گذشتہ کئی ماہ سے میں یہ مسلسل لکھ رہا ہوں کہ ملکی حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں، نہ اس ملک میں لوگوں کی زندگیاں محفوظ ہیں، اور نہ ہی ان کا کاروبار، نہ ہی بینک بیالنس، لیکن اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگ مسلسل دروغ گوئی میں مصروف ہیں اور بڑے پیمانے پر جھوٹ پھیلارہے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ تاثر بھی دینے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں کہ ملک میں سب ٹھیک ٹھاک ہے، سب چنگاسی ہے، حالانکہ ملک کے موجودہ حالات اور اسکی حقیقت کچھ اور ہی چغلی کررہے ہیں، ایسے میں سوال یہ ہے کہ اقتدار کے لالچی لوگ آخر کیوں ملک اور قوم کو گمراہ کررہے ہیں؟ آنے والی ہرصبح ملکی مسائل میں تشویشناک حد تک اضافہ کررہی ہے، اور حکومت خوش فہمی میں مبتلاء ہے، نفرت کی سیاست اور مذہبی بلیک میلنگ عروج پر ہے کیوں کہ حکمراں پارٹی کے لئے یہ ایک ایسا نشہ ہے کہ جس کے بغیر وہ اقتدار کی کرسی تک نہیں پہونچ سکتے، لہذا اسی ایجنڈے کوآگے بڑھاؤ، اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالو،عوام کی آنکھوں میں دھول جھوکو اور ہرقیمت پر اقتدار حاصل کرو۔
سوال یہ ہے کہ آخر یہ کب تک چلے گا؟ اور یہ سلسلہ کہاں جاکر رکےگا؟ جن ریاستوں میں بی جے کی حکومت ہے وہاں تو انتہائی تشویشناک صورتحال ہے، لوگوں کے درمیان افراتفری اور بے چینی ان کے چہرے سے عیاں ہے،کشمیر بھی انھیں ریاستوں میں ہے جہاں ہر روز آگ وخون کی ہولی کھیلی جارہی ہے، لوگوں کے جمہوری حقوق کو بری طرح کچلا جارہا ہے اور کشمیریوں کی زندگیاں اجیرن بنادی گئی ہے،کشمیری لیڈران مسلسل وہاں کے حالات سے باخبر کررہے ہیں لیکن جہاں میڈیا اداروں پر پابندی ہے وہاں کے لوگوں کی چیخ وپکار دنیا کو کون سنائے گا؟ اور کون نشر کرےگا؟ جہاں انٹرنیٹ پر پابندی ہو،کرفیو کا ماحول ہو، لوگوں میں ڈر و خوف کی فضاء ہو، سیاسی قائدین کئی کئی ماہ سے گھروں پر نظر بند ہو، عام آدمی کا گھروں سے نکلنا مشکل ہو،کیا آپ کو لگتا ہے کہ ان حالات میں وہاں سب کچھ ٹھیک ہے؟
یہ حال صرف جنت نما کشمیر کا ہی نہیں بلکہ بلکہ تری پورہ اور ناگالینڈ وغیرہ میں بھی یہی سب ہورہا ہے،کشمیر کی شیرنی اور پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی جس طرح گذشتہ کئی ماہ سے مسلسل آواز اٹھارہی ہیں اور حالات سے واقف کرارہی ہیں، اصل تصویر کشمیر کی وہی ہے،کشمیر کے دوسرے قائدین غلام نبی آزاد، فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ وغیرہ نے وہاں کے حالات پر جس طرح کی خاموشی اختیار کی اور مودی حکومت کے ڈرسے بھیگی بلی بنے رہے۔ محبوبہ مفتی تن تنہا آواز بلند کرتی رہی اور کررہی ہیں، ملک میں بڑے بڑے لیڈران کو جس طرح خاموش کردیا گیا ہے ایسے میں محبوبہ مفتی کا حقیقت سے پردہ اٹھانا لائق تحسین ہے، بغیر کسی ڈر اور خوف کے وہ مسلسل کشمیر اور کشمیریوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھارہی ہیں، یہ بڑی بات ہے۔
