ملک بھر میں ایسا لگتا ہے کہ ایک منظم منصوبہ کے تحت فرقہ واریت کے جنون کو تھمنے کا موقع نہیں دیا جارہا ہے ایک واقعے کے بعد دوسرے واقعے کا سلسلہ چل پڑا ہے۔
چند دن پہلے اترپردیش میں مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنائے جانے کے بعد اندور میں ایک چوڑی فروش کو پیٹا جاتا ہے اس کی رقم اور سامان چھین لیا جاتا ہے۔ اور ایک دن بعد اجمیر میں ایک مسلم فقیر کو تشدد کا نشانہ بنایاجاتا ہے اور اس کو پاکستان چلے جاؤ کہا جاتا ہے۔
اس طرح کے واقعات ملک میں پیش آتے جارہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے مقامی انتظامیہ اور حکومتیں سنجیدہ نہیں ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ انتظامیہ اور حکومتیں چاہتی ہیں کہ ایسے واقعات ہوتے رہیں۔ اور سماج میں فرقہ پرستی کا زہر گھلتا رہے۔ اسی طریقے سے سیاسی عزائم اور منصوبوں کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ عوام کے درمیان ان کے مسائل پر بات کرنے اور حکومتوں کی کارکردگی پیش کرنے کے لئے تو کوئی تیار نہیں ہے۔ ایسے میں صرف فرقہ پرستی کی آگ بھڑکاتے ہوئے سیاسی رویاں سینکی جارہی ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ذمہ داران کی جانب سے ایسے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق سخت ترین کاروائی کرنے کی بجائے حملہ آوروں اور جنونیت پسندوں کے حق میں جواز پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ حکام اور انتظامیہ کی متعصب ذہنیت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
جہاں تک اس طرح کے واقعات کے سلسلہ میں پولیس کا سوال ہے وہ بھی متاثرہ شخص کی مدد کرنے کے بجائے حملہ آوروں کو بچانے کی زیادہ کوشش کرتی ہے۔
متاثرہ شخص کے خلاف من مانے مقدمات درج کیے جاتے ہیں اور حملہ آوروں کی آو بھگت کی جاتی ہے۔ پولیس بھی اپنے سیاسی آقاؤں کے اشاروں پر اور اپنی متعصب ذہنیت کے ساتھ کام کرنے کی عادی ہوچکی ہے۔
ملک بھر میں سینکڑوں مسلم افراد ہجومی تشدد کا شکار ہوکر اپنی قیمتی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ جبکہ بے شمار مسلم نوجوانوں کو مختلف طریقوں اور بہانوں کو تشدد کا شکار بنایا جاتا ہے۔