عام طور پر لوگ نئے سال کے آغاز کو ایک جشن کی صورت میں مناتے ہیں؛ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ وقت افراد و اشخاص کے لئے بھی اداروں اور تنظیموں کے لئے بھی اور جماعتوں اور قوموں کے لئے بھی اپنے احتساب کا وقت ہے ، کہ انھوں نے اس عرصہ میں کیا کھویا اور کیا پایا ہے اور وقت کی صورت میں جو عظیم نعمت اللہ نے انسان کو عطا فرمائی ہے ، اس کا کس طور استعمال کیا ہے؟ جو قوم خود اپنا محاسبہ نہیں کرتی اور جو جماعت اپنا گریباں آپ تھامنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، دوسرے ان کے گریبان تھامتے ہیں اور خیر و شر کا حساب کر کے اس کا بدلہ چکاتے ہیں.
لمحوں کی ناقدری سے بعض اوقات صدیوں کا نقصان ہوتا ہے اور قومیں زوال وانحطاط کے دلدل میں پھنستی چلی جاتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو بہت سی نعمتیں اس کا ئنات میں دی ہیں ، ان میں ایک بہت بڑی نعمت وقت ہے ، انسان سمجھتا ہے کہ اس کی عمر بڑھ رہی ہے ، اس کے اوقات بڑھ رہے ہیں ؛ لیکن در حقیقت عمر گھٹتی جاتی ہے اور ہر لمحہ وقت کی متاع گراں مایہ اس کے ہاتھوں سے نکلتی جاتی ہے :
ہو رہی ہے عمر مثل برف کم
چپکے چپکے ، لمحہ لمحہ ، دم بہ دم
وقت کی قدرو قیمت کا اندازہ اس سے لگایئے کہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کتنے ہی مقامات پر وقت کی قسم کھائی ہے ، کبھی رات اور صبح کی قسم کھائی گئی ، ( اللیل : ۱ – ۲ ، مدثر: ۳۳-۳۴ ، تکویر : ۱۷- ۱۸) کبھی رات کے ساتھ شفق کی قسم کھائی گئی ، ( انشقاق : ۱۶-۱۷) کبھی فجر اور اس کے ساتھ دس راتوں کی (الفجر : ۱-۲) کبھی دن کی روشنی اور رات کے چھاجانے کی (الضحیٰ: ۱- ۲) اور کبھی خود زمانہ کی، ( العصر : ۱) دنوں کی آمد و رفت اور سورج و چاند کے طلوع و غروب سے اوقات کا علم ہوتا ہے ، قرآن مجید نے جابجا اللہ کی نعمت کی حیثیت سے ان کا ذکر فرمایا ہے ، اللہ تعالیٰ قیامت میں انسان سے اس کی عمر کے بارے میں بھی سوال فرمائیں گے ، کہ کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی ، جس میں نصیحت حاصل کرنے والے لوگ نصیحت حاصل کر سکیں ’’ أَوَلَمْ نُعَمِّرْکُم مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَن تَذَکَّرَ‘‘( الفاطر: ۳۷) رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن آدمی سے اس بارے میں سوال کیا جائے گا کہ اس نے اپنی عمر کس کام میں گذاری اور اپنی جوانی کو کس مقصد میں صرف کیا ؟ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : دو نعمتیں ایسی ہیں ، جن کے بارے میں بہت سے لوگ دھوکہ میں مبتلا ہیں ، صحت اور فراغت ِوقت.
