انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اسرائیلی جیلوں میں سینکڑوں فلسطینی نوجوان اور خواتین قید ہیں جنہیں بغیر کسی جرم کے قید کرلیا گیا ہے اور انہیں بنیادی سہولیات تک فراہم نہیں کی جاتی ہیں۔
رملہ: فلسطین کے غرب اردن کے علاقے رملہ سے تعلق رکھنے والی نو ماہ کی حاملہ ایک خاتون قیدی انہار الدیک نے اسرائیلی دیمون جیل سے اپنے اہل خانہ کو ایک دردناک پیغام بھیجا ہے۔ انہوں نے اپنے اس پیغام میں اپنی شدید تکالیف کا ذکر کیا ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیلی جیلوں میں درجنوں خواتین قید ہیں جنہیں بنیادی سہولیات تک فراہم نہیں کی جاتی ہیں۔
اس کے اہل خانہ کی طرف سے شائع کردہ ایک خط میں قیدی انہار الدیک نے اسرائیلی جیل کے اندر اپنے درد اور خوف کا اظہار کیا۔اس نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ میں جولیا کو غیر فطری انداز میں یاد کرتی ہوں۔میرے دل اس کے لیے بہت روتا ہے۔میں نے اسے گلے لگایا اور اسے اپنے دل سے تھام لیا۔ میرے دل میں درد کو لکیروں میں نہیں لکھا جا سکتا۔اس نے کہا کہ میں کیا کروں اگر میں آپ سے بہت دور زچی کے عمل سے گذروں اور میں بچے کو جنم دیتے وقت تکلیف سے گذروں توآپ کیا کریں گے۔
آپ جانتے ہیں کہ سیزیرین ڈیلیوری کیا ہے؟۔الدیک نے دعا کی کہ اے رب میں تیری رحمت کے لیے ترس رہی ہوں۔ میں بہت تھکی ہوئی ہوں اور مجھے ’فرش‘ پر سونے کے نتیجے میں کمر میں شدید درد ہے۔ میں نہیں جانتی۔ میں آپریشن کے بعد اس پر کس طرح سو سکوں گی۔
اس نے درد بھرے الفاظ میں کہا کہ میں آپریشن کے بعد اپنے پہلے قدم کیسے اٹھاؤں گی اور وارڈن کس طرح نفرت میں رکھتا ہے۔ قیدی الدیک کے مطابق وہ مجھے اور میرے بیٹے کو تنہائی میں نہیں ڈالنا چاہتے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے میرا دل صدمے سے دوچار ہے۔اس نے مزید کہا کہ میں نہیں جانتی کہ میں کس طرح اس پر اپنا ذہن پھیروں گی اور اسے ان کی خوفناک آوازوں سے بچاؤں گی جب اس کی ماں مضبوط نہیں ہوگی وہ اس کے سامنے کمزور ہو جائے گی۔
خیال رہے کہ مارچ 2020 میں اسرائیلی فوج نے انہار الدیک کو گرفتار کیا جو اس کے حمل کے آغاز کے دن تھے۔ اسرائیلی زندانوں میں قید کاٹنے والی وہ تنہا نہیں بلکہ اسرائیلی دشمن کی قید میں فلسطینی خواتین قیدیوں کی تعداد چالیس سے زیادہ ہے۔