پی ڈی پی صدر، اور مفتی سعید کی بیٹی شیرنی کی طرح گرج رہی ہیں اور مودی حکومت کو للکارہی ہیں کہ جموں وکشمیر کا خصوصی موقف اور اس کی ریاستی حیثیت بحال کی جائے، اس سے کم کسی بات پر کشمیری عوام مودی حکومت سے راضی نہیں ہونگے، غلام نبی آزاد کی راجیہ سبھا کی میعاد کی تکمیل پر وزیر اعظم نریندر مودی نے ان کی تعریف وتحسین کا جو منتر پڑھا تھا، غلام نبی آزاد ابھی تک اس سحر سے آزاد نہیں ہوئے ہیں،کشمیری لیڈر کو قوم یاد دلارہی ہے کہ جموں کشمیر نے مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باوجود مذہب کی بنیاد پر تقسیم کے نتیجے میں قائم ہوئے پاکستان کے ساتھ جانا ہرگز پسند نہ کیا اور اپنا مقدر ہمیشہ ہمیش کے لئے اپنے بھارت کے ساتھ وابستہ کرلیا،آزاد بھارت کے دستور سازوں نے کشمیری عوام کے اس احسان کو یاد رکھتے ہوئے اس احسان کے بدلے میں یہ احسان کیاکہ دستور کی دفعہ 370اور 35A جموں وکشمیر کو خصوصی موقف عطاکیا، اس ضمن میں کشمیریوں کو خصوصی مراعات اور سہولتیں دی گئیں، مودی حکومت نے جموں وکشمیر کے ساتھ احسان فراموشی کرتے ہوئے، سرحدی ریاست کی خصوصی حیثیت اور خصوصی مراعات سے متعلق دستوری دفعات منسوخ کردیئے، اور ستم بالائے ستم یہ کہ جموں کشمیر کی ریاستی حیثیت بھی ختم کردی گئی۔
یہیں پر بس نہیں کیا گیا بلکہ اس سرحدی ریاست کو تقسیم کرتے ہوئے جموں وکشمیر اور لداخ دو مرکزی علاقے قرار دیئے گئے،آرایس ایس کو ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست برداشت نہ ہوئی اس لئے سنگھی حکومت نے اس تعلق سے ظالمانہ فیصلے سنادیئے،اس دوران بغیر کسی جرم اور قصور کے بے شمار افراد کو جن میں نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل ہے، جیلوں میں بندکردیا گیا، عوام کے بنیادی حقوق بری طرح پامال کئے جارہے ہیں، جموں ،کشمیر اور خاص کر وادی میں خوف وہراس کی کیفیت ہے،عوام کو پولس اور سیکوریٹی فورسس کے رحم وکرم پر چھوڑدیا گیا، غیر جماعتی اساس پر کرائے گئے مجالس مقامی کے چناؤ میں کشمیری پارٹیوں کے تائیدی امیدواروں کی جیت اور بھگوا پارٹی امیدوار کی ناکامی سے مودی اور امیت شاہ اس قدر خوف زدہ ہیں کہ وہ اب اسمبلی الیکشن کرانے کی ہمت نہیں کرسکتے۔
محبوبہ مفتی جرأت وہمت کے ساتھ حالات کا سامنا کررہی ہیں اور وہ مسلسل دوسال سے زائد عرصہ قبل کئے گئے تمام ظالمانہ اقدامات سے دستبرداری کا مطالبہ کررہی ہیں، جبکہ غلام نبی آزاد اور دوسرے کشمیری قائدین، خصوصی موقف کی بحالی سے زیادہ الیکشن کے انعقاد میں دلچسپی دکھارہے ہیں، ایسے میں بنیادی سوال یہ ہے کہ وہاں امن امان کی بحالی کیسے ہوگی؟ کشمیر کا اصل مسئلہ انتخاب کا انعقاد نہیں بلکہ اصل مسئلہ خصوصی دفعات 370اور35A کی بحالی کا ہے، خصوصی دفعات کی بحالی کے بغیر چناؤ کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اگر خصوصی موقف کی بحالی کے ساتھ مرکز کی راست حکمرانی رہے تو اس سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑے گا اور خصوصی موقف کی بحالی کے بغیر جموں وکشمیر کا اقتدار کشمیری قائدین کو حاصل ہونے سے وہاں کی عوام کو بھی کچھ خاص فائدہ نہیں ہوگا، اس وقت کشمیری قائدین میں کشمیریت کا جذبہ صرف محبوبہ مفتی میں نظر آرہا ہے، کشمیر کے مردوں کو اس کشمیری خاتون سے عزم وہمت کا سبق لینا چاہئے۔
5اگسٹ 2019 کو مودی حکومت نے کشمیر کے خصوصی موقف کو منسوخ کیا تھا، دو ڈھائی سال گذر جانے کے بعد آج تک وہاں امن قائم نہیں ہوسکا،آخر اسکا ذمہ دار کون ہے؟کشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے گذشتہ دنوں مرکز پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ وہ جموں کشمیر کو پر امن ریاست کے طور پر پیش کررہا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی سڑکوں پر خون بہہ رہا ہے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے پر لوگوں پر انسدادِ دہشت گردی قوانین نافذ کئے جارہے ہیں۔
انھوں نے”نیا کشمیر”کی اصطلاح کے استعمال پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ جس نئے کشمیر کی تشہیر کی جارہی ہے، وہ سچ نہیں ہے بالکل جھوٹ ہے، آج ایک 18ماہ کی لڑکی اپنے باپ کی نعش حاصل کرنے دھرنے پر بیٹھی ہوئی ہے، جسے سیکورٹی فورسس نے شہید کردیا تھا، آج ایک کشمیری پنڈت کو دن دہاڑے گولی ماردی جاتی ہے، سڑک ایک بہاری شخص کے خون سے لال ہوجاتی ہے،کیا ہم اسے نیا کشمیر کہیں گے؟ کیا لفظ نیا کشمیر سے ہمیں یہی توقع تھی؟ہرجگہ صورتحال بہتر بتائی جارہی ہے تو پھر نیم فوجی فورسس کی تعداد میں اضافہ کیوں کیا جارہا ہے؟نئے بنکر کیوں بنائے جارہے ہیں؟
انھوں نے مودی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہاکہ نیا کشمیر بھول جائیں،نئے ہندوستان کی بات کریں، نئے ہندوستان میں دستور کے بارے میں بات کرنے والوں کو ٹکڑے ٹکڑے گیانگ قرار دیا جاتا ہے، اقلیتوں کو چاہے وہ سڑک کنارے سبزی بیچنے والا ہو یا فلم اسٹار ہو، اس کا سماجی و معاشی بائیکاٹ کیا جاتا ہے، ہوسکتا ہے یہ نیا ہندوستان ہو لیکن یہ میرا ہندوستان نہیں ہے،یہ مہاتما گاندھی کا ہندوستان نہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ناتھورام گوڈسے کا ہندوستان ہے، اور وہ گوڈسے کا کشمیر بنارہے ہیں، جہاں لوگوں کو بات کرنے تک کی اجازت نہیں، مجھے ہفتے میں کم ازکم دودن گھر پر نظر بند رکھا جاتا ہے۔
