مسجد کے معنی لغت میں سجدہ گاہ کے ہیں، اور اسلام کی اصطلاح میں مسجد اس جگہ کا نام ہے جو مسلمانوں کی نماز کے لئے وقف کردی جائے، ملَّا علی قاری رحمہ اللہ ”شرحِ مشکوٰة“ میں لکھتے ہیں: ترجمہ:…”مسجد لغت میں سجدہ گاہ کا نام ہے، اور شریعتِ اسلام کی اصطلاح میں وہ مخصوص جگہ جو نماز کے لئے وقف کردی جائے۔“
مسجد مسلمانوں کی عبادت گاہ کا نام ہے:۔مسجد کا لفظ مسلمانوں کی عبادت گاہ کے ساتھ مخصوص ہے، چنانچہ قرآنِ کریم میں مشہور مذاہب کی عبادت گاہوں کا ذکر کرتے ہوئے ”مسجد“ کو مسلمانوں کی عبادت گاہ قرار دیا ہے:
”ولو لا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدّمت صوٰمع وبِیَع وصلوٰت ومسٰجد یذکر فیھا اسم اللہ کثیرا۔“ (سورۃ الحج) ترجمہ:…”اور اگر اللہ تعالیٰ ایک دوسرے کے ذریعہ لوگوں کا زور نہ توڑتا تو راہبوں کے خلوت خانے، عیسائیوں کے گرجے، یہودیوں کے معبد اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے، گرادی جاتیں۔“
اس آیت کے تحت مفسرین نے لکھا ہے کہ ”صوٰمع“ سے راہبوں کے خلوت خانے، ”بِیَع“ سے نصاری کے گرجے، ”صلوٰت“ سے یہودیوں کے عبادت خانے، اور ”مسٰجد“ سے مسلمانوں کی عبادت گاہیں مراد ہیں۔
امام ابوعبداللہ محمد بن احمد القرطبی رحمہ اللہ (المتوفی ۱۷۶ھ) اپنی مشہور تفسیر ”اَحکام القرآن“ میں لکھتے ہیں: ترجمہ:…”امام خصیفؒ فرماتے ہیں کہ ان ناموں کے ذکر کرنے سے مقصود قوموں کی عبادت گاہوں کی تقسیم ہے، چنانچہ ”صوامع“ راہبوں کی، ”بیع“ عیسائیوں کی، ”صلوات“ یہودیوں کی، اور ”مساجد“ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کا نام ہے۔“اور قاضی ثناءاللہ پانی پتی رحمہ اللہ (المتوفی ۵۲۲۱ھ) ”تفسیر مظہری“ میں ان چاروں ناموں کی مندرجہ بالا تشریح ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ترجمہ:… ”آیت کے معنی یہ ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کا زور نہ توڑتا تو ہر نبی کی شریعت میں جو ان کی عبادت گاہ تھی اسے گرادیا جاتا، چنانچہ موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں کنیسے، عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں گرجے اور خلوت خانے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجدیں گرادی جاتیں۔“
قرآنِ کریم کی اس آیت اور حضراتِ مفسرین کی ان تصریحات سے واضح ہے کہ ”مسجد“ مسلمانوں کی عبادت گاہ کا نام ہے، اور یہ نام دیگر اقوام و مذاہب کی عبادت گاہوں سے ممتاز رکھنے کے لئے تجویز کیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ابتدائے اسلام سے لے کر آج تک یہ مقدس نام مسلمانوں کی عبادت گاہ کے علاوہ کسی غیرمسلم فرقے کی عبادت گاہ کے لئے استعمال نہیں کیا گیا، لہٰذا مسلمانوں کا یہ قانونی و اخلاقی فرض ہے کہ وہ کسی ”غیرمسلم فرقے“ کو اپنی عبادت گاہ کا یہ نام نہ رکھنے دیں۔
مسجد اسلام کا شعار ہے:۔جو چیز کسی قوم کے ساتھ مخصوص ہو وہ اس کا شعار اور اس کے تشخص کی خاص علامت سمجھی جاتی ہے، چنانچہ مسجد بھی اسلام کا خصوصی شعار ہے، یعنی کسی قریہ، شہر یا محلہ میں مسجد کا ہونا وہاں کے باشندوں کے مسلمان ہونے کی علامت ہے۔
امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ (المتوفی ۴۷۱۱ھ) لکھتے ہیں:ترجمہ:…”مسجد بنانے، اس میں حاضر ہونے اور وہاں بیٹھ کر نماز کا انتظار کرنے کی فضیلت کا سبب یہ ہے کہ مسجد اسلام کا شعار ہے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ”جب کسی آبادی میں مسجد دیکھو یا وہاں موذّن کی اذان سنو تو کسی کو قتل نہ کرو۔“ (یعنی کسی بستی میں مسجد اور اذان کا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ وہاں کے باشندے مسلمان ہیں)، اور مسجد نماز کی جگہ اور عبادت گزاروں کے اعتکاف کا مقام ہے، وہاں رحمتِ الٰہی کا نزول ہوتا ہے اور وہ ایک طرح سے کعبہ کے مشابہ ہے۔“
مساجد کے احکام:۔
جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ”میرے لئے ساری زمین کو مسجد اور مٹی کو پاک کرنے والی بنایاگیا ہے لہٰذا جہاں کہیں بھی نماز کا وقت آئے ادا کرلو“ (بخاری: التیمم: ۳۳۵، مسلم: ۵۲۱)
یہ اللہ تعالیٰ کا اس امت پر خاص انعام ہے، اس امت سے قبل کسی بھی امت کو یہ سہولت حاصل نہیں تھی کہ نماز کا وقت آنے پر وہ جس جگہ بھی چاہیں نماز ادا کرلیں سوائے ان جگہوں کے جہاں منع کیاگیا ہے یعنی قبرستان، حمام او راونٹوں کا باڑہ۔
مسجد کی فضیلت:۔
حضرت عثمانؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جو شخص مسجد بنائے اور اس کا مقصود اللہ کی رضا مندی ہو، اللہ اس کے لئے بہشت میں گھر بناتا ہے“۔ (بخاری شریف)
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اللہ کو مسجدیں بہت زیادہ محبوب ہیں۔ او ربازار انتہائی ناپسند ہیں“۔ (مسلم شریف)
مطلب یہ ہے کہ مسجدیں دنیا کی تمام جگہوں سے اللہ کو زیادہ محبوب او رپیاری ہیں کیونکہ ان میں اللہ کی عبادتی ہوتی ہے او ربازار تمام جگہوں سے اللہ کے نزدیک نہایت ناپسندیدہ ہیں کیونکہ وہاں ’حرص‘ طمع، جھوٹ، مکر اور لین دین میں فریب وغیرہ کا دور دورہ ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ کسی دینی یا دنیوی ضرورت کے بغیر بازار میں کبھی نہ جائیں اور مسجدوں سے بہت محبت کریں۔
مسجد میں گفتگو کرنا:۔ حضرت جابربن سمرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم اکثر رسول اللہﷺ کی مجالس میں بیٹھا کرتے تھے، آپ صبح کی نماز پڑھنے کے بعد سورج کے نکلنے تک مسجد میں بیٹھتے، جب سورج طلوع ہوتا تو آپ (جانے کے لئے) کھڑے ہوتے، ہم (مسجد میں) زمانہ جاہلیت کے معاملات کا ذکر کرتے (گفتگو کے دوران) ہم ہنستے بھی تھے او رمسکراتے بھی۔ (مسلم شریف )
مسجد جانے کی فضیلت:۔
حضرت ابو امامہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اپنے گھر سے باوضو ہوکر فرض نماز ادا کرنے کے لئے مسجد کے لئے نکلتا ہے پس اس کو حج کا احرام باندھنے والے کی مانند ثواب ملتا ہے“ (ابوداﺅد)یادرہے کہ جن پر بیت اللہ کا حج فرض ہوچکا ہو، جب تک وہ وہاں جاکر حج نہ کریں ان سے فرضیت ساقط نہ ہوگی خواہ ساری عمر باوضو ہوکر پانچوں نمازیں مسجد میں جاکر پڑھتے رہیں، اس لئے اللہ کی بخشش او راجروثواب کی فراوانی سے کسی قسم کی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا ثواب اپنے گھریا بازار میں تنہا نماز پڑھنے سے (کم از کم) پچیس درجے زیادہ ہے۔ پس جب وہ اچھی طرح وضو کرکے مسجد جائے تو اس کے ہر قدم سے اس کا درجہ بلند ہوتا ہے اور گناہ معاف ہوتے ہیں۔ جب وہ نماز پڑھتا ہے تو فرشتے اس کے لئے اس وقت تک دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ نماز کی جگہ پر بیٹھا رہتا ہے۔ فرشتے کہتے ہیں ”اللہم صل علیہ‘’ ”اے اللہ! اس پر اپنی رحمت اتار۔ اے اللہ اس کی توبہ قبول کر“۔ جب تک وہ کسی کو ایذا نہیں دیتا یا وہ حدث نہیں کرتا فرشتے اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں۔ جب تک نمازی نماز کا انتظار کرتا ہے وہ نماز ہی میں ہوتا۔
