نیو یارک سٹی کاؤنسل میں حلف برداری میں سرمئی رنگ کی ساڑھی میں ملبوس، ہاتھ میں قرآن مجید تھامے ہوئے 30 سالہ شاہانہ حنیف ہی تھیں جو اس کاؤنسل کی تاریخ میں پہلی مسلمان رکن منتخب ہوئی ہیں۔
شاہانہ حنیف نہ صرف نیو یارک سٹی کاؤنسل کی پہلی مسلم رکن ہیں بلکہ یہاں تک پہنچنے والی پہلی جنوبی ایشیائی نژاد خاتون بھی ہیں۔انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں اپنی تصویر شیئر کی جس کے ساتھ ہی انہوں نے قرآن کی آیات کا انگریزی ترجمہ بھی لکھا۔
شاہانہ حنیف نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اپنی مذہبی اور نسلی شناخت کو نظر انداز کرنے کے بجائے اسے مزید نکھارا۔ اپنی کیمپین ویڈیو اور انتخابی مہم کے دوران وہ نہ صرف ببانگ دہل مہذب لباس میں نظر آتی رہیں بلکہ امریکی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی بنگلہ دیشی شناخت کو بھی فخر سے متعارف کراتی رہیں۔
امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے وقت شاہانہ حنیف صرف 10 برس کی تھیں جب انہیں اپنی بہن کے ساتھ مسجد جاتے ہوئے کسی شخص نے دہشت گرد پکارا۔اس واقعے سے وقتی طور پر سہم جانے والی بچی آج 20 برس بعد اسی شہر کی سٹی کاؤنسل تک پہنچنے والی پہلی مسلم خاتون ہے۔
بروکلین میں پلی بڑھی شاہانہ حنیف کو وومن اینڈ جینڈر اسٹڈیز کی ڈگری نے ایسی قوت بخشی کہ وہ خواتین، نچلے طبقوں، مذہبی اقلیتوں اور تارکین وطن کی پُر زور آواز بن گئیں۔شاہانہ حنیف کا نہ صرف ہمیشہ مقامی مسجد سے تعلق مضبوط رہا بلکہ وہ اپنی بنگلہ دیشی جَڑوں سے بھی جُڑی رہیں۔نیو یارک میں پہلی پیڑھی کی بنگلہ نژاد خواتین زیادہ تر گھروں تک محدود ہیں۔
البتہ شاہانہ حنیف نے بنگلہ دیشی نژاد خواتین کی حالت زار بدلنے کے لیے نوجوانی ہی میں ناری شونگوتھوک یعنی بنگلہ دیشی نژاد خواتین کارکنوں کا گروہ تشکیل دیا جس کا کام خواتین کے حقوق پر آگاہی فراہم کرنا تھا۔
شاہانہ حنیف کبھی زمانہ طالبِ علمی میں نیو یارک میں پولیس کی جانب سے مسلمانوں کی نگرانی پر احتجاج کرتی نظر آئیں تو کبھی ٹیکسی ڈرائیورز کی ہڑتال میں ان کے حقوق کی آواز بنیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے انتخاب پر جنوبی ایشیائی اور مذہبی اقلیتیں خاص طور پر خوشی کا اظہار کرتی نظر آ رہی ہیں۔