پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس جاری ہے، پارلیمنٹ وہ جگہ ہے جہاں قانون سازی ہوتی ہے، لوگوں کی فلاح وبہبود کے لئے قوانین بنائے جاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کے چار انتہائی مضبوط اور اہم ستون ہیں، حکومت، عدالت، مقننہ اور میڈیا، یہ وہ چار ستون ہیں جس سے جمہوری نظام کو بہت تقویت ملتی ہے، جمہوریت کی بنیاد انھیں چاروں ستون پر قائم ہے، یہ چاروں مل کر ایک مستحکم جمہوریت کا قیام عمل میں لاتے ہیں، ملک کے موجودہ حالات پر اگر سرسری نظر ڈالی جائے تو یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ میں آجائے گی کہ گذشتہ چند برسوں میں ان چاروں اہم ستون کو کمزور کرنے اور اس پر شب خون مارنے کی پوری کوشش کی گئی۔
سنہ 2014 کے بعد سے مسلسل ملک کے جو حالات بنائے گئے ان میں جمہوریت اور جمہوری نظام کو کمزور کرنے یا ختم کرنے کی پوری کوشش کی گئی، یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے، میڈیا کو تو خرید لیا گیا، چنانچہ اب ملک کا میڈیا حساس مسائل پر حکومت سے سوال پوچھنے کے بجائے وہ ادھر ادھر کی باتوں میں لوگوں کو الجھائے رکھتا ہے۔
بابری مسجد معاملے میں جس طریقے سے ملک کی سب سے بڑی عدالت نے انصاف کا قتل کیا یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، حکومت جس طرح عوام مخالف اقدامات کررہی ہے یہ بھی دنیا دیکھ رہی ہے، اب ایسے میں صرف مقننہ باقی رہ جاتا ہے، کم ازکم مقننہ کو تو سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہئے تھا لیکن قانوں ساز ادارے بھی اپنے فرائض منصبی اداکرنے میں ناکام ثابت ہورہے ہیں ہیں،گویا جمہوری نظام میں اہم کردار ادا کرنے والے چاروں اہم ستون اپنی ذمہ داریاں اداکرنے میں ناکام رہے یا انھیں جان بوجھ کر کمزور کیا گیا، ایسے میں سوال یہ ہے کہ ہم بھارت کے لوگ کیا پھر بھی یہ کہلانے کے حق دار ہیں کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں؟ اور کیا ہمارے یہاں ایک مضبوط اور مستحکم جمہوریت قائم ہے؟
ہندوستانی جمہوریت میں پارلیمنٹ کو انتہائی اہمیت دی جاتی ہے اور پارلیمنٹ کو جمہوریت کا مندر بھی کہا جاتا ہے، ایوانوں ہی میں ملک اور ملکی عوام کے تعلق سے فیصلے کئے جاتے ہیں، حکومت کی جانب سے بل تیار کرکے پیش کئے جاتے ہیں، ان کا جائزہ لینے کے بعد اپوزیشن کی جانب سے ان میں ترامیم و تجاویز پیش کی جاتی ہیں، حکومتیں پھر ان ترامیم و تجاویز کا جائزہ لیتی ہیں، حکومت کے بل اور اپوزیشن پارٹیوں کی ترامیم و تجاویز پر پارلیمنٹ میں اپوزیشن اور حکومت دونوں کی جانب سے دلائل دئے جاتے ہیں، اسکی خوبیوں اور خامیوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے اور جب سارا ایوان ان بلوں کے تعلق سے ایک رائے ہوجاتا ہے یا پھر اختلاف رائے کو بڑی حد تک ختم کر لیا جاتا ہے تب کہیں جاکر یہ قانون بنتا ہے اور مقننہ اس پر مہر لگاتی ہے، پارلیمنٹ کے ایوانوں میں اسے منظوری دی جاتی ہے،ایوان میں اکثریت رکھنے کے باوجود ہندوستان میں یہ روایت موجود تھی کہ حکومتیں ایوان میں ایک آواز سے کوئی قانون منظور نہیں کرتی تھیں، بلکہ ایوان میں اس پر بحث و مباحثہ ہوتا تھا، وسیع پیمانے پر اسکی خامیوں اور خوبیوں کاجائزہ لیا