پولیس کا قیام اسی لئے عمل میں لایا گیا ہے کہ وہ عام لوگوں تک انصاف رسانی کو یقینی بنائے، سماج سے جرائم و حادثات کے خاتمہ کےلئے سنجیدہ اقدام کرے اور امن وامان قائم کرے، اپنے فرائض بغیر کسی جانب داری کے انجام دے،لیکن حالات و واقعات یہ بتاتے ہیں کہ اپنے ملک بھارت کی پولیس اب اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے ایک خاص طبقے کے خلاف کام کررہی ہے، شاید اسی وجہ سے کبھی کبھی عدالت میں انکے خلاف ریمارکس اورتبصرے بھی کئے جاتے ہیں۔
گذشتہ چند ہفتے قبل سپریم کورٹ نے یہ کہاتھا کہ” ملک میں تشویشناک رجحان بن گیا ہے کہ پولیس عہدے دار،حکمراں پارٹی کے طرفدار بنتے جارہے ہیں،یہ ایک ایسا ریمارک ہے جوملکی صورتحال کی سنگینی اورحقیقت کو ظاہر کرتا ہے، عدالت عظمیٰ کے اس تبصرے سے ملک کے عوام کی اکثریت کا اتفاق ہے، پورے ملک میں اکثر وبیشتر ایسے احوال پیش آرہے ہیں جن سے لگتا ہے کہ ہر ریاست میں مرکزی سطح پر حکومتوں کی جانب سے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے اور انھیں ہراساں کرنے کےلئے پولیس اورتحقیاتی ایجنسیوں کو استعمال کیاجارہا ہے،ان ایجنسیوں کے ساتھ پولیس فورس کے عہدے دار بھی برسراقتدار پارٹی کی کھٹ پتلی بن گئے ہیں،انکے اشاروں پر کام کرتے ہوئے حکومت کے پسندیدہ افراد میں شامل ہورہے ہیں،اسکے لئے وہ اپنے عہدوں، وقار اور غیر جانبداری کو بھی داؤ پر لگارہے ہیں،اس طرح کے رجحان کا ہی نتیجہ ہے کہ عوام میں پولیس اورتحقیقاتی ایجنسیوں پر سے اعتماد ختم ہوتا جارہا ہے۔ لوگ قانونی کارروائیوں پر شبہات کااظہار کرنے لگے ہیں،پولیس کا انداز اوران کے طور طریقے سے یہ واضح ہے کہ بھارت کی پولیس بھی مسلم دشمنی کی راہ پر گامزن ہے، حکومت تو مسلم مخالف ہے ہی لیکن اسکے ساتھ اب میڈیا اور محکمہ پولیس بھی اب اسی راہ کواختیار کرلیا ہے۔ عوام کو انصاف رسانی کی ذمہ داری اورفریضہ سے تغافل برتا جارہا ہے، حقیقی ملزمین اور خاطی کئی واقعات میں کھلے عام گھوم رہے ہیں،مہینوں گذرجانے کے بعد ان پر کوئی کاروائی نہیں ہوتی ہے،اسکے برخلاف جوبے گناہ اور معصوم ہیں انھیں مقدمات میں ماخوذ کرتے ہوئے سلاخوں کے پیچھے ڈالا جارہاہے،اس طرح ملک میں انصاف، انصاف رسانی کے تقاضوں کاقتل ہورہاہے،اسکے نتیجے میں ملک میں قانون کی بالادستی بھی مشکوک ہورہی ہے اورعوام کا بھروسہ بھی ختم ہورہاہے،آپ جانتے ہیں کہ اگر ملک میں یہ چیزیں عام ہوجائیں گی اور ملک کے اہم اداروں سے عوام کا اعتماد ختم یا مشکوک ہوجائے تو پھر ملک میں کیاہوگا؟ اگسٹ کے پہلے ہفتے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمنانے کہاتھاکہ”پولس کو اپنا رویہ ٹھیک کرناہوگا،اسکی شبیہ لوگوں میں اچھی نہیں ہے تھانہ (پولیس اسٹیشن) انسانی حقوق اورانسانی احترام کےلئے سب سے بڑا خطرہ ہے،لیگل سروسز اتھارٹی کے موبائل ایپ کے اجراء کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھاکہ” انسانی حقوق کی خلاف ورزی اورجسمانی تشدد کا سب سے زیادہ خطرہ تھانوں میں ہوتاہے،وہاں گرفتار یا حراست میں لئے گئے افراد کو مؤثر قانونی امداد نہیں مل پارہی ہے،جبکہ اسکی اشد ضرورت ہے،ملک بھر کے پولیس اسٹیشن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس رمنا نے کہا تھا کہ حراستی تشدد سمیت پولیس کے دیگر مظالم وہ مسائل ہیں جو اب بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں،آئینی التزامات اورضمانتوں کے باوجود گرفتار یا حراست میں لئے گئے افراد کومؤثرقانونی مدد نہیں مل پاتی ہے، جو ان کےلئے بہت نقصاندہ ثابت ہوتاہے۔ ان کا کہنا تھاکہ ملک کا پسماندہ طبقہ نظام عدل کے دائرے سے باہر ہے،اگر عدلیہ کو غریب اور پسماندہ طبقے کا اعتماد جیتنا ہے تو اسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ ان کےلئے آسانی سے دستیاب ہے،لوگوں کو قانونی مدد کے آئینی حق اور پولیس کے مظالم کو روکنے کےلئے مفت قانونی امداد کی فراہمی کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنے کےلئے وسیع تشہیر ضروری ہے،آئینی ضمانت کے بعد بھی پولیس اسٹیشن میں گرفتار لوگوں کے تئیں قانون کے صحیح استعمال کی کمی دکھائی دیتی ہے،جولوگ گرفتار کئے جاتےہیں یاحراست میں لئے جاتےہیں انکے تئیں قانون کی نمائندگی کی کمی نظرآتی ہے،جو انھیں نقصان پہونچاتی ہے،پولیس کے ظلم وزیادتی کو روکنے اور اس پر نظر رکھنے کےلئے لوگوں کو انکے آئینی حقوق اور مفت قانونی مددکے بارے میں معلومات فراہم کرنا بے حدضروری ہے،ملک گیر سطح پر پولیس کو حساس بنانے کےلئے کام کرنا ہوگا،انصاف کی فراہمی کےلئے کمزور طبقہ اور اثر و رسوخ رکھنے والے لوگوں کے درمیان کا فرق ختم کرنا ہوگا۔ انھوں نے مزید کہاکہ بہت سی رپورٹوں سے پتہ چلتاہے کہ خصوصی اختیار کے حامل لوگوں کو بھی نہیں بخشا جاتا، انھیں بھی ٹھرڈ ڈگری ٹریٹمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے”
یہ تو چیف جسٹس آف انڈیا کا بیان ہے،ایک دودن قبل ملک بھرکی جیلوں اورقیدیوں سے متعلق اعدادوشمار جاری کئے گئے ہیں، جسکی تفصیل کچھ یوں ہےکہ”
مرکزی حکومت کے ماتحت چلنے والے ادارے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی جانب سے بھارت کی جیلوں میں بند قیدیوں سے منسلک اعداد و شمار جاری ہوچکے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت کی جیلوں میں کس مذہب کے کتنے قیدی بند ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی جیلوں میں آبادی کے تناسب سے ہندو قیدی سب سے کم ہیں تو سکھ، عیسائی اور مسلمان قیدی سب سے زیادہ ہیں۔ اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ ہندوستان میں 10 لاکھ کی آبادی پر اوسطا 346 قیدی ہیں۔نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو نے اس بارے میں اعداد و شمار گذشتہ دنوں جاری کئے۔مگر دس لاکھ کی آبادی پر ہندو قیدیوں کی تعداد305، سکھ قیدیوں کی تعداد840 عیسائی قیدیوں کی تعداد601 اورمسلمان قیدیوں کا تناسب477 ہے۔زیرالتواء قیدی فی 10 لاکھ آبادی پرہندو 204 یعنی 70فیصد، مسلمان فی 10 لاکھ پر 346 یعنی 21فیصد، عیسائی فی 10 لاکھ آبادی پر 397 یعنی 4فیصد ہیں جب کہ سزا یافتہ قیدیوں میں ہندو 92فیصد، مسلمان 16فیصد،عیسائی 4فیصد اور سکھ 6 فیصد ہیں۔”
