اسلام دین حق وصداقت ہے، جس نے عقیدۂ توحید ورسالت کے انوار سے کائنات کو روشن ومنور کیا اور ہر قسم کی باطل رسومات اور مشرکانہ توهمات کا خا تمہ کیا۔ جاہلیت کی فرسودہ رسومات ومشرکانہ توہمات میں یہ بات بھی تھی کہ لوگ ما صفر کو منحوس سمجھتے تھے اور اس سے بدشگونی لیتے تھے۔
اس دور میں لوگوں کا یقین تھا کہ اس ماہ کی آمد کی وجہ سے وہ مصیبتوں اور بلاؤں میں گھر جاتے ہیں ،اور معیشت تباہ و برباد ہوجاتی ہے، وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اس ماہ کے سبب وہ بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اور یہ نظریہ رکھتے تھے کہ اس ماہ میں نحوست ہوتی ہے ،کوئی بڑا کام یا کسی نئی مہم کا آغاز اس ماہ میں نہیں کرنا چاہیے۔ اس طرح کے باطل عقیدوں کو وہ اپنے دل میں جگہ دیتے تھے۔
اسلام نے ان تمام باطل تصورات کو ختم کردیا، ایمان وعقیدہ کی نعمت لازوال کے ذریعہ یہ درس دیا کہ مصائب و آلام کا تعلق کسی ماہ وسال سے نہیں ہے بلکہ وہ نیکوکاروں کے لئے اللہ تعالی کی جانب سے امتحان و آزمائش اور گنہگار کے حق میں اس کی بدعملیوں کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: وما أصابكم من مصيبة فبما كسبت أيديكم ويعفو عن كثير. (سورة الشورى) ترجمہ: اور جو مصیبت بھی تمہیں پہنچتی ہے (اس بدعملی) کے سب پہنچتی ہے جوتمہارے ہاتھوں نے کمائی ہے، حالانکہ وہ (اللہ تعالیٰ) بہت سی (نافرمانیوں) کو درگز کردیتا ہے۔
زمانہ جاہلیت میں لوگ پرندہ کو اڑا کر فال لیا کرتے تھے، اگر پرندہ سیدھی جانب پرواز کرتا تو فالِ نیک لیا کرتے اور اگر راست اوپر یا نیچے کی جانب اڑتا تو یہ سمجھتے تھے کہ ہم جو ارادہ رکھتے ہیں وہ ہوگا تو ضرور لیکن اس میں تاخیر ہوگی اوراگر پرندہ بائیں جانب پرواز کر گیا تو وہ اس سے بدشگونی لیتے کہ ہمارا کام نہیں بن پائے گا۔’’عقاب” پرندہ کو دیکھ لیتے تو فکرمند ہو جاتے اور برے انجام سے اس کا شگون لیتے کیونکہ اس کے معنی ’’عذاب‘‘ کے ہیں۔
اگر "غراب‘‘یعنی کوّے کو دیکھتے تو اس سے تکالیف سفر اور غربت واجنبیت کا فال لیتے اور "ہدہد” پرندہ کو دیکھتے تو ہدایت و درست روی سے اسے تعبیر کرتے۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کے عقائد باطلہ کی تردید فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا لا عـدوى ولا طيرة ولا ھامة ولا صفر…..کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی، بدشگونی جائز نہیں، الّو اور صفر کے مہینہ میں کوئی نحوست نہیں (صـحـيـح البـخـاری )
خیر و شر اور تقدیرالہی
حقیقت میں خیر و بھلائی عطا کر نے والا اللہ تعالی ہی ہے ، چین وسکون بخشنے کا اسی کو اختیار ہے اور ہر طرح کی کامیابی عطا کر نے والا وہی پرودگار ہے، وہی راحت بخشتا ہے، وہی رحمت کی بارش برساتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے بندوں کو آزمایا کرتا ہے، کبھی نعمتوں سے سرفراز کر کے آزماتا ہے، کبھی مشقت و تکالیف کے ذریعہ آزماتا ہے کہ کونسا بندہ اپنے مولا کے فضل وکرم پراسکی بارگاہ میں رجوع ہوتا ہے اور کون دوری اختیار کرلیتا ہے، پروردگار عالم یہ واضح کرتا ہے کہ بندہ اس کی نعمتوں پرشکر گزاری کر نے لگتا ہے یا اس کی بارگاہ سے کنار کشی اختیار کر جاتا ہے، آزمائش پر صبر کرتا ہے یا مایوس ہوکر راہ حق سے دوری اختیار کر جاتا ہے،کتاب وسنت کے روشن راستوں پرگامزن رہتا ہے یا نافرمانی کی اندھیریوں میں بھٹک جاتا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے: وإذا أنعمنا على الإنسان أعرض ونأى بجانبه وإذا مسه الشر كان يئوسا قل كل يعمل علی شاکلته فربكم أعلم بمن هو أهدى سبيلا. ترجمہ: اور جب ہم انسان پر انعام فرماتے ہیں تو وہ روگردانی کرتا ہے اور کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے، اور جب اسے مصیبت پہنچتی ہے تو وہ مایوس ہوجاتا ہے۔ اے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ فرمادیجئے: ہر کوئی اپنی فطرت کے مطابق کام کر رہا ہے تو تمہارا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے کہ کون زیادہ سیدھی راہ پر ہے۔ (سورة بنى اسرائيل)
ہر مسلمان کا یہی عقیدہ ہے کہ اچھی اور بری تقدیر اللہ تعالی ہی کی طرف سے ہوتی ہے اور نعمت کی عطا اسی کی جانب سے ہے، مصیبت کا آنا بھی اسی کی مشیت سے ہے برگ و بار، باغ و بہار اسی کی جانب سے ہے اور طوفان وقحط سالی بھی اسی کی طرف سے ہے، جان ومال کی حفاظت بھی اسی کی طرف سے ہے اور جان پر آنے والی مصیبت اور مال کی ہلاکت بھی اسی کے حکم سے ہے۔
الغرض ہر طرح سے وہ اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے، جب خدائے تعالی اور اس کے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ایمان ہے تو پھر آزمائش اور امتحان ضرور ہوا کرتا ہے۔