معاشرے میں جس طرح یہ مشہور ہے کہ "تاریخ خود کو دہراتی ہے”، بالکل اسی طرح یہ مقولہ بھی شائع و ذائع ہے کہ "سچائی کڑوی ہوتی ہے”۔
یہ دونوں ہی باتیں صرف مفروضہ ہیں، حقیقت سے ان کا کوئی رشتہ نہیں۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ لینے کی وجہ سے وہی صورت حال دوبارہ نمودار ہوجاتی ہے، جبکہ غلطی کرنے والے کو اپنی کوتاہیوں کا احساس ہونے کی بجائے اس کو تاریخ خود کو دہراتی ہوئی نظر آنے لگتی ہے۔
یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے اور معاشرہ میں پھیلی برائیاں وقت کے ساتھ بڑھ تو جاتی ہیں، کم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ اللہ تعالی نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے ( سورةالتين، آیت 4 ).
بہترین صلاحیتوں سے مزین تخلیق کئے جانے کے ساتھ ہی، انسان ظالم اور ناشکرا بھی واقع ہوا ہے۔ اپنی حماقتوں کو دوسروں کے خانہ میں ڈالنے کا ہنر اس کو اچھی طرح آتا ہے۔ انسان کے یہی شیطانی طور طریقے موجودہ ناپائیدار دنیا میں ہو رہے خدائی امتحان میں ناکام ہونے کا سبب بن سکتے ہیں۔
آئینہ کے سامنے اگر کوئی شخص اپنی مکروہ شکل دیکھ کر، آئینہ کو بری تصویر دکھانے کے لئے قصور وار ٹھہرانے لگے، تو اس کی جہالت پر ماتم کے علاوہ کیا کیا جاسکتا ہے؟
"مفعول” کو "فاعل” بنانے کی غیر اخلاقی چالاکی کا جو کھیل انسان ہمیشہ سے کھیلتا چلا آ رہا ہے، اسی نے بآسانی نہ صرف یہ مشہور کردیا ہے بلکہ سبھی اس پر متفق بھی نظر آتے ہیں کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے اور سچائی کڑوی ہوتی ہے۔
شیطانی وسوسوں کا شکار، انسان سچائی سے دور رہ کر، عموماً جھوٹی اور پر مکر و فریب زندگی جینا پسند کرتا ہے اور سچائی سے ایسا بےگانہ ہوجاتا ہے جیسے کہ وہ کوئی چیز ہی نہیں۔ جس طرح شراب جیسی قبیح چیز پینے والا ایک شخص شربت جیسی خوشگوار چیز کو بھی حقیر سمجھنے لگتا ہے اور کڑوی اشیاء کے عادی ایک شخص کو، اپنے منہ کے ذائقہ کا نظام بگڑ جانے کی پاداش میں، سوئیٹ ڈش بھی کڑوی لگنے لگتی ہے بالکل اسی طرح جھوٹ اور مکاری کی زندگی جینے والے اشخاص کو جب سچائی سے سابقہ پیش آتا ہے تو وہ انہیں کڑوی محسوس ہوتی ہے۔
چونکہ معاشرے کے عادات و اطوار ہی ادب تخلیق کرتے ہیں، اسی لئے "یہ کڑوی سچائی ہے کہ۔۔۔” جیسے الفاظ بڑے بڑے لوگوں کی تحریروں میں بھی پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔
معاشرہ کو، خاص طور پر، اہل قلم حضرات کو اس سنگین صورتحال کا ادراک ہونا چاہیے کہ غلط مفروضوں کو معاشرہ سے ختم کرنے کی سعی کی جائے اور خاص و عام کی زندگی کو جھوٹ کی آمیزش سے پاک کرتے ہوئے اس میں سچ کی روشنی داخل کی جائے۔
کڑوی تو دور کی بات، سچائی جیسی شیریں چیز کو ئی دوسری ہو ہی نہیں سکتی۔ اللہ تعالی نے کائنات کو سچائی کی بنیاد پر تخلیق کیا ہے۔ سچائی بالفاظ دیگر اصولوں کی بنیاد پر تخلیق نہ کئے جانے کی صورت میں کیا کائنات کی وسعت اور معنویت کا مطالعہ انسانوں کے لئے ممکن تھا؟
قوانین فطرت ہمیشہ سے تخلیق کائنات کا حصہ ہیں۔ اللہ تعالی کی مرضی کے مطابق انسانوں کو ضروری عقل و شعور سے مزین کرکے بھیجا گیا ہے تاکہ وہ قوانین فطرت کو دریافت کر سکیں، مذکورہ قوانین کی معنویت اور افادیت کا مطالعہ کرکے اپنی تہذیب و تمدن کو فروغ دے سکیں، اور نتیجتاً خالق کائنات کا دل و جان سے شکر ادا کر سکیں۔ آخر کار، اللہ تعالی نے انسان کو اپنی عبادت، یا دوسرے الفاظ میں، اپنی معرفت کے لئے ہی تو پیدا کیا ہے(سورة الذاريات، آیت 56 )۔
اللہ تعالی کی اسی خاص مہربانی کے طفیل، کئی بڑے سائنسدانوں نے کائنات میں کارفرما ڈیزائن اور بے مثال پلاننگ کے ادراک کا بغیر کسی تردد کے اعتراف کر لیا، اور ان میں سے جن خوش نصیب حضرات کو توفیق عطا ہوئی انہوں نے کائنات کے ڈیزائنر، بالفاظ دیگر خالق کائنات کو اپنی شعور کی آنکھوں سے دیکھ کر اس کی کبریائی کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور برگزیدہ ہو گئے۔
سچائی کو لفظ "کڑوی” سے منسوب کرنا شرف انسانیت کے منافی ہے۔ گو کہ امتحان کی غرض سے دنیا کو اس ڈھنگ پر بنایا گیا ہے کہ یہاں سچائی کے بغیر بھی جیا جاسکتا ہے، مگر ایسا جینا قرآن پاک کے الفاظ میں "بہرے، گونگے، اندھے” کی طرح جینا ہے( سورة البقرة، آیت 18 ) خود اللہ تعالی کا صفاتی نام الحق ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے سچائی۔
اللہ تعالی کے تخلیقی منصوبہ کے تحت، اس کے آخری رسول، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید، دنیا میں ان کے ہم عصر اور بعد کے زمانوں میں موجود سبھی عاقل و بالغ انسانوں پر فرض ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ رسولِ خدا اور رحمت اللعالمین ہونے کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خاص وصف اور بھی تھا، اور وہ تھا ـــ صادق الامین!