عالمی پیمانے پر جس طریقے سے ایک منظم پلاننگ کے تحت اسلاموفوبیا کی فضاء قائم کی گئی، اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے جو مفروضے وضع کئےگئے 9/11 کے امریکی حملوں کے بعد اس میں مزید شدت پیدا کی گئی اور کوئی ایسا گوشہ نہیں چھوڑا گیا جہاں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام نہ کیا گیا ہو۔
اس دوران مسلمان اپنا دفاع کرتے رہے اور دنیا کو بتاتے رہے کہ اظہار رائے کی آزادی، دنیا میں بسنے والے ہر فرد کو ملنی چاہئے مگر اس آزادی کا دائرہ اتنا وسیع نہ ہو کہ دوسروں کے جذبات مجروح ہونے لگیں، لیکن اسے ان سنی کردی گئی، مسلمانوں کے لئے یہ وقت بڑا چیلنج بھرا اور صبر آزما ثابت ہوا، مسلمانوں کی بار بار وضاحت کے باوجود کہیں پیغمبر اسلام اور محسن انسانیت ﷺ کے خاکے بنائے گئے تو کہیں کسی اور طریقے سے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی پوری کوشش کی گئی، اس کے نتیجے میں اگر کہیں کچھ مسلمانوں نے ردعمل کا اظہار کردیا تو یہ مغربی ممالک اور یورپ کے لئے ایک بڑا ایشو بن گیا اور پھر اسکے ذریعے اسلام اور مسلمان نشانے پر آگئے۔
آپ کو شاید یاد ہو گاکہ امریکی ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر جب حملہ ہوا تھا تو اس حملے کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے دہشت گردی کے خلاف جنگ چھیڑنے کا اعلان کیا تھا اور اسے صلیبی جنگ بتایا تھا، اس بیان کو دنیا بھرکے مسلم مخالف لیڈروں نے مسلمانوں کے خلاف مظالم کا ایک نیا سلسلہ شروع کرنے کا اشارہ سمجھ لیا، اس کے بعد ایسے بیانات آنے لگے کہ سارے مسلمان دہشت گرد نہیں مگر سارے دہشت گرد مسلمان ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مختلف ممالک نے اپنے یہاں کے علیحدگی پسندوں کو دہشت گرد کہنا شروع کردیا، دنیا بھر میں یہ سلسلہ چلتا رہا جو اب بھی جاری ہے۔
بارک اوباما جب امریکی صدر بنے تو اس وقت امریکی لیڈروں کو یہ احساس ہوگیا تھا کہ مسلمانوں میں امریکہ کی شبیہ مسخ ہوئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہٹلر اور مسولینی نے جو سینکڑوں لوگوں کا قتل کیا ان کے اس مذموم عمل کو انکے ہم مذہب لوگوں سے نہیں جوڑا گیا تھا، مگر 9/11کے واقعہ کو ڈائریکٹ مسلمانوں سے جوڑ دیا گیا، جس کے اثرات دنیا بھر کے مسلمانوں پر پڑے، جس کی وجہ سے مسلمان امریکہ کو مسلم مخالف سمجھنے لگے ہیں، چنانچہ اوباما نے اسی دوری کو ختم کرنے کا سلسلہ شروع کیا، اور اپنے قول وعمل سے یہ دکھانے اور بتانے کی ہر ممکن کوشش کی کہ امریکہ نہ ہی اسلام مخالف ہے اور نہ ہی مسلم مخالف۔
اس وقت عالمی سیاسی منظر نامہ تبدیل ہورہا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ افغانستان میں طالبان کا اقتدار پر کنٹرول ہے، امریکی فوج کو بری طرح شکست دینے کے بعد طالبان نے افغانستان میں اپنی حکومت بنالی ہے، گذشتہ 15اگست کو طالبان نے افغانستان کو اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا، اس کے بعد سے سیاسی منظر نامہ تبدیل ہونے لگا ہے، اس تبدیلی میں چین اور روس اہم کردار ادا کرنے کی تیاری کررہے ہیں، خبر یہ بھی ہے کہ 2028 تک چین اقتصادی محاذ پر امریکہ کو پیچھے چھوڑ دے گا، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ چین سے نمٹنے کےلئے امریکہ کو جو کچھ کرنا ہے 2027 تک ہی کرنا پڑیگا، افغانستان کی طالبانی حکومت سے چین اور روس کے اچھے تعلقات ہیں، اور یہ تعلقات روز بہ روز مزید مستحکم ہورہے ہیں۔
