ہر سال 25 جنوری کو سال 1998 میں پیش آنے والا ایک ناقابل فراموش اور خونین واقعہ وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع کے ایک گاؤں وند ہامہ میں مقامی لوگوں کی یادوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔
اگرچہ اس منحوس دن کے دو دہائیاں گزر چکی ہیں، لیکن اس سفاکانہ واقعے کی یادیں جس میں وندہامہ گاندربل کے اس گاؤں میں 23 کشمیری پنڈتوں کو نامعلوم بندوق برداروں نے بے رحمی سے قتل کر دیا تھا، مقامی لوگوں کے ذہنوں میں وہ منظر اب بھی تازہ دکھائی دیتی ہے۔
25 اور 26 جنوری 1998 کی درمیانی رات میں 23 کشمیری پنڈت اپنے ہی گھروں میں مارے گئے تھے۔ حالانکہ اس کمیونٹی کی اکثریت کشمیر میں عسکریت پسندی کے نتیجے میں جموں ہجرت کر گئی تھی۔لیکن وندہامہ کے اس گاوں میں چار سے لے کر پانچ کنبے رہائش پذیر تھے۔
مقامی لوگوں کے مطابق، وہ اس رات مقامی مسجد کے اندر تراویح کی نماز ادا کر رہے تھے کیونکہ یہ شب قدر تھی، جب انہوں نے گولیاں چلنے اور چیخنے چلانے کی آوازیں باہر سے سنی تو انہیں لگا کل چونکہ 26جنوری ہے اس لئے اس دن پر دونوں طرف سے گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، یعنی فوج اور عسکریت پسند ایک دوسرے پر اس روز حملہ آور ہوتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ نمازی مسجد سے باہر نہیں آئے۔
مقامی لوگوں کاکہنا تھا کہ تقریباً آدھی رات کا وقت تھا جب ہم نماز پڑھ رہے تھے اور باہر سے ہماری عورتیں آئی اور کہا کہ مندر سمیت پنڈت کے گھر آگ کی لپیٹ میں ہیں۔ ایک شخص نے یاد کرتے ہوئے کہا، "ہم یہ دیکھنے کے لیے مسجد سے باہر نکلے کہ کیا ہو رہا ہے اور مندر سمیت مکانات کو آگ کے شعلوں میں دیکھ کر حیران رہ گئے۔ قریب جا کر دیکھا کہ چاروں طرف خون میں لت پت لاشیں تھیں۔
مقامی لوگوں نے بتایا کہ 26 جنوری کی صبح جب سب لوگ موقع پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ جو 24 لوگ عورتیں، مرد بشمول بچے اس گاوں میں رہتے تھے،ان میں سے 23 افراد جن کا تعلق چار پنڈت خاندانوں سے تھا خون میں لت پت پڑے تھے۔
مقامی لوگوں نے بتایا، کہ اس کمیونٹی کا ایک واحد رکن ونود کمار جسے آشو کے نام سے جانا جاتا ہے اس وقت 14 سال کا تھا، اس خونین حملے سے بچ گیا تھا، اور وہ بھاگ کر پاس میں موجود جھاڑیوں میں چھپ گیا تھا۔
مقتولین میں چار خاندانوں کے افراد اور کم از کم 5 مہمان بھی شامل تھے جو جموں سے یہاں اپنے رشتہ داروں سے ملنے آئے تھے۔ اور وہ سب اس خونی واقع میں مارے گئے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس وقت کے وزیر اعظم آئی کے گجرال 28 جنوری کو کشمیر کے وندھاما گاؤں میں سوگواروں میں شامل ہوئے۔ وزیر اعظم کے ساتھ گورنر جنرل کے وی کرشنا راؤ (ریٹائرڈ)، اس وقت کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور اس وقت کے مرکزی وزیر برائے ماحولیات پروفیسر سیف الدین سوز بھی تھے۔اس سلسلے میں پولیس نے گاندربل تھانہ میں ایک کیس بھی درج کیا گیا تھا۔اور جس وقت ان سبھی پنڈتوں بشمول عورتوں اور چھوٹے بچوں کا انتم سنسکار کیا گیا اس وقت پورے گاندربل میں ماتم چھایا تھا، ہر آنکھ پر نم تھا، ہر ایک چہرے پر مایوسی چھلک رہی تھی۔
مقامی لوگوں کے مطابق، آشو نے پولیس کو بتایا، "ہر طرف چیخ و پکار تھی، بندوق برداروں نے میرے خاندان کے تمام افراد کو گھسیٹ کر ان پر اندھا دھند فائرنگ کی۔ حد تو یہ ہوئی کہ ان درندوں نے مندر میں بھی آگ لگائی تھی ،انہوں نے کہا، "وہ مقامی کشمیری مسلمانوں کے ساتھ ہم آہنگی اور بھائی چارے سے رہتے تھے۔”
مقامی لوگوں نے کہا کہ اس قتل عام نے لوگوں کے دماغ اور روح پر گہرا نشان چھوڑ دیا ہے۔ اس دن کو یاد کرتے ہوئے، ایک اور شخص نے کہا، "یہ پوری انسانیت کے قتل کے مترادف تھا اور ہمیں وہ بدقسمت واقعہ آج بھی یاد ہے اور ہم اس رات کو کبھی نہیں بھولیں گے۔” ایک اور مقامی شخص نے کہا کہ "ہم اپنے پڑوسیوں کو غیر انسانی فعل کا شکار ہوتے دیکھ کر اپنی آنکھوں پر یقین نہیں کر سکتے تھے۔”
انہوں نے کہا، "ہم ہمیشہ اپنے پنڈت بھائیوں کے ساتھ اپنی خوشی اور غم بانٹتے تھے اور یہ وہ ناقابل فراموش دن تھے جو انہوں نے ہمارے ساتھ بانٹے۔ہم ہمیشہ ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں شامل ہوتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ متاثرین سے تعلق رکھنے والے وہ رہائشی مکانات تباہ شدہ حالت میں پڑے ہیں، اور کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں، ان گھروں کو بغیر لوگوں کے دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے۔”