یہ حقیقت ہے کہ انبیاءو صالحین سے منسوب چیزیں بڑی با برکت اور فیض رساں ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار کو بطورِ تبرک محفوظ رکھنا اور ان سے برکت حاصل کرنا حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا معمول تھا۔
آج بھی اہلِ محبت ان تبرکاتِ مقدسہ کو حصولِ فیض و برکت کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور ان کی حرمت کے تحفظ کے لئے جان کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔کتبِ احادیث و سیر کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دعا کروانے کے علاوہ اور بھی بہت سی صورتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے برکت حاصل کرتے تھے، مثلاً وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک کا اپنے اوپر مسح کرواتے خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر کو تبرکا ً مس کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو سے بچے ہوئے پانی سے تبرک حاصل کرتے جس پانی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دست اقدس دھوتے اس دھوون سے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچے ہوئے کھانے سے تبرک حاصل کرتے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک اور لعابِ دہن مبارک سے تبرک حاصل کرتے، وہ موئے مبارک جو حجامت کے وقت اترتے، نیچے نہ گرنے دیتے تھے، مزید برآں ناخن مبارک سے، لباس مبارکِ سے، عصاءمبارک سے، انگوٹھی مبارک سے، بستر مبارک سے، چارپائی مبارک سے، چٹائی مبارک سے،
الغرض ہر اس چیز سے تبرک حاصل کرتے جس کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اقدس سے کچھ نہ کچھ نسبت ہوتی حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ کرام اور تابعین عظام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور سے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منبر مبارک سے بھی تبرک حاصل کیا بلکہ جن مکانوں اور رہائش گاہوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سکونت اختیار فرمائی، جن جگہوں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازیں ادا فرمائیں اور جن راستوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزرے ان کی گرد و غبار تک کو انہوں نے موجبِ برکت جانا۔
یہاں تک کہ صحابہ و تابعین کے ادوار کے بعد نسلاً بعد نسلاً ہر زمانے میں اکابر ائمہ و مشائخ اور علماءو محدثین کے علاوہ خلفاءو سلاطین حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار و تبرکات کو بڑے ادب و احترام سے محفوظ رکھتے چلے آئے ہیں اور خاص مواقع پر بڑے اہتمام کے ساتھ مسلمانوں کو ان تبرکات کی زیارت کروائی جاتی تھی۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے پاس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیرِاستعمال متعدد چیزیں بطور تبرک موجود تھیں۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ان چیزوں سے حصولِ برکت کے لئے جس جذبہ عقیدت و محبت کا اظہار اپنی زندگیوں میں کیا اس حوالے سے چند روایات درج ذیل ہیں۔
1۔ ہاتھ اور پاؤں مبارک سے حصولِ برکت دستِ اقدس کی برکتیں
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھ ہزاروں باطنی اور روحانی فیوض و برکات کے حامل تھے۔ جس کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھ سے مَس کیا اس کی حالت ہی بدل گئی۔ وہ ہاتھ کسی بیمار کو لگا تو نہ صرف یہ کہ وہ تندرست و شفایاب ہوگیا بلکہ اس خیر وبرکت کی تاثیر تادمِ آخر وہ اپنے قلب و روح میں محسوس کرتا رہا۔ کسی کے سینے کو یہ ہاتھ لگا تو اسے علم و حکمت کے خزانوں سے مالا مال کر دیا۔ بکری کے خشک تھنوں میں اس دستِ اقدس کی برکت اتری تو وہ عمر بھر دودھ دیتی رہی۔ توشہ دان میں موجود گنتی کی چند کھجوروں کو ان ہاتھوں نے مَس کیا تو اس سے سالوں تک منوں کے حساب سے کھانے والوں نے کھجوریں کھائیں مگر پھر بھی اس ذخیرہ میں کمی نہ آئی۔ بقول اعلیٰ حضرت رحمة اللّٰہ علیہ :
ہاتھ جس سمت اٹھایا غنی کر دیا
ان ہاتھوں کی فیض رسانی سے تہی دست بے نوا گدا، دوجہاں کی نعمتوں سے مالا مال ہوگئے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اپنی زندگیوں میں بارہا ان مبارک ہاتھوں کی خیر و برکت کا مشاہدہ کیا۔ وہ خود بھی ا±ن سے فیض حاصل کرتے رہے اور دوسروں کو بھی فیض یاب کرتے رہے، اس حوالے سے متعدد روایات مروی ہیں :
