شہادت ایک عظیم رتبہ اور بہت بڑا مقام ہے جو قسمت والوں کو ملتا ہے اور وہی خوش قسمت اسے پاتے ہیں جن کے مقدر میں ہمیشہ کی کامیابی لکھی ہوتی ہے شہادت کا مقام نبوت کے مقام سے تیسرے درجے پر ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے : ترجمہ ” تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالی نے انعام فرمایا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں “ ۔٭
ایک صحیح حدیث میں بھی آیا ہے کہ انبیاءعلیہم السلام شہداءسے صرف درجہ نبوت کی وجہ سے افضل ہیں۔ ممکن ہے یہ حدیث کچھ مخصوص شہداءکے بارے میں ہو جبکہ آیت کریمہ میں عام شہداء کا مقام بیان کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔
اللہ تعالی کے راستے میں قتل ہونے والوں کو شہید کیوں کہتے ہیں ؟ اس بارے میں کئی اقوال ہیں۔
( 1 ) کیونکہ اس کے لیے جنت کی شہادت ( یعنی گواہی ] دے دی گئی ہے [ کہ وہ یقیناً جنتی ہے ]
( 2 ) کیونکہ ان کی روحیں جنت میں شاہد [ یعنی حاضر ] رہتی ہیں کیونکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں جبکہ دوسرے لوگوں کی روحیں قیامت کے دن جنت میں حاضر ہوں گی نضر بن شمیل فرماتے ہیں کہ شہید بمعنی شاہد ہے اور شاہد کا مطلب جنت میں حاضر رہنے والا۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں یہی قول صحیح ہے۔ ( التذکرہ للقرطبی )
( 3 ) ابن فارس کہتے ہیں الشہید بمعنی القتل یعنی اللہ کے راستے میں قتل کیا جانے والا۔
( 4 ) کیونکہ فرشتے اس کے پاس حاضر ہوتے ہیں۔
( 5 ) جب اللہ تعالی نے جنت کے بدلے اس کی جان کو خرید لیا اور اس پر لازم کیا کہ وہ اس عہد کو پورا کرے تو شہید نے جان دے کر گواہی دے دی کہ اس نے یہ عہد پورا کردیا ہے اور اس کی گواہی اللہ کی گواہی کے ساتھ مل گئی اللہ کے حضور اپنی جان پر گواہی [ شہادت ] کی وجہ سے اسے شہید کہا جاتا ہے۔
( 6 ) ابن انبار رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی اور فرشتے اس کے لیے جنت کی شہادت [ یعنی گواہی ] دیتے ہیں اسی لیے اسے شہید کہا جاتا ہے۔
( 7 ) اس کی روح نکلتے وقت اس کا اجر اور مقام اس کے سامنے حاضر ہو جاتا ہے اس وجہ سے اسے شہید کہتے ہیں۔
( 8 ) کیونکہ رحمت والے فرشتے اس کی روح لینے کے لیے شاہد [ یعنی حاضر] ہوتے ہیں۔
( 9 ) اس کے پاس ایک شاہد [ گواہ ] ہے جو اس کی شہادت کی گواہی دیتا ہے اور وہ ہے خون کیونکہ قیامت کے دن شہید جب اٹھے گا تو اس کی رگوں میں سے خون بہہ رہا ہوگا۔
شہید کے فضائل اور مقامات :۔
شہداءزندہ ہیں اللہ تعالی کا فرمان ہے : ترجمہ ” اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں ان کے بارے میں یہ نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تمھیں خبر نہیں “ ۔ دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے : ترجمہ ” جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ان کو مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ تو زندہ ہیں اپنے پروردگار کے مقرب ہیں کھاتے پیتے ہیں وہ خوش ہیں اس چیز سے جو ان کو اللہ تعالی نے اپنے فضل سے عطاءفرمائی اور جو لوگ ان کے پاس نہیں پہنچے ان سے پیچھے رہ گئے ہیں ان کی بھی اس حالت پر وہ خوش ہوتے ہیں کہ ان پر بھی کسی طرح کا خوف واقع ہونے والا نہیں اور نہ وہ مغموم ہوں گے وہ خوش ہوتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل سے اور اس بات سے کہ اللہ تعالی ایمان والوں کا اجر ضائع نہیں فرماتا “۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : شہداء جنت کے دروازے پر دریا کے کنارے ایک محل میں رہتے ہیں اور ان کے لیے صبح شام جنت سے رزق لایا جاتا ہے۔ (مسنداحمد) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب بندے قیامت کے دن حساب کتاب کے لیے کھڑے ہوں گے تو کچھ لوگ اپنی تلواریں گردنوں پر اٹھائے ہوئے آئیں گے ان سے خون بہہ رہا ہوگا وہ جنت کے دروازوں پر چڑھ دوڑیں گے پوچھا جائے گا یہ کون ہیں۔ جواب ملے گا یہ شہداءہیں جو زندہ تھے اور انہیں روزی ملتی تھی۔ ( الطبرانی)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم احد کے دن حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ پر کھڑے ہوئے تھے اور حضرت مصعب زمین پر شہید پڑے تھے اس دن انہی کے ہاتھ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی : ترجمہ ” ایمان والوں میں کچھ مرد ایسے ہیں کہ انہوں نے جس بات کا اللہ سے عہد کیاتھا اسے سچ کر دکھلایا پھر بعض تو ان میں سے وہ ہیں جنہوں نے اپنا ذمہ پورا کر لیا اور بعض ان میں سے ( اللہ کی راستے میں جان قربان کرنے کے لیے ) راہ دیکھ رہے ہیں اور وہ ذرہ (برابر ) نہیں بدلے “ ۔ بے شک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمھارے لیے گواہی دیتے ہیں کہ تم قیامت کے دن اللہ کے سامنے شہداء میں سے ہو پھر آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے لوگوں تم ان کے پاس آیا کرو ان کی زیارت کیا کرو ان کو سلام کیا کرو قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے قیامت کے دن تک جو بھی انہیں سلام کہے گا یہ اسے جواب دیں گے۔ ( کتاب الجہاد )
شہداء کی زندگی :۔
علامہ قرطبی اور اکثر علماءکرام فرماتے ہیں کہ شہداءکی حیات یقینی چیز ہے اور بلا شبہہ وہ جنت میں زندہ ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے خبر دی ہے اور ان کی موت بھی ہو چکی ہے اور ان کے جسم مٹی میں ہیں اور ان کی روحیں دوسرے ایمان والوں کی ارواح کی طرح زندہ ہیں البتہ شہداءکو یہ فضیلت حاصل ہے کہ ان کے لیے شہادت کے وقت سے جنت کی روزی جاری کر دی جاتی ہے تو گویا کہ ان کے لیے ان کی دنیوی زندگی جاری ہے اور وہ ختم نہیں ہوئی۔
علماءکی ایک جماعت کا فرمانا ہے کہ قبروں میں شہداءکرام کی ارواح ان کے جسموں میں لوٹا دی جاتی ہیں اور وہ عیش و آرام کے مزے کرتے ہیں جیسا کہ کافروں کو ان کی قبروں میں زندہ کر کے عذاب دیا جاتا ہے۔ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ان کی روحیں سبز پرندوں میں ڈال دی جاتی ہیں اور وہ جنت میں رہتے ہیں اور وہ کھاتے پیتے اور عیش کرتے ہیں۔ قرطبی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قول قرار دیا ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کے لیے ہر سال ایک جہاد کا اجر لکھا جاتا ہے اور وہ اپنے بعد قیامت کے دن تک کے جہاد میں شریک رہتے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ ان کی روحیں عرش کے نیچے قیامت تک رکوع سجدے میں مشغول رہتی ہیں جیساکہ ان زندہ مسلمانوں کی روحیں جو باوضو سوتے ہیں۔ ( 6 ) ایک قول یہ ہے کہ ان کے جسم قبر میں خراب نہیں ہوتے اور انہیں زمین نہیں کھاتی یہی ان کی زندگی ہے۔مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک [واللہ اعلم ]
شہداءکی حیات کا مطلب یہ ہے کہ شہداءکو ایک طرح کی جسمانی زندگی بھی حاصل ہوتی ہے جو دوسرے مردوں کی زندگی سے زیادہ ممتاز ہوتی ہے اور ان کی ارواح کو بھی اللہ کے ہاں مختلف مقامات حاصل ہوتے ہیں یعنی ان کی روحوں کا تعلق ان کے جسموں سے بھی رہتا ہے اور ان کی ارواح کو اللہ تعالی کے ہاں بھی مختلف مقامات ملتے ہں ان میں سے بعض کی ارواح سبز پرندوں میں ہوتی ہیں اور وہ جنت میں کھاتے پیتے ہیں اور عرش کے سائے میں بنی ہوئی قندیلوں میں بیٹھتے ہیں اور ان میں سے کچھ جنت کے دروازے کے پاس دریا کے کنارے والے محل میں ہوتے ہیں اور جنت سے صبح اور شام ان کی روزی آتی ہے اور کچھ ان میں سے فرشتوں کے ساتھ جنت میں اور آسمانوں میں اڑتے پھرتے ہیں اور کچھ ان میں سے جنت کی اونچی مسہریوں پر ہوتے ہیں۔
ان کے مقامات کا یہ فرق دنیامیں ان کے ایمان اخلاص اور جان دینے کے جذبے کے فرق کی وجہ سے ہوگا شہادت سے پہلے جس کا ایمان و اسلام میں جتنا بلند مقام ہوگا شہادت کے بعد اللہ کے ہاں اس کا اتنا بلند مقام ہوگا ۔