خواتین کی ایک ممتاز تنظیم نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن نے کرناٹک کے اداروں اور اسکولوں سے با حجاب مسلم لڑکیوں کو نکالے جانے پر تنقید کی ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ کرناٹک حکومت ریاست میں فرقہ پرست عناصر کی طرف سے وضع کردہ ایک منصوبے پر عمل پیرا ہے، اور یہ ایک "پاگل فرقہ پرست بنیاد پرست” ہدف کا عکس ہے۔
آرگنائزیشن کی صدر اور سابق آئی اے ایس ارونا رائے نے کہا کہ کرناٹک حکومت نے زعفرانی فرقہ پرست لوگوں کے ایک گروپ کے اس مطالبے کو مان لیا کہ حجاب پہننے والی طالبات کو تعلیمی اداروں میں داخل ہونے سے روک دیا جائے۔
محترمہ رائے نے کہا کہ کالج غیر آئینی اور مجرمانہ طور پر ان طالبات کو اظہار رائے اور تعلیم کی آزادی کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے لیے اپنے دروازے بند کر رہا ہے، جو ملک کے تمام شہریوں کے لیے ضامن ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اقلیتی طلباء کو تعلیمی اداروں میں جانے سے روکنا، اداروں میں توڑ پھوڑ، امتحانات سے فوراً پہلے نصابی کتب اور دیگر مطالعاتی مواد اور آلات کو جلانا یہ تمام اقدامات ایسے ہیں جو تفرقہ انگیز ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔”
این ایف آئی ڈبلیو کی جنرل سکریٹری اینی راجہ نے اس بات پر زور دیا کہ ایک ایسے وقت میں جب لڑکیوں کی تعلیم خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ اور تشدد کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے، بنیاد پرست قوتیں خواتین کو غیر بااختیار بنانے کے لیے صورتحال کو مزید خراب کر رہی ہیں۔
کرناٹک کے اڈوپی سرکاری کالج سے حجاب پر تنازع شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ریاست کے مختلف اضلاع میں پھیل چکا ہے۔ کئی کالجز میں حجاب پہن کر آنے والی طالبات کو کالجز کے گیٹ پر ہی روکا جارہا ہے تو چند کالجز میں انہیں کالج کیمپس کے خالی کمروں میں بٹھایا جارہا ہے اور کلاس روم میں داخلہ نہیں دیا جارہا۔ اس طرح انہیں حصول تعلیم سے محروم رکھا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ بی جے پی حکومت ایک طرف *بیٹی پڑھاو بیٹی بچاؤ* اور مسلم خواتین کی فلاح و بہبود کا دعوی کرتی ہے لیکن خود بی جے پی حکمراں ریاستوں میں فرقہ پرست عناصر کی جانب سے مسلم لڑکیوں کو حجاب کے نام پر تعلیم سے محروم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