(1) دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ دوسروں کو فیض یاب کرتے رہے:۔ حضرت ذیال بن عبید رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ ان کے والد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کے حق میں دعائے خیر کے لئے عرض کیا :”آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بیٹا! میرے پاس آو¿، حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب آ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک ان کے سر پر رکھا اور فرمایا، اللہ تعالیٰ تجھے برکت عطا فرمائے۔“
(2) دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے حضرت ابو زید انصاری رضی اللہ عنہ کے بال عمر بھر سیاہ رہنا :۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو زید انصاری رضی اللہ عنہ کے سر اور داڑھی پر اپنا دستِ اقدس پھیرا تو اس کی برکت سے 100 سال سے زائد عمر پانے کے باوجود ان کے سر اور داڑھی کا ایک بال بھی سفید نہ ہوا۔ اس آپ بیتی کے وہ خود راوی ہیں :”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ میرے قریب ہو جاؤ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سر اور داڑھی پر اپنا دستِ مبارک پھیرا اور دعا کی : الٰہی! اسے زینت بخش اور ان کے حسن و جمال کو گندم گوں کر دے۔
راوی کہتے ہیں کہ انہوں نے 100 سال سے زیادہ عمر پائی، لیکن ان کے سر اور داڑھی کے بال سفید نہیں ہوئے، سیاہ رہے، ان کا چہرہ صاف اور روشن رہا اور تادم آخر ایک ذرہ بھر شکن بھی چہرہ پر نمودار نہ ہوئی۔“
(3) دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے خشک تھنوں میں دودھ اتر آنا۔سفرِ ہجرت کے دوران جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ ام معبد رضی اللّٰہ عنہا کے ہاں پہنچے اور ان سے کھانے کے لئے گوشت یا کچھ کھجوریں خریدنا چاہیں تو ان کے پاس یہ دونوں چیزیں نہ تھیں۔ حضور ں کی نگاہ ان کے خیمے میں کھڑی ایک کمزور دبلی سوکھی ہوئی بکری پر پڑی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا یہ بکری یہاں کیوں ہے؟
حضرت امِ معبدنے جواب دیا : لاغر اور کمزور ہونے کی وجہ سے یہ ریوڑ سے پیچھے رہ گئی ہے اور یہ چل پھر بھی نہیں سکتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : کیا یہ دودھ دیتی ہے؟ انہوں نے عرض کیا : نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر اجازت ہو تو دودھ دوہ لوں؟ عرض کیا : دودھ تو یہ دیتی نہیں، اگر آپ دوہ سکتے ہیں تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دوھا، آگے روایت کے الفاظ اس طرح ہیں
”آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے منگوا کر بسم اللہ کہہ کر اس کے تھنوں پر اپنا دستِ مبارک پھیرا اور ام معبد کے لئے ان کی بکریوں میں برکت کی دعا دی۔ اس بکری نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اپنی دونوں ٹانگیں پھیلا دیں، کثرت سے دودھ دیا اور تابع فرمان ہو گئی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا برتن طلب فرمایا جو سب لوگوں کو سیراب کر دے اور اس میں دودھ دوہ کر بھر دیا، یہاں تک کہ اس میں جھاگ آگئی۔ پھر امِ معبد رضی اللّٰہ عنہا کو پلایا، وہ سیر ہوگئیں تو اپنے ساتھیوں کو پلایا یہاں تک کہ سب سیر ہو گئے۔ سب کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوش فرمایا، پھر دوسری بار دودھ دوہا۔ یہاں تک کہ وہی برتن پھر بھر دیا اور اسے بطورِ نشان امِ معبد رضی اللّٰہ عنہا کے پاس چھوڑا اور اسے اِسلام میں بیعت کیا، پھر سب وہاں سے چل دیئے۔“تھوڑی دیر بعد حضرت امِ معبد رضی اللّٰہ عنہا کا خاوند آیا، اس نے دودھ دیکھا تو حیران ہوکر کہنے لگا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟ حضرت امِ معبد رضی اللّٰہ عنہا نے جواباً آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ شریف اور سارا واقعہ بیان کیا، جس کا ذکر ہم متعلقہ مقام پر کر آئے ہیں۔ وہ بولا وہی تو قریش کے سردار ہیں جن کا چرچا ہو رہا ہے۔ میں نے بھی قصد کرلیا ہے کہ ان کی صحبت میں رہوں چنانچہ وہ دونوں میاں بیوی مدینہ منورہ پہنچ کر مسلمان ہوگئے۔
حضرت امِ معبد رضی اللّٰہ عنہا قسم کھا کر بیان کرتی ہیں کہ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حیاتِ مبارکہ کے دس برس گزارے، پھر اڑھائی سالہ خلافتِ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دور گزرا اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا۔ ان کے دورِ خلافت کے اواخر میں شدید قحط پڑا، یہاں تک کہ جانوروں کے لئے گھاس پھوس کا ایک تنکا بھی میسر نہ آتا۔ وہ فرماتی ہیں کہ خدا کی قسم! آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کے لمس کی برکت سے میری بکری اس قحط سالی کے زمانے میں بھی صبح و شام اسی طرح دودھ دیتی رہی۔