اللہ تعالی نے انسان کو اپنی عبادت وطاعت کے لئے پیدا فرمایا اور تخلیقِ انسانی کا یہی اصل مقصد ہے ۔ چونکہ اللہ تعالی نے انسان کی فطرت میں بھلائی ‘ برائی ‘ نیکی بدی دونوں ہی چیزیں پیدا فرمائی ہے ۔ اسی لئے اگر انسان راہ راست سے بھٹک جائے تو اس کی رشد وہدایت کے لئے انبیاءعلیھم السلام کے مبارک سلسلہ کو شروع فرمایا اور یہ مبارک سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور حضور نبی کریم ﷺ پر ختم ہوا ۔ چونکہ آپ ﷺ کے بعد قیامت تک کے لئے کوئی نبی آنے والا نہیں ہے ۔ اس لئے آپ ﷺ پر اللہ تعالی نے ایک جامع کتاب قرآن مجید نازل فرمائی ۔ جس میں امت کی رہنمائی کے لئے تمام چیزیں بیان کردی گئیں ہیں ۔ ساتھ ہی اللہ تعالی نے حضور ﷺ کی امت میں رشد وہدایت کے مبارک عمل کو امت کے صالحین کے سپرد فرمایا جنہیں اصطلاح شریعت میں اولیاءکرام کہا جاتا ہے ۔
اللہ پاک نے اپنے کلامِ پاک میں اپنے مقبول بندوں کا ذکر متعدد مقامات پر فرمایا ہے۔ کہیں ان کو اولیا اللہ فرمایا، کہیں صادقون، کہیں مقربون، تو کہیں سابقون اور کہیں ابرار وغیرہ کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ سورہ یونس میں ارشاد ربانی ہے ترجمہ: یاد رکھو! جو لوگ اللہ کے دوست ہیں نہ انہیں کوئی ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے (یہ وہ لوگ ہیں) جو ایمان لائے اور (معاصی سے) پرہیز کرتے رہے ان کے لئے دینا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی خوشخبری ہے (یہ اللہ کا وعدہ ہے) اور اللہ کی باتوں میں کچھ فرق نہیں ہوا کرتا یہ بڑی کامیابی ہے۔
حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایابے شک اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے برگزیدہ بندے ہیں جونہ انبیاءکرام علہیم الرضوان ہیں نہ شہداء،قیامت کے دن انبیاءکرام علہیم السلام اور شہداء انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ مقام کو دیکھ کر ان پر رشک کریں گے صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیایارسول اللہ ﷺ !آپ ہمیں ان کے بارے میں بتائیں کہ وہ کون ہیں ؟آپﷺ نے فرمایاوہ ایسے لوگ ہیں جن کی ایک دوسرے سے محبت صرف اللہ پاک کی خاطرہوتی ہے نہ کہ رشتہ داری اور مال دین کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی قسم ! ان کے چہرے نورہوں گے اوروہ نور(کے منبروں)پرہوں گے ،انہیں کوئی خوف نہیں ہوگاجب لوگ خوف زدہ ہوں گے۔
انہیں کوئی غم نہیں ہوگاجب لوگ غم زدہ ہوں گے۔ پھرآپ ﷺ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی۔خبرداربے شک اولیاءاللہ پرنہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ وغمگین ہوں گے۔ (ابوداود)
کتاب و سنت کے عرف میں۔ولی۔ اس شخض کو کہتے ہیں جس میں ایک خاص اور ممتاز درجہ کا ایمان اور تقویٰ پایا جاتا ہو۔ وہ یہ کہ اللہ کی عظمت اور اس کا جلال ہر وقت اس کی نظروں کے سامنے ہو اور اس کا قرب اللہ کی محبت اور اس کی خشیت سے لبریز ہو۔اللہ پاک کا ولی وہ ہے جو نور ایمانی اور نور تقویٰ سے منور ہو۔ یعنی قوت نظریہ اور قوت عملیہ کے لحاظ سے کامل اور مکمل ہو یا باالفاظ دیگر ولی وہ ہے جو ایمان میں کامل ہو اور حتی الوسع حق عبودیت میں مقصر نہ ہو۔ ( معارف القرآن )
