قومی دار الحکومت دہلی میں شہریت ترمیمی قانون مخالف احتجاجی مظاہرہ کے دوران تقریر کرنے پر جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طالب علم شرجیل امام کو ‘یو اے پی اے’ قانون کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔
دہلی کے شمال مشرقی علاقے میں فرقہ وارانہ فسادات کے سلسلے میں یو اے پی اے مقدمے میں ضمانت کے لیے بحث کرتے ہوئے، جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طالب علم شرجیل امام نے عدالت کو بتایا کہ ’’تنقید کے بغیر معاشرہ زندہ نہیں رہتا اور بھیڑ بکریوں کے ریوڑ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔‘‘
ایڈووکیٹ تنویر احمد میر نے عدالت سے کہا کہ ان کی تقریر میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو ’’براہ راست یا بالواسطہ طور پر تشدد پر زور دیتی ہے۔‘‘ وہ ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت کے سامنے ضمانت کی سماعت میں دلائل پیش کررہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ شرجیل محض طلباء کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کررہے تھے۔ ’’کون سا معاشرہ ہے جو ردعمل ظاہر نہیں کرتا ہے۔‘‘میر نے عدالت کو بتایا کہ پراسیکیوشن کے مطابق ’’شرجیل امام جیل میں اس لیے رکھا جانا چاہیے کہ انہوں نے یہ تقریر کی- سڑکیں بند کرو، چکا جام کرو اور ریل روکو آندولن کرو تاکہ لوگ سفر نہ کرسکیں، جو سراسر غلط ہے۔‘‘
’’میں تفتیشی افسر کو صرف اس لیے متعصب کہتا دیکھ کر حیران ہوا کہ وہ آئین ہند پر تنقید کرتا نظر آتا ہے، ہمیں اپنے اتحاد پر فخر ہے نہ کہ اکثریت پر۔ ہمارے معاشرے میں تنقیدی عناصر بھی ضروری ہیں کیونکہ جس معاشرے میں تنقید ختم ہوگی وہ معاشرہ مرجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بالآخر جمہوریت میں آئین کو بر قرار رکھنے کا جھنڈا آپ کے اعزاز میں محفوظ ہے۔‘‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’’جب شرجیل کہتے ہیں کہ CAA غیر آئینی ہے، ایک طبقہ کے خلاف تعصب پر مبنی ہے اور حکومت کو دوبارہ غور کرنے پر آمادہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر اس نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی نہیں کی تو ہم سڑکوں پر ہوں گے، کیا یہ آئین کے خلاف ہے؟‘‘
میر نے عدالت کو بتایا ’’بنیادی طور پر احتجاج کرنے کا حق، ملک کو تعطل کا شکار کرنا کسی بھی وقت بغاوت کے مترادف نہیں ہے۔ درخواست گزار نے کسی بھی وقت یہ نہیں کہا کہ آپ کو تشدد کا سہارا لینا چاہیے۔ قانون کے طے شدہ اصول کے لحاظ سے تقریر کو مکمل طور پر دیکھنا ہوگا۔ ‘‘
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ’’تفتیشی حکام آئینی مینڈیٹ کی پیروی کرتے ہوئے اپنی قانونی، اخلاقی یا دیگر ذمہ داریوں سے دستبردار نہیں ہوسکتے۔‘‘
جج راوت نے کہا کہ ہر تقریر کا ایک نقطۂ نظر ہوتا ہے۔ ’’…لیکن کیا اس سے کوئی فرق پڑے گا اگر تقریر عوامی، ہال یا نجی طور پر کی جائے؟ کیا ان عوامل سے کوئی فرق پڑے گا؟‘‘ جس پر میر نے کہا کہ ’’غداری کے الزام کو مناسب طریقے سے لاگو کرنا ہوگا۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی تقریر جو تشدد کو ہوا دیتی ہے بند دروازوں کے پیچھے دی جاتی ہے اور پھر اسے عوامی ڈومین پر شیئر کیا جاتا ہے تو یہ یقینی طور پر فرد جرم کا باعث بنے گی۔‘‘
جج نے پوچھا: ’’کیا اگر آپ کسی ہجوم سے مخاطب ہورہے ہیں تو کیا اس سے کوئی فرق پڑے گا، وہ لوگ جو آپ کی طرح فکری طور پر درست نہیں ہیں؟ میر نے عدالت کو بتایا کہ ’’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور انہیں دیکھنا ہوگا کہ تقریر کہاں کی گئی۔‘‘
میر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’’ہر کسی کو آئین کے کسی بھی حصے کو تنقید کا نشانہ بنانے یا اس کی حمایت کرنے کی بنیادی آزادی حاصل ہے۔ اس ملک میں بہادر مردوں کو غداری کا نشانہ نہیں بنایا جائے۔ یہی ہمارا فرض ہے، شرجیل امام کا نقطۂ نظر مخالف نہیں ہے۔‘‘اب پراسیکیوشن یکم اور دو ستمبر کو شرجیل امام کے دلائل پر اپنا نقطۂ نظر بیان کرے گا۔
( بشکریہ ای ٹی وی بھارت)