یہ ایک اخباری رپورٹ ہے، اس رپورٹ سے کم ازکم آپ نے یہ اندازہ تو کرلیا ہوگاکہ ملک بھر کی جیلیں سکھ، عیسائی اور مسلمانوں سے بھری پڑی ہیں، اور بے شمار مسلم نوجوانوں کی زندگیاں جیل میں برباد کی جارہی ہیں اب سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی زندگیاں برباد کرنے کا ذمہ دارکون ہے؟ اور یہ سب کس کے حکم پر ہورہاہے؟ ملک بھر میں کہیں بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے، فوری اسکا تعلق کسی مسلمان سے جوڑ دیا جاتاہے،اور پھر مسلم نوجوانوں کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کےلئے اپنی جوانی کے قیمتی لمحات صرف کرنے پڑتے ہیں، برسوں انھیں جیل میں زندگی گذارتے ہوئے انتظار کرنا پڑتا ہے اس درمیان اگر پولیس کوثبوت نہ مل سکا تو پھر اسکا انکاؤنٹر بھی کر دیا جاتا ہے اور پھر پولیس خودکشی کی فرضی اور من گھڑت کہانی گڑھ کر پیش کردیتی ہے، ملک کاقانون اس خاطی اورمجرم پولیس کو کوئی سزا سنانے سے عاجز رہتا ہے، کیونکہ دستور کے دفعہ 197 کے تحت اسے تحفظ حاصل ہے، بعض ریاستوں میں توحکومت کی جانب سے پولیس انکاؤنٹر کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے،2015 میں تلنگانہ کے آلیر انکاؤنٹر میں پانچ مسلم تعلیم یافتہ نوجوان کو کورٹ لاتے ہوئے راستے میں پولیس نے انکاؤنٹر کرکے بندوق انکے گلے میں ڈال دیا تھا،اس کے بعد تلنگانہ کے وزیراعلی کے سی آرنے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھاکہ اس معاملے کی تحقیقات رپورٹ کو منظر عام پر لائیں گے لیکن رپورٹ تو اب تک منظرِ عام پر نہیں آئی اور نہ ہی مظلوموں کو اب تک انصاف مل سکا البتہ اس کیس میں شامل کئی پولیس عہدے دار کو ترقی ضرور دے دی گئی، ملک کا مین اسٹریم میڈیا جس طرح سے گودی میڈیا، پالتو میڈیا اور زر خرید میڈیا کا کردار ادا کرتے ہوئے حکمراں پارٹی کے ساتھ پیس کا رول ادا کررہا ہے اور مودی حکومت کی جس طرح قصیدہ خوانی کررہا ہے اور اپنی صحافتی ذمہ داری سے جس طرح روگردانی کررہا ہے یہ تو افسوسناک ہے ہی، ایسے میں گنے چنے چند حق گو اورذمہ دار اخبارات،انصاف پسند صحافیوں کو ابھی اپنی ذمہ داری کا احساس ہے،یوپی کے ضلع کاس گنج میں گذشتہ دنوں ایک 22سالہ مسلم نوجوان الطاف کی پولیس حراست میں موت کو گودی میڈیا نے خودکشی قرار دیکر معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن چند حق گو صحافیوں نے اسکی جوحقیقت سامنے لائی اس نے پولس کے دعووں پر درجنوں سوالات کھڑے کردیئے، مرحوم الطاف کو ایک لڑکی کے غائب ہونے ،اسکی جانب سے اغواء کرنے یا بھگا لے جانے کے الزام میں پوچھ تاچھ کےلئے پولیس اسٹیشن طلب کیا گیا تھا، الطاف کے والد جو ایک غریب اورمزدور آدمی ہیں انھوں نے خود سے اپنے بیٹے کو پولیس کے حوالے کیا تھا، اس امید کے ساتھ کہ پوچھ تاچھ کے بعد پولیس اسے واپس بھیج دے گی،لیکن وہ گھر واپس نہیں لوٹا، دوسرے دن پولیس نے اسکی خودکشی کی اطلاع دی اور خودکشی کے بارے میں جو بناوٹی کہانی پیش کی اس پر یقین کرنا ممکن نہیں،پولیس کی کہانی میں باتھ روم کی جس پلاسٹک کی پائپ لائن اورٹونٹی سے لٹک کرخودکشی کرنے کا جواز پیش کیا گیا ہے، وہ زمین سے صرف دو ڈھائی فٹ کی اونچائی پر ہے،جبکہ الطاف کا قد تقریباً ساڑھے پانچ فٹ تھا،اب آپ اندازہ لگائیے کہ پولیس کی اس بناوٹی کہانی میں کتنا سچ ہے؟