یہ احساس امریکہ کو بھی ہے اسی لئے امریکہ اب روس سے بڑے پیمانے پر مذاکرات کرنے کےلئے بھی تیارہے اور اسکی کوششیں دونوں ملکوں میں جاری ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان یہ مذاکرات 10جنوری کو متوقع ہے، ایک مقامی اخبار کے مطابق "امریکہ اور روس کے درمیان جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول اور یوکرین سمیت دیگر سیکورٹی معاملات پر مذاکرات جنوری میں طے پا گئے ہیں، وائٹ ہاؤس میں نیشنل سیکورٹی کے ترجمان نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ دونوں ممالک کے وفود 10جنوری کو ملاقات کریں گے، جس کے بعد 12جنوری کو روس اور ناٹو اتحاد جبکہ 13جنوری کو امریکہ،روس اور یورپی ممالک کے وفود کے مابین بات چیت ہوگی، ترجمان کا مزید کہنا تھاکہ جب ہم مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے تو روس بھی اپنے تحفظات رکھے گا اور ہم بھی روس کی سرگرمیوں کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کریں گے، ان کا کہنا تھاکہ کچھ معاملات میں پیش رفت ہوسکتی ہے،جبکہ بعض معاملات پر اختلاف رائے ہوگا اور اسے ہی سفارت کاری کہتے ہیں، ترجمان نے واضح کیا کہ یوکرین کے حوالے سے صدر بائیڈن کی سوچ واضح اور غیر مبہم ہے، ان کے بقول صدر بائیڈن یہ واضح کرچکے ہیں کہ امریکہ روس، یوکرین تنازعہ کو سفارت کاری کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتا ہے، لیکن اگر روس نے یوکرین میں مداخلت کی تو اسے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی جانب سے نتائج کا سامنا کرنا پڑےگا۔
جغرافیائی لحاظ سے روس اور یورپی یونین کی سرحد کے قریب واقع ملک یوکرین سابق سوویت یونین کا ہی حصہ تھا، البتہ روس یوکرین پر روس کے خلاف اشتعال انگریزی کے الزامات عائد کرتا رہا ہے، سال 2014 میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا اور اس کے بعد سے ہی روسی حمایت یافتہ جنگجو گروپس اور یوکرینی فوج کے درمیان وقتاً فوقتاً جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں، خیال رہے کہ امریکہ سمیت مغربی ممالک روسی افواج کی یوکرین کی سرحد کے قریب بڑھتی ہوئی نقل وحرکت پر تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق رواں ماہ ہزاروں روسی فوجی یوکرین کی سرحد کے قریب تعینات کئے گئے ہیں، امریکہ اور یورپی ممالک کو خدشہ ہے کہ روس ممکن طور پر یوکرین پر حملے کا منصوبہ بنارہا ہے،G-7 ممالک نے رواں ماہ روس کو خبردار کیاتھا کہ اگر اس کی افواج یوکرین میں داخل ہوئی تو اس کے نتائج سنگین ہونگے، البتہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن ایسے کسی بھی منصوبے کی تردید کرتے ہوئے یہ ضمانت طلب کررہے ہیں کہ یوکرین کو ناٹو کا حصہ نہیں بنایا جائے گا اور ناٹو اس کی سرحد کے قریب جنگی مشقیں بھی روک دیں”
اس خبر سے اتنا تو واضح ہے کہ روس ایک بار پھر خطے میں مستحکم ہورہا ہے اور اپنی طاقت میں اضافہ کررہا ہے شاید اسی لئے امریکہ روس سے مذاکرات کےلئے آمادہ ہوا ہے، افغانستان میں سوویت یونین کی شکست میں روس بھی شریک تھا اسکے بعد جب طالبان نے 90کی دہائی میں اقتدار حاصل کیا تھا تو امریکہ اسکا حمایتی تھا آج امریکہ کی شکست سے روس طالبان حکومت کا حمایتی ہے اور اسی وجہ سے روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے گذشتہ 23دسمبر کو سالانہ کانفرنس میں ایک اہم بیان دیا ہے ایسا لگتا ہے کہ وہ مقدس شخصیات کی اہمیت سے واقف ہوچکے ہیں، اس کے علاوہ آزادیِ اظہارِ رائے کے دائرے سے بھی انھیں واقفیت ہوگئی ہے، روسی صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی آزادیِ اظہارِ رائے نہیں ہے، شان رسالتؐ میں گستاخی، مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے، جولوگ اسلام کو مانتے ہیں، ان کے مقدس جذبات کو مجروح کرنا ہے۔