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ہمیں اولیاءاللہ کی معیت اور صحبت اختیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا (اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں، اس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں، تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں ان سے نہ ہٹیں۔ کیا تو (ان فقیروں سے دِھیان ہٹا کر) دنیوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے؟ اور تو اس شخص کی اِطاعت بھی نہ کر جس کے دِل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دِیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے اور اس کا حال حد سے گزر گیا ہےo
اِس اِرشادِ ربانی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے امتِ مسلمہ کے عام افراد کو یہ حکم دِیا جارہا ہے کہ وہ ان اولیاءاللہ کی معیت اور صحبت اِختیار کریں اور ان کی حلقہ بگوشی میں دِلجمعی کے ساتھ بیٹھے رہا کریں، جو صبح و شام اللہ کے ذِکر میں سرمست رہتے ہیں اور جن کی ہر گھڑی یادِالٰہی میں بسر ہوتی ہے۔ انہیں اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے کسی اور چیز کی طلب نہیں ہوتی، وہ ہر وقت اللہ کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں۔ یہ بندگانِ خدا مست صرف اپنے مولا کی آرزو رکھتے ہیں اور اسی کی آرزو میں جیتے ہیں
اور اپنی جان جاں آفریں کے حوالے کردیتے ہیں۔ اللہ کے ولیوں کی یہ شان ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ہونا چاہتے ہیں انہیں چاہئیے کہ سب سے پہلے وہ ان اولیاء اللہ کی صحبت اِختیار کریں۔ چونکہ وہ خود اللہ کے قریب ہیں اور اِس لئے اللہ تعالیٰ نے عامة المسلمین کو ان کے ساتھ جڑ جانے کا حکم فرمایا ہے۔ اہل اللہ نبی اکرم ﷺ کی شریعت اور آپ ﷺ کی احادیث کی روشنی میں عام انسانوں کو نیکی وپرہیزگاری کی جانب متوجہ کرتے ہیں ان کی زندگیوں میں انقلاب لانے کا سبب بنتے ہیں شاید انہی بزرگوں کی صحبتوں سے انسانوں میں صالح جذبات ‘پاکیزہ اعمال ‘نفس کا تزکیہ اور روح میں تجلیات کاپیدا ہونا ممکن ہے انہی اولیاءاللہ نے عوام وخواص سبھی کو شرک وبدعت اور مختلف اقسام کی گمراہی سے بچانے نیز عبد ومعبود کے ربط وتعلق کونہ صرف استوار کرنے کی سعی کی بلکہ اسے مستحکم ومضبوط بنایا تاکہ وہ خدائے برتروبزرگ کی عبادت اوراس کے قرب کی دولت سے مالا مال ہوں
اولیاءاللہ نے شریعت محمدی ﷺ کی نورانی روشنی میں اسی کام کو اپنی زندگیوں کا حاصل سمجھا اور متقی ومنتخب بندگان حق ہر دور ‘ ہر زمانہ میں حق کے متلاشیوں کےلئے خضرِ وقت کا کام انجام دیتے رہے ‘عصرحاضر میں اللہ والوں کی یہ دعوت یاد الہی اور عشق رسولﷺ کے جذبوں کو تازہ کرتی ہے ان ہی اولیاءاللہ میں سے دکن کی ایک معروف ومشہور ہستی قطب دکن شہیداسلام حضرت علامہ العصر حاجی وحافظ سید عبداللہ شاہ قادری شہید قدس سرہ العزیز قطب الہند مبلغ اسلام وبانی اشاعت علوم شرعیہ طریقہ وجامعہ شجاعیہ وحفاظ فیوض عرفانیہ برسرزمین دکن شیخ الشیوخ حافظ سیدنا شجاع الدین حسین قادری قدس سرة العزیز کے خلف صاحبزادے تھے۔