سوشل میڈیا اوراخبارات میں پولیس کی اس فرضی کہانی پرہنگامہ آرائی کے بعد تھانہ انچارج اورڈیوٹی پر موجود پانچ دیگر پولیس والوں کو معطل کردیابگیا، جو یوپی پولیس عام طور پر ہمیشہ کرتی رہی ہے،کچھ عرصہ بعد معطل شدہ پولیس والوں کی بحالی ہوجاتی ہے اور انھیں کسی اورتھانے میں ٹرانسفر کردیا جاتا ہے، فروری، مارچ 2022 میں یوپی میں اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں،چیف منسٹر یوگی جی سینہ تان کر اپنی ریاست کی پولیس کارکردگی کی ستائش کرتے ہیں، وزیراعظم مودی نے بھی یوپی میں لاء اینڈ آرڈر کی بہترین صورتحال کی گذشتہ دنوں تعریف کی ہے،اب وہی بہتر جانتے ہیں کہ الطاف کے خودکشی کی جو کہانی ان کی پولیس نے بنائی ہے،کیا یہی یا اسطرح کی دیگر کارروائیاں ہیں جس کےلئے وہ اپنی پولیس کی ستائش کرتےہیں،اور یوں بھی الطاف کا کیس کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے جس میں تھانہ میں پولیس کی تھرڈ ڈگری سے ہونے والی موت کو خودکشی قراردیا گیا ہو،کچھ عرصہ قبل اسی اترپردیش کے اناؤ ضلع کے بانگر مئو میں کورونا لاک ڈاؤن کے دوران ترکاری کی بنڈی لگانے کے الزام میں 18سالہ مسلم نوجوان فیصل کوتھانے لےگئی تھی اور بعد میں اسکے گھر والوں کو فیصل کی لاش ملی تھی،جسکے بعد دو پولیس اہلکار سسپینڈ کردیئے گئے تھے۔
سوال یہ ہے کہ صرف اتنا کردینے سے مظلوموں کوانصاف مل جائے گا؟آخر پولیس کی ذمہ داری کیوں طے نہیں کی جاتی؟ کیوں ایسے خاطی پولیس کے خلاف عدالت میں مقدمہ قائم نہیں کیاجاتا ؟اورانھیں جیل نہیں بھیجا جاتا؟کیا صرف معطل کردینے سے لوگوں کوانصاف مل جائے گا؟ اورپولیس کی شبیہ بہتر ہوجائے گی؟ پولیس زیر حراست اموات کے اعداد وشمار تشویشناک ہیں،نیشنل کمیشن برائے حقوقِ انسانی کے مطابق سال 19-2018 کے دوران پولیس تحویل میں 12اموات جبکہ اسی دوران عدالتی حراست میں 452افراد کی موت واقع ہوئی تھی،اسی طرح 20-2019 میں پولیس حراست کےدوران 3اورعدالتی تحویل میں 400 سے زائد افراد، فوت ہوئے، اسی طرح 21-2020 میں پولیس حراست میں8 اورعدالتی تحویل میں 443 افراد کی موت ہوئی،
اور اس معاملے میں یعنی پولیس کسٹڈی میں ہوئی اموات کے معاملے میں یوپی پولیس سرفہرست ہے،تین سال کے دوران یوپی پولیس کی زیر حراست 1318لوگوں کی موت واقع ہوئی،یوپی کے یہ اعداد وشمار پورے ملک میں ہونے والی اموات کا 23فیصد ہیں،جبکہ پورے ملک میں کل5569 افراد کی موت دوران حراست ہوئی،پارلیمنٹ میں ایک سوال کے جواب میں مرکزی وزیرداخلہ نے بتایاکہ گذشتہ تین سالوں(2018 سے 2021) کے دوران
پولیس حراست میں 348 افراد کی موت ہوئی ہے،جبکہ 1189معاملات پولیس ٹارچرکے ہیں، ملک میں ٹارچر کے خلاف کام کرنے والی ایک اہم نیشنل کیمپین اگینسٹ ٹارچر (این سی اے ٹی) کی ٹارچر پر سالانہ رپورٹ کے مطابق 2020 میں یعنی ایک سال میں 111 افراد دوران حراست اموات ہوئی،
