بھارت میں اس وقت کئی برسوں سے ایک تاناشاہ حکومت اقتدار پر قابض ہے اور اس حکومت نے گذشتہ سات برسوں میں جو من مانی اور عوام مخالف فیصلے کئے یہ اسکی تاناشاہی کی واضح دلیل ہے، ان کے فیصلوں سے اب یہی لگنے لگا ہے کہ بھارت سے جمہوریت ختم ہوچکی ہے اور یہاں ایک ایسا”راجہ” تخت نشین ہے، جو ان کی مرضی میں آتا ہے بغیر کسی مشورے کے وہ رات کی تاریکی یاصبح کی اولین ساعت میں اپنا من مرضی فیصلہ عوام کے سر تھوپ دیتا ہے، پھر اگر اس تاناشاہ کے عوام دشمن فیصلوں کی کسی نے مخالفت کی تو سمجھ لیجئے کہ اب اسکی خیر نہیں، 2014 سے اب تک ملک میں یہی ہوتا رہا ہے، اسے یہ غرورہےکہ اس حکومت اور اقتدار ہمیشہ ہمارا قبضہ رہےگا۔
نوٹ بندی،جی ایس ٹی، آرٹیکل 370،لاک ڈاؤن،کسان بل اور پھر زرعی قوانین کی واپسی وغیرہ ان چیزوں پر آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کس طرح ان فیصلوں کو نافذ کرتے ہوئے جمہوریت کی دھجیاں اڑائی گئی، ایک شخص اپنے خواہشات کی تکمیل کےلئے ملک کے کروڑوں لوگوں کو مشکلات میں ڈال دیتا ہے اور پھر بیٹھ کر تماشا دیکھتا ہے، لاکھوں خاندان اپنی جان گنوا بیٹھے اور مودی حکومت تماشائی بنی رہی، ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری اپنے عروج پر ہے لیکن یہ حکومت تماشا دیکھ رہی ہے۔
دہلی اور تری پورہ میں حیوانیت کا ننگا ناچ ہوتا رہا اور حکومت یہ سب دیکھتی رہی،سی اے اے اور این آرسی کے نتیجے میں آسام سمیت ملک کی کئی ریاستیں جلتی رہی اور حکومت انجان بنی رہی، کشمیر میں ہر روز ماتم ہورہا ہے لیکن مجال ہے کہ اس تاناشاہ کے فیصلے میں کوئی تبدیلی آجائے، نوٹ بندی بھی اس مغرور اور متکبر حکومت کے اہم فرمان میں سے ایک ہے۔
نوٹ بندی کے 5سال پورے ہوگئے ہیں تو اس بات کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے کہ آخر اس فیصلے سے ملک کا کیا فائدہ ہوا؟ نوٹ بندی کے وقت حکومت کی جانب سے جو بڑے بڑے وعدے اور دعوے کئے گئے اس میں کتنی سچائی تھی؟اور وہ کتنا پورا ہوا اگر ان میں سے ایک بھی پورا نہیں ہوا تو کیا یہ سمجھا جائے کہ بھارت کے سوا سو کروڑ لوگوں کو اندھیرے میں رکھا گیا اور انھیں گمراہ کیا گیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ آج سے پانچ سال قبل یعنی 8 نومبر 2016 کو رات 8بجے نریندر مودی نے ٹی وی پر بغیر کسی منصوبے کے 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا تھا، پھر500اور2000 کے نئے نوٹ جاری کئے گئے تھے، مودی کے اچانک اس فیصلے کے بعد لوگوں میں افراتفری مچ گئی تھی اور ملک کے شہریوں کو انتہائی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
بینکوں اور اے ٹی ایم کے باہر لمبی لمبی قطاریں لگ گئیں،کئی کئی دنوں تک مسلسل لوگوں کو لائن میں لگے رہنے کے سبب پورے ملک میں 100 سے زائد لوگوں کی جانیں گئیں،لوگوں کے پاس کھانے کے پیسے نہیں تھے، مزدوروں کی حالت غیرہوگئی تھی، عام لوگ،چھوٹے دکاندار، ریہڑی، پٹری والے، چھوٹے اور متوسط کاروبار، یومیہ مزدور اور غیرمنظم شعبے کے تمام کاروبار ٹھپ ہوگئے۔