افسوس کہ ایسی واضح تعلیمات اور ہدایات کے باوجود بہت سارے مسلمان بھی اپنی زندگی اور وقت کے بارے میں دھوکے میں مبتلا ہیں،جب سال مکمل ہوتاہے یا ان کی تاریخ پیدائش کا دن آتا ہے تو وہ اسے عمر کا بڑھنا سمجھ کر Happy New eyarاور Happy Birth dayکے عنوان سے جشن مناتے ہیں ،حالانکہ ہر گزرنے والا وقت ہماری عمر فانی کو گھٹا رہا ہے اور ہمیں اس دنیا سے دور اور آخرت سے قریب لے جارہا ہے ،لہذا نئے سال یا پیدا ئش کا جشن منانے کے بجائے اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ گزری ہوئی زندگی میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟
دنیا کے تمام مذاہب اور قوموں میں تیوہار اور خوشیاں منانے کے مختلف طریقے ہیں۔ ہر ایک تیوہار کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہے اور ہر تیوہار کوئی نہ کوئی پیغام دے کر جاتا ہے، جن سے نیکیوں کی ترغیب ملتی ہے اور برائیوں کو ختم کرنے کی دعوت ملتی ہے؛ لیکن لوگوں میں بگاڑ آنے کی وجہ سے ان میں ایسی بدعات وخرافات بھی شامل کردی جاتی ہیں کہ ان کا اصل مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ جیسے جیسے دنیا ترقی کی منازل طے کرتی گئی اور مہذب ہوتی گئی انسانوں نے کلچر اور آرٹ کے نام پر نئے جشن اور تیوہار وضع کیے انھیں میں سے ایک نئے سال کا جشن ہے۔
در اصل یہ نئے سال کا جشن عیسائیوں کاایجاد کیا ہوا ہے، عیسائیوں میں قدیم زمانے سے نئے سال کے موقع پر جشن منانے کی روایت چلتی آرہی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے عقیدے کے مطابق ۲۵/دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی ، اسی کی خوشی میں کرسمس ڈے منایا جاتا ہے ، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں جشن کی کیفیت رہتی ہے اور یہی کیفیت نئے سال کی آمد تک برقرار رہتی ہے۔نئے سال کے جشن میں پورے ملک کو رنگ برنگی لائٹوں اور قمقموں سے سجایا جاتا ہے اور ۳۱/دسمبر کی رات میں ۱۲/ بجنے کا انتظار کیا جاتا ہے اور ۱۲/بجتے ہی ایک دوسرے کو مبارک باد دی جاتی ہے، کیک کاٹا جاتا ہے، ہر طرف ہیپی نیو ائیر کی صدا گونجتی ہے، آتش بازیاں کی جاتی ہیں اور مختلف نائٹ کلبوں میں تفریحی پروگرام رکھا جاتاہے، جس میں شراب و شباب اور ڈانس کا بھر پور انتظام رہتا ہے، اس لیے کہ ان کی تفریح صرف دو چیزوں سے ممکن ہے اوّل شراب دوسرے عورت۔
آج ان عیسائیوں کی طر ح بہت سے مسلمان بھی نئے سال کے منتظر رہتے ہیں اور ۳۱/ دسمبر کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے، ان مسلمانوں نے اپنی اقدارو روایات کو کم تر اور حقیر سمجھ کر نئے سال کا جشن منانا شروع کر دیا ہے؛ جب کہ یہ عیسائیوں کا ترتیب دیا ہوا نظام تاریخ ہے۔
مسلمانوں کا اپنا قمری اسلامی نظام تاریخ موجود ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے مربوط ہے جس کا آغاز محرم الحرام سے ہوتاہے یہی اسلامی کیلینڈر ہے؛ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر کو اس کا علم بھی نہیں ہو پاتا۔
زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک بیش قیمتی نعمت ہے اور نعمت کے زائل یاکم ہونے پر جشن نہیں منایا جاتا؛ بلکہ افسوس کیا جاتا ہے۔ گزرا ہوا سال تلخ تجربات، حسیں یادیں، خوشگوار واقعات اور غم و الم کے حادثات چھوڑ کر رخصت ہوجاتا ہے اور انسان کو زندگی کی بے ثباتی اور ناپائیداری کا پیغام دے کر الوداع کہتا ہے، سال ختم ہوتاہے تو حیات مستعار کی بہاریں بھی ختم ہوجاتی ہیں اور انسان اپنی مقررہ مدت زیست کی تکمیل کی طرف رواں دواں ہوتا رہتا ہے۔ اسی کو شاعر نے کہا ہے:
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گِردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹادی
حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں کسی چیز پر اتنا نادم اور شرمندہ نہیں ہوا جتنا کہ ایسے دن کے گزرنے پر جس کا سورج غروب ہوگیا جس میں میرا ایک دن کم ہوگیا اور اس میں میرے عمل میں اضافہ نہ ہوسکا۔(قیمۃالزمن عند العلماء، ص: ۲۷)حضرت حسن بصری ؒفرماتے ہیں کہ: اے ابن آدم! تو ایام ہی کا مجموعہ ہے، جب ایک دن گزرگیا تو یوں سمجھ تیرا ایک حصہ بھی گزرگیا۔(حوالہ بالا)
یہ عمر اور زندگی جو ہم کو عطا ہوئی ہے وہ صرف آخرت کی ابدی زندگی کی تیاری کی خاطر عطا ہوئی ہے کہ ہم اس کے ذریعے آنے والی زندگی کو بہتر بناسکیں اور اپنے اعمال کو اچھا بناسکیں۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ یہ ایام تمہاری عمروں کے صحیفے ہیں، اچھے اعمال سے ان کو دوام بخشو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :”مِنْ حُسْنِ إسْلاِمِ الْمَرْءِ تَرْکُہ مَالاَیَعْنِیْہِ“۔ (ترمذی ۲/۵۸ قدیمی) ترجمہ: آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول چیزوں سے بچے۔
بعض کتب حدیث میں یہ روایت موجود ہےکہ جب نیا مہینہ یا نئے سال کا پہلا مہینہ شروع ہوتا تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے اور بتا ئےتھے: ”اللّٰہُمَّ أدْخِلْہُ عَلَیْنَا بِالأمْنِ وَ الإیْمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالإسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ وَجِوَازٍمِّنَ الشَّیْطَانِ“ (المعجم الاوسط للطبرانی ۶/۲۲۱ حدیث: ۶۲۴۱ دارالحرمین قاہرہ) ترجمہ: اے اللہ اس نئے سال کو ہمارے اوپر امن وایمان، سلامتی و اسلام او راپنی رضامندی؛ نیز شیطان سے پناہ کے ساتھ داخل فرما۔
اس دعا کو پڑھنا چاہیے ؛ نیز اس وقت مسلمانوں کو دو کام خصوصا کر نے چاہئیںیا دوسرے الفاظ میں کہ لیجیے کہ نیا سال ہمیں خاص طور پر دو باتوں کی طرف متوجہ کرتا ہے : (۱) ماضی کا احتساب (۲) آگے کا لائحہ عمل۔
ماضی کا احتساب
نیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتاہے کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ہمیں عبادات، معاملات، اعمال، حلال و حرام، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے میدان میں اپنی زندگی کا محاسبہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں؛ اس لیے کہ انسان دوسروں کی نظروں سے تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپا سکتا ہے؛ لیکن خود کی نظروں سے نہیں بچ سکتا؛ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ”حَاسِبُوْا أنْفُسَکُمْ قَبْلَ أنْ تُحَاسَبُوْا“۔ (ترمذی ۴/ ۲۴۷ ابواب الزہد، بیروت) ترجمہ: تم خود اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے۔
اس لیے ہم سب کو ایمان داری سے اپنا اپنا موٴاخذہ اور محاسبہ کرنا چاہیے اور ملی ہوئی مہلت کا فائدہ اٹھانا چاہیے؛ اس سے پہلے کہ یہ مہلت ختم ہوجائے ۔ اسی کو اللہ جل شانہ نے اپنے پاک کلام میں ایک خاص انداز سے ارشاد فرمایا ہے: ”وَأنْفِقُوْا مِنْ مَا رَزَقْنَاکُمْ مِنْ قَبْلِ أنْ یَأتِيَ أحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْلاَ أخَّرْتَنِيْ إلیٰ أجَلٍ قَرِیْبٍ فَأصَّدَّقَ وَأکُنْ مِّنَ الصَّالِحِیْنَ، وَلَنْ یُّوٴَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا إذَا جَاءَ أجَلُہَا وَاللّٰہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ“۔(سورئہ منا فقون، آیت/ ۱۰،۱۱) ترجمہ: اور جو کچھ ہم نے تمھیں دے رکھا ہے، اس میں سے (ہماری راہ میں) اس سے پہلے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے تو وہ کہنے لگے اے میرے پروردگار مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں سے ہوجاوٴں ۔ اور جب کسی کا وقت مقرر آجاتا ہے پھر اسے اللہ تعالی ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ تعالی اچھی طرح باخبر ہے۔
آگے کا لائحہ عمل