اوپر یوپی پولیس کی کارکردگی کوآپ نے ملاحظہ کیا،اس کارکردگی پر چیف منسٹر،مسٹر یوگی اپنی ریاست کی پولیس کو شاباشی دیتے ہیں اورپیٹھ تھپتھپاتے ہیں،اس سے آپ سمجھ سکتےہیں کہ دستور میں دیئے گئے بنیادی حقوقِ انسانی کا کس طرح مذاق اڑایا جارہا ہے؟
دستور ہند کا آرٹیکل 21 تمام شہریوں کوزندگی کا حق دیتاہے،جس کا مطلب ہے کہ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دستور و قانون کا نظام قائم کرے،جہاں کسی بھی شہری کی زندگی کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو،نیز ہرشہری انسانی اقدار و احترام کے ساتھ زندگی گذارنے کا حق رکھتا ہو، یہ حق بنیادی حق یاانسانی حقوق کا سب سے اہم حق تسلیم کیا جاتا ہے، کچھ دنوں قبل سپریم کورٹ آف انڈیا نے سنیل بترا بنام دہلی انتظامیہ کے کیس میں ایک تاریخی فیصلہ تحریر کرتے ہوئے لکھا تھاکہ”قیدی بھی انسان ہیں اورحراست کے دوران انکے بنیادی حقوق ختم نہیں کئے جاسکتے”بی بی سی نے کئی سال قبل پولیس کے ظلم وزیادتی پر مبنی ایک رپورٹ شائع کی تھی ذرا آپ بھی یہ رپورٹ پڑھئے اور دیکھئے یہ رپورٹ کیا کہتی ہے؟
"انڈیا، پولیس تحویل میں ٹارچر عام ہے،بھارت اس وقت ایک عالمی طاقت کے روپ میں سر ابھارنے کی کوشش میں ہے اور معاشی ترقی میں بھی اس کے گن گائے جا رہے ہیں لیکن انسانی حقوق کے سلسلے میں اس کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے اور ٹارچر یعنی پولیس حراست میں ایذا رسانی کے حوالے سے اس کا نام سب سے اوپر مانا جاتا ہے ،ٹارچر کے خلاف کام کرنے والے ایک ادارے ساؤتھ ایشین ہیومن رائٹس ڈاکومینٹشن کے ڈائریکٹر روی نائر کہتے ہیں کہ بھارتی سماج میں پولیس کی ایذارسانی کو برا نہیں مانا جاتا ہے۔’چاہے کوئی پاکٹ مار ہو یا بڑا مجرم تشدد عام بات ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ‘ایک بار تشدد کا ایک معاملہ ہم ایک سابق وزیر اعظم کے پاس لےگئے تاکہ ان کی مدد لی جا سکے لیکن جب میں نے ان سے مدد کی بات کہی تو ان کا جواب تھا کہ پولیس کسٹڈی میں آؤ بھگت تو ہوتی نہیں اور نا ہی پوجا کی جاتی ہے وہاں تو مجرموں کو ایذائیں ہی دی جاتی ہیں۔ ذرا سوچیے اگر ٹارچر کے متعلق کسی ملک کے وزیراعظم کا یہ تصور ہو تو پھر اس میں کمی آئیگی یا بڑھاوا ملےگا؟ انسانی حقوق کے کارکن گوتم نو لکھا پولیس حراست میں ٹارچر کی وجہ بتاتے ہیں کہ ‘بھارت میں ٹارچر کوئی نئی بات نہیں لیکن پچھلے کچھ برسوں میں دہشت گردی کے نام پر اس میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ پہلے یہ سکھوں کے خلاف زیادہ ہوتا تھا اور پھر کشمیر میں جہاں کم سے کم ساٹھ ہزار افراد کو ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ آج کل دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کو خاص طور پر اور ماؤنوازوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے،بھارت میں دہشت گردی کے نام پر حالیہ برسوں میں پولیس اور سکیورٹی ایجنسیز نے سینکڑوں بے قصور مسلم نوجوانوں کو حراست میں لیا اور پھر تفتیش کے نام پر ان کے ساتھ جو سلوک ہوا اس پر کئی حلقوں کی طرف سے سخت نکتہ چینی ہوئی۔