جاتا تھا، ان پر بحث کروائے جاتے اور پھر ضرورت پڑنے پر انھیں پارلیمنٹ کی اسٹانڈنگ کمیٹی سے رجوع کیا جاتا تھا، تاکہ اس قانون کے پاس ہونے کے بعد کسی قسم کی پیچیدگی نہ ہو اور نہ اس کے نفاذ کے وقت کوئی چیز رکاوٹ بنے، لیکن اب مرکز میں جب سے یعنی گذشتہ سات برسوں سے بی جے پی کی مودی حکومت، اقتدار پر قابض ہوئی ہے، تب سے ہی ملک کے دوسرے قوانین و اصولوں کی طرح اس روایت کی بھی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، قوانین بنانے کے لئے بل پارلیمنٹ میں پیش کئے جارہے ہیں اور ان کی تفصیلات عوام کے سامنے لانے سے گریز کرتے ہوئے طاقت کے زور پر قوانین بنائے جارہے ہیں، نہ ہی اس کے لئے اپوزیشن جماعتوں کی منظوری حاصل کی جارہی ہے اور نہ ہی ان بلوں کو اسٹانڈنگ کمیٹیوں سے رجوع کیا جارہا ہے، ایسے میں اس قانون کا نتیجہ کیاہوگا؟
حکومت صرف اکثریت اور طاقت کے بل پر فیصلے کرتے ہوئے ایوان کی اہمیت کم کرنے اور گھٹانے کی مرتکب ہورہی ہے جو جمہوریت اور جمہوری نظام کےلئے انتہائی خطرناک ہے، حکومت کے اس رویے کے خلاف پارلیمنٹ مسلسل تعطل کاشکار ہے، اور اپوزیشن پارٹیاں احتجاج کررہی ہیں، سرمائی اجلاس شروع ہونے کے پہلے دن یعنی 29نومبر کو جس طرح زرعی قوانین کی منسوخی کابل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں منظور کیا گیا اور اس پر بحث کرانے سے مکمل طور پر گریز کیا گیا، یہ بہت سارے سوالات کھڑا کرتا ہے، زرعی قوانین کی منسوخی کا بل جس طرح اپوزیشن ارکان کے احتجاج اور ہنگامے کے درمیان صوتی ووٹ سے پاس کیاگیا، یہ واقعی افسوسناک ہے، اس کے نتیجے میں احتجاج کرنے والے 12 ارکانِ راجیہ سبھا کو پورے سیشن کے لئے معطل کردیا گیا، اجلاس کے پہلے دن ہی دونوں ایوان میں زوردار ہنگامہ ہوا، بغیر بحث کے زرعی قوانین بل کی منسوخی پر لیڈران چاغ پا ہوگئے اور پھر ہنگاموں کے سبب دونوں ایوانوں کی کارروائی دن بھر کے لئے ملتوی کردی گئی۔
سوال یہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں جب مطالبہ کررہی تھی کہ اس پر بحث ہو تو آخر حکومت بحث سے گریز کیوں کرتی ہے؟ حکومت نے ایسا پہلی مرتبہ نہیں کیاہے بلکہ اس سے قبل بھی جموں کشمیر کوخصوصی موقف دینے والے دفعہ 370کی تنسیخ پارلیمنٹ میں عمل میں لائی گئی، انتہائی اہمیت کے حامل اس مسئلے پر بھی ایوان میں محض چند گھنٹوں میں کارروائی پوری کرلی گئی، کشمیر کی جو موجودہ حالت ہے آج تک وہاں امن قائم نہیں ہوسکا، پھرآخر دفعہ 370 ختم کرنے کا فائدہ کیا ہوا؟
گذشتہ دنوں زرعی قوانین کی تنسیخ کا بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا لیکن اس پر کسی طرح کے مباحث کی اجازت نہیں دی گئی، صرف بل پاس کیا گیا اور اپوزیشن کو اظہارِ خیال کا موقع دینے اور خود اس کا جواب دینے کے بجائے حکومت نے من مانی انداز میں کارروائی چلائی،کیا یہ سب جمہوریت کے لئے خطرناک نہیں ہے؟ اور کیا حکومت کے اس رویے سے جمہوریت کمزور نہیں ہورہی ہے؟ اس طرح کے حالات کو دیکھ کر ہی گذشتہ دنوں چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے تشویش کا اظہار کیا تھا، انھوں نے کہا تھا کہ”مقننہ اپنے ذریعے منظور کئے جانے والے قوانین کے اثرات کا مطالعہ یا جائزہ نہیں لیتی ہے جسکی وجہ سے بعض اوقات بڑے بڑے بڑے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں اور نتیجہ کے طور پر عدلیہ پر معاملوں کا زیادہ بوجھ پڑتا ہے۔
