ہم نے بچپن میں مولانا اسماعیل میرٹھی کی اردو کتابیں پڑھی تھیں، ان میں ایک نظم ’’گائے‘‘ پر تھی ، اس کا ایک شعر بچوں کے زبان زد ہوا کرتا تھا اور انہیں لہک لہک کر پڑھا جاتا تھا ۔
’’رب کا شکر ادا کر بھائی ٭جس نے ہماری گائے بنائی‘‘
ہم تو اب بھی اس حوالے سے شکر کے ہی قائل ہیں، لیکن فرقہ پرستوں اور مرکزی حکومت کے اہل کاروں کا جو رویہ ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب فرقہ پرستوں کو صرف یہی یاد رہ گیا ہے کہ:
’’گائے ہماری ماتا ہے٭ اس کے آگے کچھ نہیں آتا ہے‘‘
اور گائے کے ساتھ جو سلوک وہ لوگ کر رہے ہیں وہ دن کے دوپہر کی دھوپ سے زیادہ روشن ہے ، گائے کے کاروباری وہی لوگ ہیں ، وہی بیچتے اور خریدتے ہیں ،ماں کو بیچنے اور خریدنے کا کام بذات خود کتنا گھٹیا ہے ، اس سے قطع نظر یہ لوگ گائے کے دودھ دینے کی صلاحیت ختم ہوئی اور اسے سڑکوں پر چھوڑ دیتے ہیں ، جس کے نتیجے میں سڑکیں مسدود ہو تی ہیں۔
اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی تیز رفتار گاڑی کی ٹکر سے وہ’’ پرلوک‘‘ سدھار جاتی ہیں، زیادہ تر حالات میں ان کے جسم ہڈی کا ڈھانچہ رہ جاتے ہیں اور وہ بھوک سے تڑپ تڑپ کر مر جاتی ہیں ، اگر ہندو دھرم کے ہی ماننے والے کسی مردار کھانے والے نے رحم کر دیا تو وہ ان کی غذا کا حصہ بن جاتی ہیں ، بصورت دیگر پولوشن پیدا کرتی ہیں ، جس کے نتیجے میں انسانوں کا جینا دوبھر ہو جا تا ہے۔
غلام ہندوستان میں انگریزوں کی یہ پالیسی مشہور تھی کہ جھوٹ کو اس طرح بولو اور اس قدر بولو کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں، گائے کے سلسلہ میں بھی یہی ہوا ہے کہ مسلمانوں کے ذریعہ گاؤ کشی اور گوشت خوری کا ایسا پروپیگنڈہ اور چرچا کیا گیا کہ مسلمانوں کو گائے کا دشمن قرار دیا جانے لگا۔
حالانکہ تاریخی طور پر دیکھیں تو مغلیہ دور حکومت میں، مسئلہ کی رو سے نہیں رواداری اور برادران وطن کے جذبات کی رعایت کرتے ہوئے، اکبر نے گئو کشی پر مکمل پابندی لگا دی تھی ۔۱۱؍ جنوری ۱۵۲۹ئ کو بابر نے ہمایوں کو گئو کشی نہ کرنے کی نصیحت کی تھی، مقصد ہندؤوں کے جذبات کی رعایت تھی ،شیر میسور ٹیپو سلطان کے عہد میں بھی یہ رویہ برقرار تھا۔
گاندھی جی نے ۱۹۱۷ء میں مظفر پور میں گئو کشی کے خلاف اپنی تقریر میں اس بات کا اقرار کیا تھا کہ انگریزروزانہ بیس ہزار اور سالانہ ایک کروڑ گایوں کو اپنی خوراک بنا لیتے ہیں ، گاندھی جی کی ساری تگ ودو کے بعد بھی انگریز اور ہندو گوشت خوروں کو نہیں روکا جا سکا، اور گائے ماتا اپنے معتقدوں کی خوراک بنتی رہی خصوصاً شیڈول کاسٹ کے لوگ، گوڈ، کورکو، بھیل، جن جاتی، ون واسی، جنگلی قبائل ، ناگا، عیسائی نیپالی، گورکھے، مایا، پارسی ،چمار، بھنگی،اور جنوبی ہندوستان کے باشندوں نے اس تحریک سے کوئی اثر نہیں لیا اور گاندھی جی ان کو یہ سمجھا نہیں پائے کہ آخر انسان کی ماں گائے کس طرح ہو سکتی ہے۔
یہ بات اس لیے بھی ناقابل فہم رہی کہ ڈارون کے نظریۂ ارتقاء کو دلائل کی روشنی میں رد کیا جا چکا تھا کہ انسان بندروں کی ترقی یافتہ شکل ہے ، جس سے بڑی مماثلت انسانی اعضاء اور طریقۂ زندگی میں بیان کیا جاتا رہا تھا، گائے اور انسان میں تو کسی درجہ میں مماثلت بھی نہیں ہے ، پھر وہ انسانوں کی ماں کس طرح ہو سکتی ہے۔
ناقابل فہم ہونے کے با وجود گاندھی جی کے قتل کے بعد ان کے جانشیں اور بھو دان تحریک کے بانی ونوبا بھاوے نے اس کا م کا بیڑا اٹھایا اور تحفظ گائے کے مسئلہ کو ملک گیر بنا دیا ، ۱۹۷۷ میں فرقہ پرستوں نے اس کا سیدھا رخ مسلمانوں کی طرف کر دیا اور اس سلسلے میں نا گپور میں منعقد ملک گیر گئو رکچھا سمیلن کے نام پر شدت پسندوں کے جذبات بھڑکا کر مسلمانوں کے خلاف کرنے کا کام کیا گیا، تب سے آج تک اس معاملہ میں حقیقت پسندی کے نقطۂ نظر سے نہیں، سیاسی روٹی سینکنے کی غرض سے اس مسئلہ کو اچھالا جاتا رہا ہے۔
حقیقت پسندانہ نقطۂ نظر یہ ہے کہ سرکار کی نگرانی میں بڑے پیمانے پر ملک اسے بر آمد کر رہا ہے ۱۹۷۳ئ سے ۱۹۸۰ئ تک ایک لاکھ بائیس ہزار ایک سو پچاسی ٹن بلکہ اس سے بھی زائد گوشت باہر ملکوں میں بھیجا گیا ، اس کے علاوہ بعض مندروں میں کالی ماتا کے سامنے گایوں کی قربانی پیش کرنے کا رواج آج بھی موجود ہے۔
مثال کے طور کاٹھمنڈو سے کچھ دور ’’وکشن کالی‘‘ مندر کا ذکر کیا جا سکتا ہے، جہاں گائے کی بلی دینے کے بعد اس کے گوشت کو پرساد کے طور پر تقسیم کیا جا تا ہے ،حوالہ کے طور پر ۲۶؍ جولائی ۱۹۸۷ئ کے گجراتی ماہنامہ ’’بیج‘‘ میں ڈاکٹر جے کوٹھاری کا نیپالی سفر نامہ ’’گورکھا دیکھا تیرا گاؤں ‘‘ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے ۔
اس ساری تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ گائے کے دشمن مسلمان نہیں؛بلکہ وہی لوگ ہیں ، جو انہیں ’’ماتا‘‘ کہتے ہیں، جس دن یہاں کے فرقہ پرست یہ بات سمجھ لیں گے ، اس دن سے گائے کے نام پر سیاست بند ہو جائے گی ۔