ریاست آندھر پردیش کی حکومت نے خود یہ بات تسلیم کی ہے کہ پولیس نے ایسے بہت سے افراد پر تشدد کیا ہے۔ انہیں میں سے ایک شخص عبدالواجد اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ‘گوکل چاٹ اور لمبنی پارک میں دھماکہ کے دوسرے روز مجھے پولیس نے اس وقت پکڑا جب میں کام پر جا رہا تھا۔ مجھ پر برقعہ ڈال دیا اور پتہ نہیں کہاں لے گئے۔ میرے سارے کپڑے اتار دیے، شروع میں مجھے اتنا مارا کہ میری چیخ بھی نکلنی بند ہوگئی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ قبول دے کہ تونے ہی دھماکے کیے ہیں۔ پھر کہنے لگے کہ یہ ایسے نہیں مانےگا۔ اس کے بعد انہوں نے میرے نازک مقامات پر بجلی کے جھٹکے دیے اور یہ حال کر دیا کہ جھٹکوں کے گہرے نشان اب تک موجود ہیں۔ وہ مجھے الٹا لٹکا دیتے تھے اور آنکھوں اور کان کے پاس چنگاری مارتے تھے۔ مجھے پیشاب کی جگہ خون آ رہا تھا اور جب بہت تکلیف ہوئی تو میں نے انہیں بتایا کہ خون کر رہا ہوں تو پولیس نے مجھ سے کہا کہ یہ تو کچھ بھی نہیں آخر میں تمہارا انکاؤنٹر کردیا جائیگا۔ میں نے بڑی منت سماجت کی کہ میرے والد نہیں اور میں تنہا گھر میں کمانے والا ہوں لیکن کسی نے نہیں سنا اور آٹھ روز تک میرے ساتھ یہی سلوک ہوتا رہا۔
چند ماہ بعد پولیس نے عبد الواجد کو بے قصور بتاکر چھوڑ دیا تھا اور اب وہ پھر سے اپنی روزی روٹی کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے وکیل کولن گونزلوز کے مطابق کوئی بھی شخص اگر سکیورٹی فورسز کے ہاتھ لگ گیا تو پھر وہ کوئی بھی ہو ان کی کسٹڈی میں وہ اذیتوں سے بچ نہیں سکتا۔’میں آپ کو بتاتا ہوں کہ منی پور میں ایک سیشن جج نے ایک ناگا لڑکے کو ضمانت دیدی تھی۔ اس علاقے کے بریگیڈئر نے اس جج کو اٹھایا اور اسے آسام رائفل کے کمپاؤنڈ لے جاکر اس کی شرمگاہ میں الیکٹرک شاکز دیے۔ تو اگر فوج سٹنگ جج کے ساتھ یہ سلوک کر سکتی ہے تو عام آدمی کے ساتھ تو وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں،
سپریم کورٹ کی معروف وکیل ورندا گرور کہتی ہیں کہ حکومتی ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں جرائم بڑھ رہے ہیں اور پولیس کو اس پر قابو پانے کے لیے پوری چھوٹ ملنی چاہیے اس لیے ان کے اس رویے پر انگلی تک نہیں اٹھائی جاتی۔’ہمارے یہاں تفتیش اور پولیس کارروائی کا مطلب مار پٹائی اوربےجا تشدد ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اس کے خلاف کچھ بھی نہیں ہوتا۔ امریکہ نے ابو غریب میں جو کچھ کیا اسے پوری دنیا جان گئی لیکن بھارت میں تو یہ ہر روز ہورہا ہے۔
روی نائر کے مطابق پولیس کا کام تفتیش ہوتا ہے لیکن اسے اس کے لیے تربیت نہیں دی جاتی اس لیے بھی پولیس ایسی حرکتیں کرتی ہیں۔’ فورنسک تفتیش کے لیے پولیس کی تربیت کا انتظام نہیں ہے۔ انہیں صرف یہ آتا ہے کہ کیسے وہ زیادہ سے زیادہ ایذائیں دیں تا کہ پتہ نا چلنے پائے۔
بھارت میں انسانی حقوق کے کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق سال دوہزار چار پانچ میں 1493 افراد ٹارچر کے سبب ہلاک ہوئے جن میں سے ایک سو چھتیس پولیس کسٹڈی میں اور تیرہ سو ستاون عدالتی تحویل میں مرے۔ یعنی ہر روز کم سے کم تین لوگ پولیس کی ذیادتی کے سبب ہلاک ہوئے جبکہ نشانہ کتنے بنے اس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔ لیکن اس بارے میں پولیس کے خلاف کارروائی براے نام ہی ہوئی ہے،
