وسطی کشمیر کے ضلع گاندربل میں مقامی عوام نے محکمہ امور صارفین پر راشن کی تقسیم میں دھاندلیوں کا الزام عائد کیا ہے۔
ملک کے وزیراعظم کے اعلان میں کہا گیا تھا کہ غریب لوگوں کو مفت راشن پہلے نومبر پھر مارچ 2022 تک بڑھا کر ہر فرد کو پانچ کلو ملے گا ، اس کے علاوہ ماہانہ کی بنیاد پر ( بی پی ایل) یا( پی ایچ ایچ) راشن کارڈ صارف کو تین روپیہ کے حساب سے فی فرد پانچ کلو چاول ملے گا۔ لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ وزیراعظم کی ساخت کو نقصان پہنچانے کے لئے کچھ لوگ محکمہ امورِ و صارفین گاندربل میں موجود ہیں جو کہ غریب عوام کے حق پر ڈاکہ ڈال کر وزیراعظم کے مشن کو ٹھیس پہچانا چاہتے ہیں۔ اور ان کے اعلان کو جان بوجھ کر اعلان تک ہی محدود رکھنا چاہتے ہیں۔
جس کی تازہ مثال گاندربل ضلع میں موجود وہ راشن اسٹور ہے، جو کہ چھترگل کنگن میں واقع ہے اور جس راشن اسٹور پر یہ نمبر 130100300009 لکھا ہے۔
اس راشن اسٹور کے بارے میں صارفین نے غم زدہ آنکھوں سے داستان بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ بے شک ہم پسماندہ ہیں، بے شک ہم غریب ہیں , لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے حقوق کے بارے میں پوچھنے پر ہماری تزلیل کی جائے اور ہمارے ساتھ بد تمیزی کی جائے۔ ایک صارف نے کہا ہے کہ میرے راشن کارڈ پر چھ لوگ درج ہیں جبکہ مجھے صرف دو لوگوں کا راشن دیا جاتا ہے، اسی طرح سے ایک اور صارف کا کہنا ہے کہ پہلے تو مجھے راشن لینے کے نام پر دفتر سے دفتر کے چکر لگوائے گئے اسکے بعد ایک بوری چاول تو دی گئی، لیکن 800کے بدلے میں 900 روپیہ مجھ سے وصول کئے گئے ہیں، جو کہ ہم غریب لوگوں سے سراسر ناانصافی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ رقم کس کس کے جیب میں چلی جائے گی ظاہر سی بات ہے کہ اس بڑے گھپلے میں افسران اور دیگر عملہ بھی شامل ہوگا۔کیونکہ اسی وجہ سے ایسے نچلی درجے کے ملازمین اتنے بڑے گھپلے کو انجام دے پارہے ہیں، اور اتنی بڑی ہمت کر پارہے ہیں۔
اس سلسلے میں امورِ و صارفین کے صوبائی سربراہ خاص کر ایل جی انتظامیہ کو توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے ورنہ وہ دن دور نہیں جب یہ غریب عوام غلط فہمی کا شکار ہوکر وزیر اعظم کے خلاف مظاہرہ کرنے پر اس وجہ سے مجبور ہونگے کہ شاید وزیراعظم صرف اعلان کر رہے ہیں جبکہ اعلان کو عملی جامہ نہیں پہنایا جارہا ہے۔
اس سلسلے میں کشمیر کے امور وصارفین سربراہ عبد الصمد نے بتایا کہ میں اس معاملے کی گہرائی تک جا کر جانچ کروں گا اور اگر واقعی میں کوئی ملوث ہوگا تواسکے خلاف کاروائی کروں گا۔ اب دیکھنا ہے کہ کیا مذکورہ آفیسر کچھ کاروائی کریں گے یاصرف کاروائی برائے کاروائی ہی رہ جائے گی۔