مساجد میں خوشبو:۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حکم دیا: ”محلوں میں مسجدیں بناﺅ۔ (یعنی جہاں نیا محلہ آباد ہو وہاں مسجد بھی بناﺅ) اور انہیں پاک صاف رکھو، اور خوشبو لگاﺅ“ (ابو داود)
مسجد کے نمازیوں کے لئے خوشخبری:۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اندھیروں میں (نماز کے لئے) مسجد کی طرف چل کر آنے والوں کو قیامت کے دن پورے نور کی خوشخبری سنادو“۔ (ابن ماجہ)
قبرستان اور حمام میں نماز کی ممانعت:۔ حضرت ابوسعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’تمام روئے زمین مسجد ہے (یعنی سب جگہ نماز جائز ہے) سوائے قبرستان او رحمام کے‘’ (ابوداو¿د )مسجد کے معنی ہیں سجدے کی جگہ، نماز کی جگہ۔ جب قبرستان میں سجدہ اور نماز منع ہوئی تو نماز اور سجدہ کے لئے مسجد (سجدہ کی جگہ) بنانا بھی منع ہوئی۔
مسجد میں داخل ہوتے وقت اور نکلتے وقت کی دعا:۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم مسجد میں داخل ہوتو یہ پڑھو: (اللہم افتح لی ابواب رحمتک) ”اے اللہ میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے“۔
شریعت مطہرہ میں مساجد کا مقام ومرتبہ لوگوں کی دنیا وآخرت کی نفع رسانی او رفلاح وبہبود ہے مساجد میں تقاریر وبیانات اور درس یا جلسہ رمضان المبارک میں شب قدر وغیرہ میں بلند آواز کے ساتھ پوری رات نظمیں، نعتیں، تقریریں، چندے کی اپیلیں یہ سب مذہب اسلام میں پسندیدہ نہیں ہے اہل محلہ جن میں بیمار لوگ بھی ہوتے ہیں شور شرابے سے ان کی تکلیف ہوتی ہے برادران وطن کا خیال رکھنا بھی محاسن اسلام میں سے ہے جن لوگوں کو سنانا مقصود ہے ان کے ذہن ودماغ میں اسلام کی محبت پیدا کی جائے اور ان کو مساجد میں لایاجائے تاکہ یکسوئی کے ساتھ وعظ ونصیحت سے نفع حاصل کرسکیں مساجد کی دیواروں پر اشتہار لگانا بھی درست نہیں۔
مساجد کے قریب لہو ولعب کی مجلسیں کرنا سخت گناہ ہے بیاہ شادیوں میں مسجد کے پڑوسی ان چیزوں کی احتیاط نہیں کرتے اور ڈھول تاشے ڈی جے کا استعمال آزادانہ طور پر کرتے ہیں جو انتہائی غیر مہذب ہے اور سخت نافرمانی ہے۔ مسجد کو گذرگاہ بنانا آداب مسجد کے خلاف اور گناہ ہے مساجد میں فوٹو اور ویڈیو سیلفی سے قطعاً پرہیز کرنا چاہئے مساجد کی بے حرمتی موجب وبال ہے۔ وہ تمام امور جو مسجد کے آداب کے خلاف ہوں ناجائز ہیں مسجد اللہ تعالیٰ کا شاہی دربار ہے اس میں زور زور سے چلاّنا ہنسی مذاق کرنا ناپاکی کی حالت میں داخل ہونا میلے کپڑے گندے جسم کے ساتھ مسجد میں حاضری دینا لڑائی جھگڑا کرنا چغلی وغیبت الزام تراشی کینہ کپٹ چھوٹ دھوکہ کے کام کرنا بدبودار چیزوں کا استعمال کرکے مسجد میں جانا جوتے چوری ہوجانے پر دوسرے کے جوتے چپل لے جانا یہ سب امو رانسان کو ہلاکت کی طرف لے جانے والے ہیں خدائے برتر سے توبہ واستغفار کرنے کی توفیق طلب کرے کہ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو مساجد کی محبت واحترام کی سعادت سے نوازیں۔