدل کا مفہوم بہت وسیع ہے اس لفظ اور تعبیر میں بہت گہرائی ہے اس کے معانی بہت وسیع ہیں۔ عدل کا ترجمہ مساوات اور برابری سے کرنا یہ کسی طرح درست نہیں ہے۔ کیوں کہ مردوں اور عورتوں کی صلاحیتوں میں قدرتی طور پر فرق واقع ہوا ہے۔ اس لئے اس فرق کی رعایت کے بغیر دونوں کے لئے ایک طرح کے حقوق و فرائض کو متعین کرنا دانش مندی اور عقل مندی کی بات نہیں ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو کیا کچھ مقام و مرتبہ عطا کیا اور ان کے حقوق کا کس قدر خیال رکھا یہ موضوع بہت تفصیل طلب ہے اس مختصر پیغام میں اس کو سمیٹنا ناممکن ہے لیکن مالا یدرک کلہ لا یترک بعضہ کے ضابطے کے تحت صرف بیٹی، ماں اور بیوی کو اسلام نے کیا دیا اس کا مختصرا تذکرہ کروں گا کیونکہ خاندان میں عورت عام طور پر انہیں تین مرحلوں سے گزرتی ہے ،پہلے بیٹی بنتی ہے پھر بیوی بنتی ہے اور اس کے بعد ماں بنتی ہے۔
عرب بیٹیوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے تھے ان کی پیدائش کو منحوس سمجھتے تھے۔ بعض خاندان اور قبیلے کے لوگ تو اتنے سخت دل اور سخت جاں تھے کہ بیٹی کے پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیتے تھے۔
اسی لئے اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹی کے مقام و مرتبہ کو بہت بڑھایا ان کی پیدائش کو وجہ مسرت قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹیوں کی پرورش و پرداخت، تعلیم و تربیت اور ان کی نگہداشت کی خاص فضیلت بیان فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : جس کی دو بچیاں ہوں اور وہ بہتر طور پر خوش اسلوبی کے ساتھ ان کی پرورش و پرداخت کرے اور بیٹیوں پر بیٹے کو ترجیح و فوقیت نہ دے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انگشت شہادت اور تیسری انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم اور وہ جنت میں اتنے قریب ہوں گے، جیسے یہ دونوں انگلیاں، اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی صاحب زادیوں کے ساتھ جو سلوک فرمایا جس محبت اور شفقت سے پیش آئے اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں ملنی مشکل ہے۔
روایت میں اتا ہے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا جب آپ سے ملاقات کے لئے آتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے کھڑے ہوجاتے ،ان کی پیشانی کو بوسہ دیتے اور اپنی جگہ ان کو بٹھاتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کے گھر جاتے تو یہی معاملہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی طرف سے ہوتا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تو آخری ملاقات حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے کرکے جاتے، واپس آتے تو مسجد میں پہلے تشریف لاتے اور پھر سب سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر تشریف لے جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ کو بیٹی کی کفالت اور تعلیم و تربیت کا ذمہ دار قرار دیا۔
حکم شریعت یہ ہے کہ اگر لڑکا عاقل و بالغ ہوجائے اور کمانے کے لائق ہوجائے تو باپ اس کی کفالت سے دست کش ہو سکتا ہے اس کی کفالت کے بوجھ اور ذمہ داری سے برئ الذمہ ہو سکتا ہے۔ لیکن لڑکی بالغ ہو جائے تب بھی اس کی پرورش اور کفالت کی ذمہ داری اس وقت تک والد کے کندھے پر رہتی ہے جب تک کے شادی نہ ہو جائے اور اپنے شوہر کے حوالے اور سپرد نہ ہوجائے اور اس کا نفقہ و سکنی کا انتطام شوہر کے ذمہ نہ آجائے۔ اور خدا نا خواستہ اگر نباہ نہ ہوسکے اور طلاق و جدائگی کی نوبت آجائے یا وہ بیوہ ہوجائے تو پھر دوبارہ اس کی کفالت والدین کے ذمہ آجاتی ہے۔
لڑکی کے لئے اس کے معیار کے مطابق رشتہ ڈھونڈنا اس کے لئے آگے کی زندگی کا انتظام کرنا نکاح کے فرائض انجام دینا یہ تمام ذمہ داریاں والدین کے حوالے اور سپرد ہیں۔ اسلام نے بیٹوں کی طرح بیٹیوں کو بھی میراث میں حق دلوایا اگر چہ بعض مصلحت کی بنا پر بیٹی کو بیٹے کے مقابلے میں آدھے کا حق دار قراد دیا کیونکہ کہ بیٹی کو آگے شوہری حق ملتا ہے اور ماں اور بیوی کے طور پر بھی آگے وہ وراثت کا حق دار بنتی ہیں۔ اور یہ بات ییاد رہے کہ بیٹیاں ان رشتہ داروں اور قرابت مندوں میں ہیں جو کبھی میراث سے محروم نہیں ہو سکتیں۔