چیف جسٹس، سپریم کورٹ کی جانب سے منعقد کی گئی یوم آئین کے اختتامی پروگرام سے خطاب کررہے تھے، یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ چیف جسٹس نے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اس سے قبل یعنی تقریب یوم آزادی کے دوران بھی چیف جسٹس نے مناسب بحث کے بغیر مقننہ کے ذریعے قانون پاس کرنے کے ایشو پر بات کی تھی، انھوں نے تبصرہ کیا تھا کہ یہ معاملے کی ایک افسوسناک صورتحال ہے کہ کئی قوانین میں عدم وضاحت ہے اور بحث کی کمی کے سبب قوانین کے مطالب کو سمجھنا ممکن نہیں ہے، اس سے غیر ضروری مقدمہ بازی ہورہی ہے، پہلے سے مقدموں کا بوجھ جھیلنے والے مجسٹریٹ ان ہزاروں معاملوں کے بوجھ سے دب گئے ہیں، انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ جو بھی تنقید ہو یا ہمارے سامنے رکاوٹ آئے، انصاف فراہم کرنے کا ہمارا مشن نہیں رک سکتا، ہمیں عدلیہ کو مضبوط کرنے اور شہریوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے اپنے فرائض پر عمل کرنے کو لیکر آگے بڑھنا ہوگا”
یہ بیان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بغیر سوچے سمجھے قانون بنانا اور عوام کے سر اسے تھوپ دینا اور اس کے عوامل کاجائزہ نہ لینا یہ بہر حال تشویشناک ہے اور بہت سے مسائل کا پیش خیمہ ہے،پھر آخر حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگ اس طرح اندھا دھند قانون سازی کیوں کررہے ہیں؟ کیا انھیں عوام کے مسائل ومشکلات سے کوئی سروکار نہیں ہے؟ قانون سازی ملکی باشندوں کے لئے ہوتی ہے تو پھر اس معاملے میں عوام کے دکھ درد، سہولت وپریشانی کا خیال کیوں نہیں رکھا جاتا؟ حکومت کے ذمہ داران ہمیشہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ حکومت تمام اہم مسائل پر پارلیمنٹ میں مباحث کروانے کےلئے تیارہے اور اپوزیشن پارٹیوں پر مباحث سے فرار کا الزام عائد کیا جاتا ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ حکومت خود اپنے بنائے ہوئے قوانین پر بحث کا سامنا کرنے تیار نہیں ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ جن مسائل پر قانون سازی ضروری ہے اس پر قانون کیوں نہیں بنایا جاتا؟ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ماب لنچنگ کے ذریعے کئی سو مسلم نوجوان اپنی جان گنوا بیٹھے، ملک کے مختلف شہروں میں تشدد پسندوں کی ایک بھیڑ جمع ہوتی ہے اور کسی نوجوان پر کوئی بھی الزام لگاکر اسے موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے، آخر اس بھیڑ کو قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار کس نے دیا؟ ہجومی تشدد بھڑکانے والوں کے خلاف قانون کیوں نہیں بنتا؟ آپ کو یاد ہوگا کہ جولائی 2018 میں عدالت عظمیٰ نے ملک میں پرہجوم ہنگاموں اور ماب لنچنگ کے واقعات پر سپریم کورٹ نے کہا تھاکہ بھیڑ کو من مانی کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اسے روکنے کے لئے پارلیمنٹ قانون سازی کرے، ریاستی انتظامیہ امن وامان کی فضا برقرار رکھنے اور عوام کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے، بھیڑ کے ذریعے قتل یا تشدد کا شکار ہونے والے افراد اور خاندان کو مناسب معاوضے دیئے جائیں۔