بارہویں صدی ہجری میں سرزمین برہان پور میں ولادت باسعادت عمل میں آئی۔ ایک جلیل القدرقابل فخر دین وملت قطب وابدال کامل کے صاحبزادے ہونے کے شرف میں اپنے آباواجداد کے جامع و الصفات وکمالات وفیوض کے سرچشمہ تھے۔اپنے بزرگوار کے آغوش میں زبردست تعلیم وتربیت حاصل کی کم عمری میں ہی علم وفضل وروحانیت وتقویٰ میں بلند مرتبہ پر فائز ہوئے۔ جس طرح سے مخلوق خدا کی اصلاح وہدایت کا عظیم الشان منصب جلیلہ آپ کے والد بزرگورار واجداد کے لیے قدرت نے مختص کیا اس کے تمام تراثرات آپ میں بچپن ہی سے نمایاں نظرآتے تھے۔لیکن صاحبزادے میں جلالی صفات زیادہ نمایاں تھیں۔
اپنے والدبزرگوار حضرت قطب الہندؒ کی طرح ایک جید عالم فاضل‘ متشرع طریقت حقیقت ومعرفت کے علمبردار جیدحافظ وقاری ‘قطبیت ولایت کے حامل جامع الکمال‘ مقبول ومنظورنظر خداوندی ورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بزرگ تھے۔جلال کا یہ عالم تھا جس سرکش پر نظرفرماتے ہیبت ولایت سے مطیع ہوجاتا۔برسوں ریاضت ومجاہدہ میں بسرہوئے۔اپنے والد بزرگوار کی اتباع میں حج وزیارت پاپیادہ متعددمرتبہ سفر کیا۔
بیشتر حصہ عالم تجدید ‘درس وتدریس اور فتاوے‘دعوت وارشاد جس طرح والد بزرگوارکا ایک مقدس مشن تھا جس میں قطب الہندؒ نے ہزاروں عیسائی واہل ہنود کو مشرف بہ اسلام کیا، ہزاروں مسلمانوں کے ایمانی تجدید اور عقائد کی اصلاح کی لاکھوں شاگریں ومریدین پیدا ہوئے جو اکثر مشاہر اسلام کی فہرست میں شمار ہوئے ہیں کئی جماعتیں دیگر ممالک میں اسلام واشاعت شرعیہ وطریقہ کے پھیلانے کے لیے روانہ کی جاتی تو اکثر اپنے صاحبزادے کی سرکردگی میں بھیجی جاتی تھیں۔
ایک مرتبہ جب شہید اسلام علیہ الرحمہ ایک مشن پر روانہ ہوئے دوران سفر میں مہاراشٹرا کے مقام پر 2بجے شب ایک معرکہ پیش آیا اور وہاں پر ہی حضرت سید عبداللہ شہید ؒ کی شہادت ہوئی، اسی شب والد بزرگوار حضرت قطب الہندؒ جامع مسجد شجاعیہ چار مینارکے صحن مسجد میں اضطراب کے عالم میں یہ کہتے ہوئے ٹہل رہے ہیں کہ عبداللہ ‘اللہ کو پیارا ہوگیا، تمام مریدین آپ ؒ کی اس کیفیت کو دیکھ کر فرط غم میں روپڑے اور بادشاہ وقت ناصرالدولہ بہادر کو یہ خبرملتے ہی فوری شہسوار روانہ کیے، چوتھے روز اطلاع عام ہوئی اور حضرت قطب الہندؒ کی اضطراب والی کیفیت کی تصدیق ہوئی اور ایک تہلکہ مچ گیا،شہر اور بیرون شہر سے لوگ جوق درجوق جمع ہونے لگے اور اکثر اکابرین کا اسرارتھا کہ نعش مبارک کو حیدرآباد لایاجائے چونکہ حضرت شہیدالاسلام کو وہاں پر ہی دوسرے روز دفن کردیا گیا تھا۔ اس لیے حضرت قطب الہندؒ نے مانع شریعت کی بناء پر قبر سے نعش کو نکالنے سے منع کرتے رہے جب مسلسل اصرار بڑھتا گیا تو آپ نے ان اکابرین سے اقرار کروایا کہ اگر وہ روز قیامت اس کی ذمہ داری شریعت کے مانع ہونے کے باوجود لیتے ہیں تو میں مانع نہیں ہوں، فرط عقیدت کی بناءپر لوگوں نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے نعش مبارک لانے کے لیے روانہ ہوگئے۔ اس دوران میں ایک ماہ کا عرصہ گزر گیا تھا جب ایک گروہ قبر کشادہ کیا تو دیکھتے ہیں کہ نعش مبارک اور کفن تازہ اور پاک وصاف ہے اور خوشبو کی مہک سے سارا علاقہ معطر ہوگیا۔