روسی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق پوٹن نے اپنی سالانہ کانفرنس میں کہا کہ”پیغمبر اسلام ﷺ کی توہین مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے، اس کے علاوہ مسلمانوں کے جذبات کی بھی خلاف ورزی ہے، ان کا کہنا تھاکہ شان رسالت ﷺ میں گستاخی لوگوں کو ناراض کرنے اور اشتعال دلانے کا سبب ہے، پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی آزادی اظہار رائے نہیں ہے، شان رسالت میں گستاخی مذہبی آزادی کے خلاف ہے جو دراصل مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنا ہے۔
متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو پر حملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے روسی صدر کا کہنا تھا کہ ایسی حرکتیں انتہاء پسندی کی جانب لے جاتی ہیں، انھوں نے کہا کہ آزادی آپ کے ارد گرد لوگوں کو عزت دینے کا نام ہے، روس ایک کثیر النسلی اور کثیر الاعتقادی ریاست کے طور پر تیار ہوا ہے اور ہم ایک دوسرے کی روایات کا احترام کرنے کے عادی ہیں مگر کچھ دوسرے ممالک اس چیز کو پس پشت ڈال دیتےہیں”
یہ روسی صدر کا بیان ہے جس کا خیر مقدم بڑے پیمانے پر کیا جانا چاہیے، پوری دنیا میں مسلمان یہی سمجھاتے رہے لیکن ان کی بات کو ان سنی کردی گئی،آج یہی بات پوٹن کہہ رہے ہیں تو کچھ غلط نہیں کہہ رہے ہیں، دنیا کو آج امن کی ضرورت ہے،اور امن کے قیام کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہر مذاہب کے ماننے والے اور انکی مقدس شخصیات کا احترام کیا جائے، بصورتِ دیگر دنیا میں امن کا قیام ایک خواب ہی رہےگا، اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر دنیا بھر میں بالخصوص یورپی ممالک میں جو تماشے ہوتے رہتے ہیں اس کا سلسلہ بند ہونا چاہئے، یورپی ممالک اور ان کے لیڈران کو روسی صدر کے اس بیان کو بار بار پڑھنا، سمجھنا اور ذہن نشین کرنا چاہئے، یورپ کے لیڈران اس طرح کے کئی مواقع پر مضحکہ خیز بیان دیتے رہے ہیں انھیں حالات کو سمجھنا چاہیے اور پوٹن سے سبق حاصل کرنا چاہئے، تھائی لینڈ،فرانس اور چین کے علاوہ دیگر ممالک کی حکومتوں نے دہشت گردی مخالف کارروائی کے نام پر مسلمانوں کے خلاف جو ظلم وستم کا سلسلہ ماضی میں شروع کیا اور جیلوں میں مسلمانوں کو قید کیاجانے لگا، انھیں مذہبی فرائض اداکرنے پر سزائیں دی جانے لگی، یہ چیزیں امن کے قیام کے لئے بڑی رکاوٹ ہے، امریکی صدر بش نے جو ماحول بنادیا تھا اوباما اس خلیج کو پاٹنے میں سرگرداں رہے لیکن اسکے بعد ٹرمپ نے بش کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی اور مسلم مخالف لہر میں مزید اضافہ کیا، ابھی گذشتہ ماہ امریکی ایوان نمائندگان میں اسلاموفوبیا کے خلاف بل منظور کیا گیا ہے، اس بل کی حمایت خود امریکی صدر بائیڈن نے کی اور اسے پاس کرایا، بائیڈن پھر سے امریکہ کو اسی ڈگر پر لے جانا چاہتے ہیں ہیں جہاں اوباما نے اسے چھوڑ دیا تھا، اسلاموفوبیا کے خلاف بل پاس کرانا اسی کا حصہ ہے، یہ سب دنیا کے بدلتے حالات کی جانب ایک اہم اشارہ کررہے ہیں، امریکہ ماضی میں روس کا کٹر حریف رہا ہے، چین کا مقابلہ کرنے اور اسے اطمینان بخش طریقے سے گھیرنے کے لئے امریکہ نے اسلاموفوبیا کے خلاف بل پاس کیا ہے کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ چین سے مقابلہ اس وقت تک نہیں کیا جاسکتا جب تک اسلاموفوبیا کے خلاف کوئی ٹھوس کام نہ ہو، چین ایک عرصے سے ایغور مسلمانوں پر ظلم وستم جاری رکھے ہوئے ہے ایسے میں امریکہ کی یہ ساری جدوجہد چین کو گھیرنے کے لئے بھی ہورہی ہے، روسی صدر نے اس ایشو کے لئے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیا ہے جو مسلمانوں کے لئے بے حد اہم ہے۔