غیر سرکاری تنظیموں کے اعداد و شمار کے مطابق حالیہ برسوں میں پولیس تحویل میں ایذارسانی کے واقعات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ سماجی کار کن گوتم نو لکھا کہتے ہیں۔’ایسا لگتا ہے کہ قومی سلامتی کے نام پر سکیورٹی ایجنسیز کو کچھ بھی کرنے کی چھوٹ حاصل ہے۔ اگر لوگ مر بھی جائیں تو کسی کو کوئی پرواہ نہیں، آپ عدالت، حکومت، پولیس اور انتظامیہ کو عرضیاں دیتے رہیے کچھ بھی نہیں ہوتا ہے،
ایذا رسانی کا عمل پولیس کے لاک اپ میں تو عام بات ہے لیکن بعض حساس علاقے جیسے کشمیر، آسام اور منی پور میں اس کا رواج کچھ زیادہ ہی ہے اور ماہرین کے مطابق پولیس اس میں بھی جانب داری سے کام لیتی ہے اور خاص برداریوں کو ہی نشانہ بنایاجاتا ہے۔
سپریم کورٹ کے وکیل کولن گونزالوز کہتے ہیں۔’پولیس میں عام طور پر مسلمانوں کو دہشتگرد مانا جاتا ہے اور جب بھی کچھ ہو وہی پکڑے جاتے ہیں۔ اس کے خلاف کوئی آواز بھی نہیں اٹھاتا کیونکہ پھر پولیس اس کی فیلمی کو نشانہ بناتی ہے۔
چنانچہ دھماکہ چاہے مسجد میں ہو یا پھر مندر میں سب سے پہلے شبہ میں آتے ہیں مسلم نوجوان۔ مکہ مسجد میں دھماکے کے بعد بی ٹیک کے ایک طالب علم عمران کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ خود بتاتے ہیں، مسجد میں دھماکے کے چند روز بعد پولیس نے مجھے اٹھا لیا تب سے آج تک میں پولیس کا ستایا ہوا ہوں۔ ان کی حراست میں ہاں بولوں یا نہ بس وہ مارتے تھے۔ مجھے ایسی ایسی جگہ شاٹس دیے تھے کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا، میرے عضو تناسل میں پانی کی بوتل لٹکا دیتے تھے جس سے مجھے بہت تکلیف ہوتی تھی۔ رات رات بھر سونے نہیں دیتے تھے بس یوں سمجھو کہ مجھے بالکل پاگل کردیا تھا۔ وہ بولتے کہ مسجد میں بلاسٹ میں کیا تھا اور جب میں کہتا کہ نہیں تو بس تشدد اورمار پٹائی شروع، آخر میں انہوں نے میرا نارکو انالیسیس ٹیسٹ کیا۔
عمران کا کہنا تھا کہ پولیس کے بقول انہوں نے دس برس پاکستان میں ٹریننگ لی تھی، میری عمر بائیس سال ہے اور ساری اسکولنگ بھی حیدرآباد میں ہوئی تو پھر کیا میں پیدا ہوتے ہی پاکستان چلا گیا تھا،
گوتم نو لکھا کے مطابق اس طرح کا امتیازی سلوک کئی بار عدالتوں کے رویے میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ‘مالیگاؤں دھماکے کے ملزمین جنہیں ہندو تنظیموں کی حمایت حاصل ہے وہ جب عدالت میں پیش ہوتے ہیں تو جج ان سے ٹارچر کے بارے صرف پوچھتا ہی نہیں بلکہ خود معائنہ بھی کرتا ہے لیکن اس کے برعکس ممبئی کے ایک کیس میں ایک ملزم نے جج سے استدعا کی کہ اسے ٹارچر کیا گیا ہے لیکن جج نے نظرانداز کر دیا،عالمی قوانین کے تحت پولیس حراست میں اذیتیں دینا جرم ہے اور دنیا بھر میں اس کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کیے گئے ہیں۔ بھارت نے بھی سنہ انیس سو ستانوے میں ٹارچر اور غیر انسانی سلوک سے متعلق اقوام متحدہ کے ایک کنوینشن پر دستحط کیے تھے لیکن گیارہ برس گزرجانے کے بعد بھی حکومت نے اس کی توثیق نہیں کی ہے اور اب اطلاعات کے مطابق وہ ایک ایسا قانون لانا چاہتی ہے جس کے تحت ٹارچر کرنے والے کو سزا دی جا سکے۔