مودی حکومت کی ایسی ناسمجھ پالیسیوں کے ساتھ ساتھ جی ایس ٹی کے انتہائی ناقص اور خراب انتظام وانصرام نے ملک کی مضبوط اور طاقتور معیشت کو تباہ وبرباد کردیا، رہی سہی کسر لاک ڈاؤن کے تغلقی فرمان نے پوری کردی، نوٹ بندی سے ٹوٹے قہر کے سبب ملکی معیشت ایک زبردست بحران سے گذر رہی ہے،جی ڈی پی شرح ترقی میں گراوٹ تاریخی بلندی پر ہے،بے روزگاری کے ساتھ ہی ضروری اشیاء خوردونوش کی قیمتیں آسمان چھورہی ہیں۔
نوٹ بندی کے جونشانے اور مقاصد بتائے گئے تھے کیا وہ حاصل ہوئے؟ اس بارے میں سوال کرنے پر حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے،لیکن اعدادوشمار تو سچائی بیان کرتےہیں، نوٹ بندی کا ایک مقصد نقد لین دین کو کم کرنا تھا، لیکن نقدی کا چلن اس وقت اپنے عروج پر ہے، رپورٹ کے مطابق نومبر 2016 سے اکٹوبر 2021 کے درمیان نقدی لین دین میں 48 سے 57فیصد کا اضافہ ہوا ہے، نوٹ بندی کے نشانوں میں نقلی کرنسی پر لگام لگانا بھی شامل تھا لیکن آربی آئی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ 2000 روپے کے نقلی نوٹوں میں 151فیصد کااضافہ ہوا، 500 روپے کے نقلی نوٹوں میں 37فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے، نوٹ بندی کا ایک نشانہ کالے دھن کو ختم کرنا بھی تھا، جو بدعنوانی کی اصل بنیاد ہے، لیکن ٹرانسپپرنسی انٹرنیشنل 2020 کی رپورٹ بتاتی ہےکہ ایشیا میں سب سے زیادہ بدعنوانی ہندوستان میں ہے۔
نوٹ بندی کا ایک نشانہ دہشت گردی کا خاتمہ بھی تھا، لیکن ہوا اس کے برعکس، ختم تو روزگار ہوگئے،غریبی میں اضافہ ہوگیا اور جی ڈی پی تاریخی گراوٹ سے دوچار ہوگئی، دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس سے ڈیجیٹل لین دین صرف اسمارٹ فون سے ہی ہوسکتا ہے، ساتھ ہی 10ہزار روپے سے زیادہ کے لین دین ٹن(ٹیکس انفارمیشن نمبر) لینا ضروری ہوتا ہے، نوٹ بندی کا ایک اہم نقصان یہ بھی ہواکہ لوگوں کا گھریلو بچت ختم ہوگیا اور کنزیومر اسپینڈنگ(صارف خرچ)گذشتہ چار دہائی میں پہلی بار نیچے آیا،کالے دھن کو ختم کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا مگر ریئل اسٹیٹ،سونا، شیئر اور غیر ملکی کرنسی وغیرہ میں سرمایہ کاری میں چھپے کالے دھن پر کوئی معمولی کارروائی بھی نہیں کی گئی۔
نوٹ بندی اور پھر جی ایس ٹی کے خراب انتظام نے ہندوستانی معیشت کو زوال کی طرف ڈھکیل دیا، نوٹ بندی کے 5سال کی برسی سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ نوٹ بندی نہ صرف نشانوں کوحاصل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی، بلکہ اس نے معیشت کو زمیں دوز کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور ساتھ ہی عام لوگوں کی زندگی اور ان کے مستقبل کو تاریک بنادیا،آخر ان سب کا ذمہ دار کون ہے؟ جس نے عوام سے جذباتی انداز میں لوگوں کو بلیک میل کرتے ہوئے کہا تھا کہ”بھائیو بہنو! مجھے صرف 50 دن چاہئے اگر ان پچاس دنوں میں یہ ہدف پورا نہ ہوا تو جس چوراہے پر آپ ہمیں جو سزا دینا چاہیں دے سکتے ہیں میں اس کے لئے تیار ہوں” کیا یہ کہنے والا ان چیزوں کا ذمہ دار نہیں ہے؟ کیا اب انھیں چوراہے پر سزادی جانی چاہئے؟