انھوں نے کہاکہ کشمیریوں نے 1947میں قومی ترنگا کو اپنایا اور ہندوستان میں شامل ہوئے،لیکن مجھے ڈر ہے کہ اس وقت بھی اگر آج کی حکومت برسراقتدار ہوتی تو نتائج یکسر مختلف ہوتے”فاروق عبداللہ نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آرٹیکل 370کی بحالی تک کشمیر میں امن قائم نہیں ہوسکتا،کئی سیاسی جماعتوں نے مودی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی حکومت نے کشمیرکا خصوصی موقف منسوخ کرنے کے بعد جو بھی دعوے کئے تھے وہ ہرروز تنکے کی طرح بکھرتے نظر آرہے ہیں، عمر عبداللہ نے کہاکہ بی جے پی نے دنیا بھر میں کہاکہ دفعہ 370منسوخ کرنے کے بعد کشمیر میں بندوقیں خاموش ہوجائیں گی،لیکن اسکی منسوخی کے بعد بھی تشدد جاری ہے، انھوں نے کہاکہ جموں کشمیر کا موجودہ انتظامیہ صورتحال سے نمٹنے اور عوام کو سلامتی کا احساس فراہم کرنے میں پوری طرح سے ناکام ہے، انھوں نے کہاکہ میرے دور میں ہم اس قدر مطمئن تھے کہ ہم نے کئی مقامات سے بنکر ہٹادئے تھے، لیکن آج کی حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف ان علاقوں میں بنکرس قائم کئے گئے ہیں بلکہ اضافی بنکرس بنائےگئے ہیں،اگر آرٹیکل 370 بندوق کے پیچھے کی وجہ تھی پھر حملوں کاسلسلہ پورے کشمیر میں بند کیوں نہیں ہوا؟ انکاؤنٹر اور پولس کے ذریعے عوام کے قتل کا سلسلہ کیوں جاری ہے؟”جموں کشمیر میں دہشت گردی کے مسلسل بڑھتے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس مسئلے پر پارلیمنٹ میں بحث کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
لوک سبھا میں نیشنل کانفرنس کے رہنما حسنین مسعودی نے خصوصی طور پر جموں وکشمیر میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ دہشت گردانہ حملوں کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے اور ان میں جان ومال کا بڑا نقصان ہورہا ہے، انھوں نے کہاکہ وہاں حالات سنگین ہوتے جارہے ہیں، اور اس طرح کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، لہذاٰ ایوان میں اس معاملے پر خصوصی بحث ہونی چاہئے، انھوں نے کہاکہ ریاست میں آئے روز کوئی نہ کوئی دہشت گردی کا واقعہ رونما ہورہا ہے اور بے گناہ لوگ مارے جارہے ہیں۔
غور طلب ہے کہ جموں کشمیر کے دارالحکومت سرینگر کے مضافات میں جنگجوؤں نے پولیس کی ایک بس پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں دوپولس اہلکار شہید اور 12جوان زخمی ہوئے تھے، خبر یہ بھی ہے کہ کشمیری پنڈت بھی بڑی تعداد میں کشمیر چھوڑ چکے ہیں گویا کہ پنڈت بھی وہاں محفوظ نہیں، حکومت نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ کتنے پنڈتوں نے کشمیر چھوڑا اسکے اعداد و شمار ہمارے پاس نہیں ہیں،آخر اس سنگھی حکومت کے پاس نہ شہید کسانوں کی لسٹ ہے نہ لاک ڈاؤن اور کورونا سے جان گنوانے والوں کی لسٹ ہے تو پھر حکومت کے پاس کیا ہے؟
ہندوستانی تاریخ کی انتہائی بے شرم،بے غیرت اور ناکام حکومت، مودی حکومت ثابت ہوئی ہے، ایسے لوگ ملک و قوم کا تحفظ کیسے کریں گے؟ ملک کے انصاف پسند عوام اور مذہبی وسیاسی قائدین کا فریضہ ہے کہ وہ کشمیر کے خصوصی موقف کی بحالی کےلئے جدوجہد کریں،اس سے اظہارِ یگانگت کریں، اور حکومت سے پوچھیں کہ جب آرٹیکل 370 ہٹانے کے بعد مقصد پورا نہیں ہوا تو آخر اس کا فائدہ کیاہوا؟ اور یہ کہ وہاں امن وامان کی بحالی کیسے اور کب ہوگی؟