قانونی ماہرین کے مطابق ہندوستان میں پولیس اور سرکاری ملازمین کو دفعہ 197 کے تحت خصوصی رعایات حاصل ہیں اس لیے صرف قانون بنانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ ورندہ گرور کے مطابق قانون کے ساتھ ساتھ دفعہ 197 کو ہٹانے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ کے معروف وکیل کولن گونزالوز کے مطابق ٹارچر کو ختم کرنے کے لیے پولیس کو جواب دہ بنانا ضروری ہے تبھی تبدیلی ممکن ہے۔
دفعہ 197 ختم کی جائے۔ اور جو پولیس ٹارچر میں ملوث پایا جائے اسے فورا برخاست کیا جائے اور مقدمہ چلاکر جیل بھیجا جائے۔ اگر ایسا قانون بنے تو تبدیلی ممکن ہے”
بی بی سی کی یہ رپورٹ سات آٹھ سال قبل کی ہے یعنی مودی حکومت سے پہلے کی ہے لیکن مودی حکومت آنے کے بعد سے پولیس کی جانب سے ظلم وزیادتی،تشدد اور پولیس تحویل میں اموات کی تعداد کئی گناہ بڑھ چکی ہے،دہلی، یوپی،کشمیر،آسام، اور تری پورہ سمیت کئی ریاستوں میں پولیس کی من مانی اورغنڈہ گردی جاری ہے،بھارت کے مسلمانوں کو پولیس اپنا دشمن سمجھنے لگی ہے، صحیح بات یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے مسلسل محکمہ پولیس، مسلمانوں کوٹارگیٹ کررہا ہے، ایسے میں سوال یہ ہے کہ آخر پولیس نظام کی اصلاح اور اسکی جواب دہی طے کرنے کےلئے ملک کی آزادی کے بعد سے ابتک کوئی اقدامات کیوں نہیں کئے گئے؟ بھارت آزاد تو ہوگیا لیکن انگریز حکومت کا دیا گیا تحفظ دفعہ 197 آج تک پولیس افسران کو حاصل ہے یہ ختم ہونا چاہئیے اور پولیس کی جواب دہی طے ہونی چاہئے،آج سے پندرہ اٹھارہ سال قبل جب ہم لوگ ملک کے ایک اہم ادارے میں زیر تعلیم تھے اور ہماری تعلیم کا آخری سال تھا،حدیث کی ایک اہم کتاب کا درس ہورہاتھا،دوران درس علامات قیامت والی ایک طویل حدیث آگئی، جس میں ہے کہ قیامت کے قریب پولیس والوں کی کثرت ہوگی، اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے ہمارے محترم استاذ نے جو تقریباً ہرسال معلم الحجاج کی حیثیت سےحج کوجاتے ہیں، حج کے دوران کا ایک واقعہ سنایاکہ حج کے موقع پر دنیا بھر کے مختلف ممالک کےحجاج سے ملاقات ہوتی ہے اور حال احوال سے واقفیت بھی ہوتی ہے، تفصیلی تبادلہ خیال بھی ہوتابہے،بایک بار ایک مسلم ملک کے ایک حاجی سے ملاقات ہوگئی، خیرخیریت کے بعد ہم نے انکے مشغلے کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے”نحن کلاب ھذہ الامة” یعنی ہم اس امت کے کتے ہیں، پھر انھوں نے بتایا کہ ہم لوگ محکمہ پولیس سے وابستہ ہیں”
یہ تو ایک واقعہ ہے،لیکن صحیح بات یہ ہے کہ پولیس کی حیثیت اس سے زیادہ عوام کے درمیان اور کچھ نہیں ہوتی، اب پولیس کو یہ سمجھنا ہوگا کہ انکی اسطرح کی شبیہ کیونکر بنی اسکی وجوہات کیاہیں؟ اور کیا وہ اس پر سنجیدگی سے غور وفکر کرنے اور اپنے روپے میں تبدیلی لانےکےلئے تیارہیں؟پولیس کی جواب دہی طے کرنے کےلئے پارلیمنٹ کو قانون بنانا چاہئے تاکہ پولیس انصاف کی تکمیل کےلئے کام کرے جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