مرکزی حکومت سے لے کر جموں وکشمیر کی ایل جی انتظامیہ تک اگرچہ ہر ایک آفیسر یا مرکزی وزراء بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں کہ ہم نے جموں کشمیر کے تمام تر علاقوں میں بنیادی سہولیات جیسے سڑک رابطے اور پانی پہنچایا ہے، تاہم زمینی سطح پر یہ سب دعوے کھوکھلے ثابت ہورہے ہیں۔
اس سلسلے میں تازہ معاملہ گاندربل نونر کاؤ باغ علاقہ ہے جہاں دور جدید میں بھی لوگ آج بھی سڑک رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے سخت مشکلات کا سامنا کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں، جبکہ یہ علاقہ کہیں دور دراز تحصیل میں واقع نہیں ہے، بلکہ ضلع ہیڈکوارٹر یعنی ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے صرف 04یا 05 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔جو کہ اس دور جدید میں حیرانی کا باعث ہے۔
اس علاقے کو کاو باغ کہتے ہیں، جو کہ سرینگر لداخ شاہراہ کے بالکل نزدیک ہے۔اس علاقے کے لوگوں نے کہا ہے کہ اگرچہ اس سڑک کا معاملہ دو مرتبہ گرام سبھا میں بھی اٹھایا گیا، اور کئی بار پلان میں بھی رکھا گیا، متعلقہ افسران کے پاس جاکر یقین دہانیاں بھی ملی لیکن نہ جانے کن وجوہات کی بنا پر معاملے کو نظر انداز کرکے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کیا جارہا ہے کہ شاید ہم اس ملک یا اس ضلع کے شہری نہیں ہے۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ آج مجبور ہوکر ہم نے اپنے گھروں سے اپنے بچوں اور عورتوں کو ساتھ لے کر اس سڑک پر اب اس شدت کی سردی میں خود ہی کام کرنا شروع کیا ہے، جبکہ ہم نے خود ہی چندہ بھی اکٹھا کرکے سرکار سے اب بالکل ناامید ہو گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم منفی درجہ حرارت کے باوجود اپنی عورتوں اور بچوں کو ساتھ لے کر راستہ بنا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ وادی کشمیر خاص کر ضلع گاندربل میں آج بھی اس طرح کے درجنوں علاقے موجود ہیں جہاں اس دور میں بھی سرکاری دعووں کے باوجود بھی لوگ پینے کے پانی ،سڑک اور دیگر بنیادی سہولیات کو لے کر ترس رہے ہیں، جبکہ مرکزی حکومت سے لے کر جموں کشمیر کی حکومت تک سبھی ذمہ داران بلند بانگ دعوے کرنے سے تھکتے نہیں ہے۔