اپنی خود احتسابی اور جائزے کے بعد اس کے تجربات کی روشنی میں بہترین مستقبل کی تعمیر اور تشکیل کے منصوبے میں منہمک ہونا ہوگا کہ کیا ہماری کمزوریاں رہی ہیں اور ان کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے؟ دور نہ سہی تو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟انسان غلطی کا پتلا ہے اس سے غلطیاں تو ہوں گی ہی ، کسی غلطی کا ارتکاب تو برا ہے ہی اس سے بھی زیادہ برا یہ ہے کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے اور اسی کا ارتکاب کیا جاتا رہے۔یہ منصوبہ بندی دینی اور دنیوی دونوں معاملات میں ہو جیساکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ شَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ ، وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقَمِکَ، وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ، وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ ، وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ“۔ (مشکاۃ المصابیح ۲/۴۴۱ )
ترجمہ: پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جان لو (۱) اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے (۲) اپنی صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے (۳) اپنی مالداری کو فقروفاقے سے پہلے (۴) اپنے خالی اوقات کو مشغولیت سے پہلے (۵) اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔
آخرت کی زندگی کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار اسی دنیا کے اعمال پر منحصر ہے۔ جیساکہ ارشاد ربانی ہے:” وَأنْ لَیْسَ لِلإنْسَانِ إلاَّ مَاسَعٰی، وَأنَّ سَعْیَہ سَوْفَ یُرٰی، ثُمَّ یُجْزَاہُ الْجَزَاءَ الأوْفیٰ“۔ (سورئہ نجم، آیت/ ۳۹،۴۰،۴۱)
ترجمہ: اور ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی، اور بیشک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی، پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہر نیا سال خوشی کے بجائے ایک حقیقی انسان کو بے چین کردیتا ہے؛ اس لیے کہ اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے میری عمر رفتہ رفتہ کم ہورہی ہے اور برف کی طرح پگھل رہی ہے ۔ وہ کس بات پر خوشی منائے؟ بلکہ اس سے پہلے کہ زندگی کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوجائے کچھ کر لینے کی تمنا اس کو بے قرار کردیتی ہے اس کے پاس وقت کم اور کام ز یادہ ہوتاہے۔ہمارے لیے نیا سال وقتی لذت یا خوشی کا وقت نہیں؛بلکہ گزرتے ہوئے وقت کی قدر کرتے ہوئے آنے والے لمحا تِ زندگی کا صحیح استعمال کرنے کے عزم و ارادے کا موقع ہے اور از سر نو عزائم کو بلند کرنے اور حوصلوں کو پروان چڑھانے کا وقت ہے۔ جو لوگ وقت کوسستی اور بے قیمت چیز سمجھتے ہیں اور اس کی قدر دانی نہیں کرتے ، وہ زندگی میں کوئی بڑا کام نہیں کرسکتے ، اسلام نے وقت کی اہمیت ظاہر کرنے کے لئے تمام عبادات کو وقت سے جوڑ رکھا ہے ، نمازوں کے اوقات مقرر ہیں ، روزہ متعین وقت سے شروع ہوتا ہے اور متعین وقت پر ختم ہوتا ہے ، حج کے افعال بھی متعین ایام و اوقات میں انجام دیئے جاتے ہیں ، قربانی بھی متعین دنوں میں ہوتی ہے ، زکوٰۃ میں بھی مال پر ایک سال گذرنے کا وقت مقرر کیا گیا ہے اورشریعت میں کتنے ہی احکام ہیں، جو وقت سے مربوط ہیں ؛ لیکن افسوس کہ یہ اُمت اپنے وقت کو جس قدر ضائع کرتی ہے اور اس کو جتنا بے قیمت سمجھتی ہے ، شاید ہی اس کی کوئی مثال مل سکے ، مسلمان نوجوانوں کی یارباشی ، ہوٹل بازی اور بے مقصد سیر و تفریح ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے ؛ بلکہ ضرب المثل بنتی جا رہی ہے ، شادی بیاہ وغیرہ کی تقریبات میں جس بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ اوقات ضائع کئے جاتے ہیں ، یہاں تک کہ دینی جلسوں اور اجتماعات میں بھی اوقات کی پابندی کے معاملہ میں جوبے احتیاطی روا رکھی جاتی ہے ، وہ کس قدر افسوس ناک ہے !
ہم عزم مصمم کریں ، کہ وقت کی پوری قدر دانی کریں گے، اور اپنے ایک ایک لمحہ کو ضائع ہونے سے بچائیں گے اگرہم سب اس کا عزم کریں اور اپنے آپ کو اس پر قائم رکھیں تو کون ہے ، جو اس اُمت مرحومہ کی سر بلندی کو روک سکے ؟؟
وآخردعوانا ان الحمد للہ رب العالمین