اس حقیقت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ بدلتی دنیا اور بدلتے حالات میں اسلام اور مسلمان ایک اہم ایشو ہیں انھیں نظر انداز کرکے دنیا میں کوئی بھی تبدیلی کارگر نہیں ہوسکتی،پوٹن کے اس بیان پر پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے، ٹویٹر پر جاری اپنے بیان میں وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ روسی صدر کے بیان کا میں خیر مقدم کرتا ہوں، ان کا بیان میرے موقف کی تائید ہے، امت مسلمہ کو اسلاموفوبیا کے مقابلے کے لئے اس پیغام کو غیر مسلم دنیا تک پہونچانا چاہئے، میں اس بیان سے مکمل اتفاق کرتاہوں”اسی طرح امارت اسلامی افغانستان نے روسی صدر کے اس بیان کا پر زور انداز میں خیر مقدم کیا ہے، طالبان کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا کہ”امارت اسلامی روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کے بیان کا خیر مقدم کرتی ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں گستاخی اظہار رائے کی آزادی نہیں، بلکہ یہ آزادی مذہب اور مسلمانوں کے مقدس جذبات کی خلاف ورزی ہے، اسکے علاوہ انھوں نے کہا کہ صدر پوٹن کا نئی افغان حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے دیا گیا بیان خوش آئند ہے”۔
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے توہینِ رسالت اور اسلاموفوبیا کے معاملے پر مسلم ممالک کے سربراہان کو گذشتہ دنوں خط بھی لکھ چکے ہیں، روسی صدر کے اس بیان کا بڑے پیمانے پر خیر مقدم ہونا چاہئے لیکن افسوس یہ ہے کہ مسلم ممالک کے دیگر حکمرانوں کا اب تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا جبکہ یہ انتہائی حساس موضوع ہے، پھر اس معاملے پر مسلم حکمرانوں کی معنی خیز خاموشی کا کیا مطلب ہے؟ ایک چیز اور بھی قابل غور ہے کہ عالمی حکمرانوں کو تحفظ ناموس رسالت پر قانون سازی کرنی چاہئے اور اسطرح کی حرکت کرنے والوں کے لئے سخت سزا کا التزام کیا جانا چاہئے، اظہارِ رائے کی آزادی کا دائرہ بھی جمہوریت کے علمبرداروں کو طے کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ دنیا میں امن وامان کا قیام ممکن ہوسکے، اس گئے گذرے دور میں مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن اپنے نبی اور رسول ﷺ کی عزت وحرمت کو پامال ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتا، آپ ﷺ کی عزت و حرمت ایک مسلمان کے لئے سب سے قیمتی چیز ہے۔
ہندوستان سمیت دنیا بھر میں آئے روز جو تماشے ہورہے ہیں اور اسے اظہار رائے کی آزادی کا نام دیا جارہا ہے یہ بہرحال غلط ہے، دھرم سنسند کے نام پر جو نفرت اور غلاظت پھیلائی جارہی ہے یہ کسی صورت ملک کے مفاد میں نہیں ہے اور حکومتوں کی خاموشی مزید تشویشناک ہے یہ سلسلہ بالکل بند ہونا چاہیے، اسلام کا مستقبل ابھی تاریک نہیں ہوا ہے، حکمرانوں کو یہ یادرکھنا ہوگا،2010 میں برصغیر کے ایک جہاں دیدہ اور بہت بڑے عالم،معروف فقیہ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب جب ہندوستان آئے تھے تو دارالعلوم دیوبند کی مسجد رشید میں بعض اساتذہ کے اس سوال پر کہ آپ نے پوری دنیا کی سیر کی ہے، دنیا کی کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں آپ کو اللہ نے نہ پہونچایا ہو ہر جگہ اللہ نے کو سفر کرایا یہ بتائیں کہ پوری دنیا میں آپ کو اسلام کا مستقبل کیسا نظر آیا؟ مفتی صاحب نے بڑے پر وقار انداز اور انتہائی اطمینان کے ساتھ یہ فرمایا کہ دنیا میں اسلام کا مستقبل تابناک اور روشن ہے، اس سلسلے میں ہمیں فکر مند ہونے کی بالکل ضرورت نہیں ہے، روسی صدر کا بیان اس حقیقت کی تصدیق کے لئے کافی ہے۔