عدالت نے کہا کہ بھیڑ پر سختی سے پابندی لگانے کی ضرورت ہے،کسی بھی شخص کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں، خوف وہراس، لاقانونیت اور تشدد کا ماحول برپا کرنے والوں کے خلاف ریاستی حکومتیں کارروائی کریں، عدالت کے اس حکم کے باوجود پارلیمنٹ میں قانون کیوں نہیں بنایا جاتا؟ کیا یہ سمجھا جائے کہ ماب لنچنگ کے واقعات حکومت کے اشارے پر ہورہے ہیں؟ حکومت کے اس رویے سے ملک کی جمہوریت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، ہندوستانی جمہوریت اور پارلیمانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انتہائی شدید اختلاف کے باوجود دونوں ہی ایوانوں میں بلوں کو پیش کیا گیا اور ان پر سیر حاصل مباحث کی گنجائش فراہم کی گئی، وقت کی اپوزیشن جماعتوں کی رائے اور تجاویز حاصل کی گئی، ان پر بھی تبادلہ خیال ہوا، اور پھر یہ تجاویز اگر قابل قبول رہیں تو انھیں بھی قوانین میں شامل کرنے سے گریز نہیں کیا گیا۔
آج ان ساری روایتوں اور سارے ماحول کو تبدیل کردیا گیا ہے، صرف اکثریت اور طاقت کے بل پر ایوان کی اہمیت گھٹائی جارہی ہے، پارلیمنٹ کو بھی پارٹی دفتر کی طرح اشاروں پر استعمال کیا جارہا ہے، اور ملک کے عوام میں ایک غلط نظیر قائم کی جارہی ہے، اس بات سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں کہ قوانین بنانا حکومت کا اختیار ہے، حکومتیں ہی صورت حال کے مطابق قوانین تیار کرتی ہیں اور پارلیمینٹ میں پیش کرتی ہیں لیکن ان پر گہما گہمی پیدا کرتے ہوئے ہرگز کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہئے، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بلوں کی نقول قبل ازوقت فراہم کرکے اپوزیشن کو اسکے مطالعہ کا موقع دیا جانا چاہئے، ان سے رائے طلب کی جانی چاہیے، سیاسی اختلافات کو پارلیمنٹ کے باہر چھوڑتے ہوئے ایوان میں ملک کی تعمیر اور ترقی کے جذبے کے ساتھ ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے، لیکن فی الحال ایسا نہیں ہورہا ہے، اس پر توجہ کون دےگا؟
اپوزیشن کے 12ارکان کی معطلی کو واپس لینے کے لئے اپوزیشن پارٹیاں مصر ہیں لیکن حکومت اس معطلی کو درست ٹھہراتے ہوئے اپنے موقف پر اٹل ہے، اور معطل اراکین سے معافی کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے، لیکن راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر ملکارجن کھڑگے نے ایک بار پھر واضح کردیا ہے کہ معطل اراکین کسی صورت میں معافی نہیں مانگیں گے ان کی بحالی کی جائے۔
گذشتہ دس دنوں سے جب سے سرمائی اجلاس جاری ہے تب سے ہی ایوان کی کارروائی مسلسل ملتوی کی جارہی ہے، کھڑگے نے میڈیا کو بتایا کہ سابق میں 17 مسودہ قوانین پر منسوخ کئے جانے سے پہلے مباحث ہوئے تھے ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ مباحث کے بغیر قوانین کی منسوخی ہوئی ہے۔ اس طرح حکومت اور اپوزیشن کے درمیان دوری بڑھتی جارہی ہے جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ کا، ملک کا اور اس ملک کی عوام کا نقصان ہورہا ہے۔کیا ان سب چیزوں کو جمہوری نظام کے لئے نیک شگون کہا جاسکتا ہے؟