ریاست مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں تسلیم نامی ایک چوڑی بیچنے والے کو ایک ہندو علاقے میں چوڑیاں بیچنے کے الزام میں ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اس کی چوڑیاں برباد کی گئیں اور اس کے پاس موجود رقم بھی چھین لی گئی تھی علاوہ ازیں اس کو گرفتار بھی کیا گیا تھا، اگست سے اب تک بھی جیل میں بند ہے۔
ان کے وکیل احتشام نے کہا کہ وہ تسلیم کی ضمانت کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع ہوں گے۔ "وہ بے قصور ہے اور کچھ لوگوں کی نفرت کا شکار بن گیا تھا۔
جیل میں بند شرجیل امام کے بھائی، جے این یو کے اسکالر اور سی اے اے مخالف کارکن مزمل امام نے شرجیل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جیلوں میں ہزاروں بے گناہ مسلمان بغیر کسی وجہ کے قید ہیں اور وہ انصاف کے منتظر ہیں، جیلوں میں بند یہ لوگ معاشی طور پر انتہائی کمزور ہیں اور ان کے لیے آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔
شرجیل امام کے بھائی مزمل امام نے کہا کہ "شرجیل، عمر، خالد سیفی، وغیرہ خوش قسمت ہیں کیونکہ وہ CAA مخالف مظاہروں میں لوگوں کے سامنے آئے ہیں۔”
اندور کی ایک عدالت نے 2 ستمبر کو ہجومی تشدد کا شکار چوڑیاں بیچنے والے تسلیم کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی جس پر اس کے مذہب کی وجہ سے ایک گروپ نے حملہ کیا تھا۔
حملہ کے مبینہ واقعے کے 24 گھنٹوں کے اندر چوڑیاں بیچنے والے تسلیم کے خلاف دیگر جرائم کے علاوہ ایک 13 سالہ لڑکی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کا جھوٹے الزام میں بھی مقدمہ درج کیا گیا۔
واضح رہے کہ ملک بھر میں ایسے بے شمار نوجوان ہیں جنہیں ہجومی تشدد کا شکار بنایا گیا اور اس کے بعد انہی کے خلاف کسی نہ کسی بہانے سے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ایسے درجنوں بے قصور مسلم نوجوان جیلوں میں بند ہیں۔