نعش مبارک حیدرآباد لائی گئی اور لاکھوں کا اژدھام تھا اور مکہ مسجد میں نماز جنازہ والد بزرگوار حضرت قطب الہندؒ نے پڑھائی۔ جب دیدار کی نوبت آئی توحضرت ایستادہ رہ کر چادر ہٹانے کا حکم فرمائے ،جیسے ہی چادر الٹانا تھا کہ نعش مبارک کے دونوں پیر قریب سمٹ گئے قطب الہندؒ فوری فرمایا کے چادر ڈھانک دو اور جتنے بھی لوگ جنازہ کے قریب تھے یہ منظر دیکھے چکے ان سب کو تاکید کی کہ اس واقعہ کو کسی اور سے نہیں کہنا۔
حقیقت بات یہ تھی کہ والد بزرگوار پیروں کے پاس کھڑے تھے سوئے ادبی کی بناءپر صاحبزادے نے پیر قریب کرلیا۔ یہ واقعہ قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ کا بین ثبوت وتصدیق ہے کہ ”وَلاَ تَقُولُوالِمَن یُقتَلُ فِی سَبِیلِ اللّہِ اِموَات بَل اَحیَاء وَلَکِن لاّتَشعُرُونَO“۔ ترجمہ: تاکیداً ارشاد باریٰ ہیکہ ”مت کہو ان نیک بندوں کو مردہ جو ہماری راہ میں قتل (شہید) ہوئے بلکہ وہ زندہ جاوید ہیں، لیکن تم لوگوں کو اس بات کا شعورو بصارت نہیں ہے جو تم ان کو دیکھ سکو“۔
حضرت شہیدالاسلامؒ ایک زبردست ولی کامل اور باکمال وکرامات کے حامل بزرگ تھے۔ آپ کی مفصل سوانح حیات مستند تواریخ میں موجودہیں۔آپ کے دو صاحبزادے حضرت شیخ الاسلام سلطان العارفین علامہ حافظ سید دائم قادری ؒ و حضرت علامہ حافظ سید محمد قائم قادری ؒ ہیں۔
حضرت علامہ دائم صاحب پوتے حضرت قطب الہندؒ وجانشین اول خانوادے شجاعیہ عالیہ حضرت قطب الہند ؒ کی آغوش میں ہی تعلیم وتربیت پائے ‘علم وفضل اور تقویٰ وبزرگی میں زبردست مرتبہ پر فائز ہوئے اور مقام ولایت کو پہنچے۔آپ کے بڑے صاحبزادے زیدة السالکین بحرالعلوم حضرت علامہ حافظ سید عبداللہ شاہ ثانی وجانشین ثانی خانوادے شجاعیہ عالیہ ابتدائی عمرسے ہی غیرمعمولی خرقہ عادات وکرامات سے بحرور تھے، سینکڑوں بندگان خدا کو مشرف بہ اسلام اور آپ کے فیوض سے مستفیض فرمائے، آپ کے اکلوتے صاحبزادے وجانشین ثالث شمس الاسلام علامہ حضرت سید یٰسین شاہ صاحب قادری ؒجو زبردست عالم فاضل اپنے وقت کے باکمال بزرگ تھے۔
بادشاہ وقت میرمحبوب علی خان بہادرآصف جاہ کے استاد اور تمام روساء اور امرائے پائیگاہ آپ سے بڑی عقیدت رکھتے تھے، اپنے ہمعصر بزرگان دین میں بڑی قدرمنزلت و عظمت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے، آپ کے بڑے صاحبزادے وجانشین خاص مجاہد اسلام افضل المشائخ وپیر طریقت حضرت مولانا سید شاہ غلام صمدانی صاحب قادری ؒ جو ایک ہمہ گیر اوصاف کے حامل بزرگ تھے جن کا وصال 20 رمضان المبارک کو ہوا۔ اور آپ کے صاحبزادے وجانشین حضرت علامہ قاری سید شاہ شجاع الدین قادری ثانی ؒ جو ایک سنجیدہ عالم دین منبع فیض رساں علوم دینی ودنیوی کے ماہر ممتاز واعظ وخطیب خداداد صلاحیتوں وکمالات کے حامل اپنے بزرگان سلسلہ کے کاربند سینکڑوں بندگان خدا کو فیوض جود وسخا سے فیض یاب کراتے رہے، اور حضرت شجاع الدین ثانی ؒ کے منجھلے صاحبزادے مولانا سید ابراہیم پاشاہ قادری موجودہ سجادہ نشین بارگاہ حضرت عبداللہ شاہ شہید ؒ ہیں ۔انشاءاللہ اس خانوادے کے فیوض وبرکات تاقیامت جاری وساری رہیں گے۔حضرت شہید الاسلامؒ کے نام سے مشہور ومعروف آرامگاہ و مسجد واقع برہنہ شاہؒ روڈ عیدی بازار میں مرجع خاص وعام ہے۔اور ہرسال 24 محرم الحرام کو حضرت کا عرس شریف عقیدت واحترام کے ساتھ منعقد ہوتا ہے۔