ریاست جھارکھنڈ کے ہزاری باغ کے رہنے والے محمد خالد پورے جھارکھنڈ میں لا وارث لاشوں کے مسیحا کے نام سے جانے جاتے ہیں جنہوں نے اب تک دس ہزار سے زائد لا وارث لاشوں کی آخری رسومات کو انجام دیا ہے۔
یہ ریاست جھارکھنڈ کے ہزاری باغ کے رہنے والے محمد خالد ہے ان کی زندگی میں 20 سال پہلے اس وقت بدلاؤ آیا جب انہوں نے روڈ کنارے ایک خاتون کی لاش دیکھی، لوگ اس کی لاش کے پاس سے گذررہے تھے لیکن کوئی اس کی جانب توجہ نہیں دے رہا تھا۔
ہزاری باغ میں پیتھالوجی سنٹر چلانے والے خالد خاتون کی بوسیدہ لاش دیکھ کر بے چین ہوگئے۔ انہوں نے ایک گاڑی کا انتظام کیا، کفن خریدا، میت کو اٹھایا اور اکیلے ہی شمشان گھاٹ لے گئے، اور اس خاتون کی آخری رسومات کو انجام دیا۔
اس واقعے نے انہیں لاوارث لاشوں کا مسیحا بنا دیا، اور اس کے بعد سے خالد نے لاوارث لاشوں کی آخری رسومات کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا۔
چند ماہ بعد ہزاری باغ کے سینٹ کولمبس کالج سے تعلق رکھنے والے ان کے دوست تاپس چکرورتی بھی ان کی مہم میں شامل ہو گئے۔ تب سے لے کر اب تک دونوں نے 6000 سے زائد لاشوں کی آخری رسومات کو انجام دیا ہے، اس طرح وہ ‘لا وارث لاشوں کے دوست’ بن گئے ہیں۔
وبائی مرض کورونا وائرس کے دوران جب لوگوں نے اپنے عزیزوں سے کنارہ کشی اختیار کی تو خالد تاپس کی جوڑی نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر تقریباً 500 لاشوں کی آخری رسومات ادا کیں۔ یہ جوڑی اب جھارکھنڈ میں ‘لاوارث لاشوں کے مسیحا’ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
جھارکھنڈ کے سب سے بڑے ہسپتال ‘راجندرا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس’ RIMS میں 2010 میں مردہ خانہ لاوارث لاشوں سے بھر چکا تھا، جو لاشیں گلنا اور سڑنا شروع ہوگئیں تھیں جس کی بدبو ناقابل برداشت ہو گئی تھی۔ انتظامیہ کے پاس مسئلے کا کوئی حل نہیں تھا۔ اس کے بعد، خالد اور تاپس نے تمام لاشوں کی اجتماعی تدفین کا مشکل کام کیا۔ انہوں نے مل کر تقریباً 150 لاشوں کو جلایا۔ اس کے بعد سے، وہ دونوں RIMS میں لاوارث لاشوں کی آخری رسومات کو سنبھالتے رہتے ہیں۔
کورونا وائرس کی پہلی اور دوسری لہر کے دوران خالد اور تاپش کی جوڑی کورونا وائرس سے مرنے والوں کے لیے مسیحا بن گئے۔ خالد نے 15 دنوں میں کووِڈ سے مرنے والے 96 افراد کی آخری رسومات اکیلے ادا کی۔
خالد نے نہ صرف لاوارث لاشوں کی آخری رسومات ادا کیں بلکہ اس جوڑی نے ہندوؤں کی راکھ کو گنگا اور دیگر ندیوں میں ڈبو دیا۔ خالد نے اس کے لئے ‘مردا کلیان سمیتی’ کے نام سے ایک تنظیم بھی قائم کی۔ انتظامیہ اور مقامی عطیہ دہندگان نے اب انہیں گاڑیاں فراہم کی ہیں، جو لاشوں کو شمشان تک پہنچانے میں سہولت فراہم کرتی ہیں۔ ان کے اس کام کو دیکھ کر لوگ ان کی تنظیم ’مردا کلیان سمیتی‘ میں شامل ہورہے ہیں۔
خالد نے کہا کہ”کورونا وائرس کے دوران ہمیں دن رات کام کرنا پڑا، مجھے اس وقت بڑا دھچکہ لگا جب میں نے دیکھا کہ ایک شوہر کورونا وائرس کی وہ سے مرنے والی اپنی بیوی کی لاش کو ہاتھ تک نہیں لگارہا تھا۔
خالد اور تاپس نے 2015 میں ہزاری باغ میں بھوکوں اور ضرورت مند لوگوں کو کھانا کھلانے کے لئے ‘ روٹی بینک’ کے نام سے ایک اور مہم کا آغاز کیا تھا۔ جہاں لوگ خود ’روٹیاں‘ پہنچاتے ہیں جو اسپتال میں بھکاریوں، غریبوں اور ضرورت مند مریضوں میں تقسیم کی جاتی تھیں، یہ سلسلہ پچھلے چھ سال سے جاری ہے۔
تاپس چکرورتی اب کالج سے سبکدوش ہو چکے ہیں اور خالد نے اپنے پیتھالوجی سنٹر کا کام گھر والوں کے حوالے کر دیا ہے۔ وہ اپنا سارا وقت لاشوں کی آخری رسومات انجام دینے اور ضرورت مندوں کو روٹی فراہم کرنے میں صرف کرتے ہیں۔ لوگ فخر سے اس دوستی کی مثالیں دیتے ہیں اور ان کے فلاحی کاموں کی ستائش کرتے ہیں۔