زرعی قوانین کی واپسی کی طرح کیا یہ تاناشاہ حکمراں ملک کی عوام سے معافی مانگیں گے اور اپنے فیصلے پر شرمندگی کا اظہار کریں گے؟اس میں کوئی شک نہیں کہ زرعی قوانین کی طرح اس حکومت کے سارے فیصلے عوام مخالف ہیں اور یہ حکومت عوام دشمن ہے جنھیں ہرگز اقتدار میں رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں، یہ جھوٹے اور مکار لوگ ہیں ایسے لوگوں کوجتنا جلد اقتدار سے باہر کردیا جائے ملک کے حق میں اتنا ہی بہتر ہوگا۔
نوٹ بندی کے 5سال پورے ہونے پر اپوزیشن لیڈران نے بھی حکومت پر حملہ بولا ہے، کانگریس کے سینئر لیڈر ملکارجن کھڑگے نے کہاکہ نریندر مودی نے نوٹ بندی کرکے ہندوستان کی معیشت کو برباد کردیا، جس کی وجہ سے چھوٹے کاروبار انتہائی متاثر ہوئے اور وہ بند ہوچکے ہیں اسی طرح بے روزگاری میں حددرجہ اضافہ ہوا، نوٹ بندی کے سبب جن لوگوں کی نوکری چلی گئی وہ ابھی تک نوکری سے محروم ہیں انھیں نوکری نہیں ملی ہے، نوٹ بندی ملک کے لوگوں کے لئے ایک کالا دن ہے، جس سے ملک کی بہتر معیشت کو چوپٹ کردیا گیا۔
کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے نوٹ بندی کے تعلق سے حکومت سے پانچ سوالات کے جواب مانگے ہیں، انھوں نے پوچھا کہ اگر نوٹ بندی کامیاب ہوئی تو کرپشن کیوں ختم نہیں ہوا؟ کالادھن واپس کیوں نہیں آیا؟ معیشت کیس لیس کیوں نہیں ہوئی؟ دہشت گردی پر چوٹ کیوں نہیں ہوئی؟ مہنگائی پر روک کیوں نہیں لگی؟
سوال یہ ہےکہ حکومت نے جن اغراض ومقاصد کے پیش نظر نوٹ بندی کی تھی اسکا ہدف کیوں حاصل نہیں ہوسکا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج بھی عام لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہورہے ہیں اور ملک کے باشندے اس کا جواب چاہتے ہیں، نوٹ بندی کا ایک اہم مقصد ملک کو کیاش لیس بنانا اور نقدی سے پاک لین دین کو فروغ دینا تھا، نقدی سے پاک لین دین میں انٹرنیٹ کا رول اہم ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ملک بھرکے تمام دیہی علاقوں تک انٹرنیٹ کی رسائی ہے؟اگر ہے بھی تو کیا وہاں نیٹ کی اسپیڈ بہتر ہے؟ اسکا بہتر جواب وہی لوگ دے سکتے ہیں،جنھیں دیہی علاقوں میں نیٹ استعمال کرنے کا کچھ تجربہ ہو، یہ بھی ایک حقیقت ہےکہ شہری علاقوں کے علاوہ ملک کی بعض ریاستوں کے دیہی علاقوں میں 40 فیصد سے کچھ زیادہ انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہے، جبکہ باقی ریاستوں میں صرف 10تا 20 فیصد گاؤں اور دیہات ایسے ہیں جہاں انٹرنیٹ استعمال کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ ملک کے کئی ریاستوں کے دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ صرف برائے نام ہی ہے،کیونکہ وہاں سنگنلس کا سنگین مسئلہ درپیش ہے،ایسے میں کیاش لیس بھارت یا ڈیجیٹل انڈیا کا خواب کیسے پورا ہوگا؟
یہ ہے اپنے بھارت کی سچائی اس سچائی کو نظرانداز کرکے مودی جی اپنی انا کی تسکین کے لئے عوام کو گمراہ کرنے کے بجائے زمینی سطح پر مخلص ہوکر ملک کےلئے کام کرے ورنہ یاد رکھئے کہ اقتدار ہمیشہ کسی کے باپ کی جاگیر نہیں، جو ہمیشہ کسی کے پاس رہے، یہ ہمیشہ کسی کے پاس نہیں رہتا۔
شاید راحت اندوری مرحوم نے یہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ
جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہونگے
کرایے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے