ریاست کرناٹک میں حجاب تنازع گزشتہ ماہ اُڈپی کے گورنمنٹ گرلز پی یو کالج میں شروع ہواتھا جب چھ طالبات نے الزام لگایا کہ انہیں حجاب پہننے پر اصرار کرنے پر کلاسز سے روک دیا گیا تھا۔ یہ احتجاج اڈوپی اور دیگر شہروں جیسے منڈیا اور شیواموگا کے مزید کالجوں تک پھیل گیا، کالج کے عملے نے حجاب پر پابندی لگا دی۔ بہت سے طلباء زعفرانی اسکارف میں دکھا کر اور نعرے لگا کر تصادم کی پوزیشن اختیار کر رہے ہیں۔کرناٹک کے بعد اب یہ معاملہ مدھیہ پردیش میں دکھائے دینے لگا ہے ۔ جہاں پر مختلف کالجز میں بھگوا فرقہ پرست عناصر باحجاب طالبات کی مخالفت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
اسلامی تعاون تنظیم ( او آئی سی ) نے ریاست کرناٹک میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اوآئی سی کے جنرل سیکریٹری حسین برہم طحہ نے بھارت میں مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے ‘ مختلف ریاستوں میں مسلم مخالف قانون بنوانے اور مسلمانوں کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات اور حجاب پر حالیہ تنازع پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ او آئی سی نے عالمی برادری خصوصا اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی کونسل سے اس ضمن میں ضروری اقدامات کرنے کا پر زور مطالبہ کیا ہے۔
#HisseinBrahimTaha has expressed deep concern over continued attacks targeting Muslims and their places of worship, the recent trend of anti-Muslim legislations in different states and rising incidents of violence against Muslims#IndianMuslims, @OIC_OCIhttps://t.co/PT6v4mPecQ
— MuslimMirror.com (@MuslimMirror) February 15, 2022
قبل ازیں مشہور اسکالر اور ایم آئی ٹی میں پروفیسر نوم چومسکی نے امریکہ میں مقیم ایک تارکین وطن تنظیم انڈین امریکن مسلم کونسل ( آئی اے ایم سی) کی جانب سے منعقدہ ایک کانگریشنل بریفنگ میں ہندوستان میں فرقہ واریت کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان میں اسلامو فوبیا نے انتہائی مہلک شکل اختیار کرلی ہے، جس کے باعث تقریباً 250 ملین ہندوستانی مسلمانوں کو ایک مظلوم ترین اقلیت کی فہرست میں لاکھڑا کیا ہے۔
"Pathology of Islamophobia is taking its most lethal form in India, where Narendra Modi government is systematically dismantling Indian secular democracy.”
~~Professor Noam Chomsky said during a special Congressional Briefing on “Worsening Hate Speech & Violence in India.” pic.twitter.com/sLFqgvpuAA
— Indian American Muslim Council (@IAMCouncil) February 11, 2022
امریکی حکومت کے ادارہ بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بھی ہندوستان کے اسکولز اور کالجز میں حجاب پر پابندی کے معاملہ میں کرناٹک حکومت پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔یہ ادارہ دنیا بھر میں مذہبی آزادی کے امور پرگہری نظر رکھتا ہے۔بین الاقوامی مذہبی آزادی کے سفیر رشاد حسین نے ٹوئٹ کیا کہ ’کرناٹک کے حکام کو مذہبی لباس کی اجازت کا تعین نہیں کرنا چاہیے‘۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اسکولوں میں حجاب پر پابندی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔ حجاب تنازع میں بین الاقوامی سطح پرمرکزاور کرناٹک کی بی جے پی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
Religious freedom includes the ability to choose one’s religious attire. The Indian state of Karnataka should not determine permissibility of religious clothing. Hijab bans in schools violate religious freedom and stigmatize and marginalize women and girls.
— Amb. at Large for International Religious Freedom (@IRF_Ambassador) February 11, 2022
واضح رہے کہ ریاست کرناٹک میں حجاب تنازع گزشتہ ماہ اُڈپی کے گورنمنٹ گرلز پی یو کالج میں شروع ہواتھا جب چھ طالبات نے الزام لگایا کہ انہیں حجاب پہننے پر اصرار کرنے پر کلاسز سے روک دیا گیا تھا۔ یہ احتجاج اڈوپی اور دیگر شہروں جیسے منڈیا اور شیواموگا کے مزید کالجوں تک پھیل گیا، کالج کے عملے نے حجاب پر پابندی لگا دی۔ بہت سے طلباء زعفرانی اسکارف میں دکھا کر اور نعرے لگا کر تصادم کی پوزیشن اختیار کر رہے ہیں۔کرناٹک کے بعد اب یہ معاملہ مدھیہ پردیش میں دکھائے دینے لگا ہے ۔ جہاں پر مختلف کالجز میں بھگوا فرقہ پرست عناصر باحجاب طالبات کی مخالفت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