ملک بھر میں طالبان کی حمایت میں بیان دینے پر مقدمات درج کیے جارہے ہیں، اس ضمن میں عوام سے اپیل کی گئی ہے وہ طالبان کے بارے میں ابھی کچھ بھی کہنے سے گریز ہی کریں۔
آسام پولیس کے ترجمان کے مطابق ہفتہ کے روز پولیس نے افغانستان کی تازہ ترین صورتحال اور طالبان کی حمایت میں سوشل میڈیا میں پوسٹ ڈالنے کے الزام میں 14 افراد کو گرفتار کیا ہے۔
گرفتار شدہ افراد میں مولانا فیضل کریم، ابوبکر صدیق، سعد الحق، جاوید مجوندار، مجید الاسلام، فاروق حسین خان، سید احمد، ارمان حسین، ندیم اختر، کھنداکر نور عالم، مولانا یاسمین خان، مولانا بشیرالدین لشکر، مجیب الدین اور مرتضٰی حسین خان شامل ہیں۔
آسام پولیس نے طالبان کی سرگرمیوں سے متعلق سوشل میڈیا پوسٹ کرنے کے الزام میں 14 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ حالانکہ آسام اسپیشل ڈائریکٹر پولیس کی جانب سے لوگوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ افغانستان کی تازہ ترین صورتحال پر سوشل میڈیا میں کچھ پوسٹ کرنے سے احتیاط برتیں۔
آسام پولیس کے ایک سینیئر عہدیدار نے کہا کہ’ ہم سوشل میڈیا پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہم افغانستان کی تازہ ترین صورت حال پر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے والے افراد کے خلاف سخت کارروائی کریں گے، اگر ان کے پوسٹ قومی سلامتی کے خلاف پائے گئے تو ان کے خلاف جرائم کے کیس درج کیے جائیں گے۔
واضح رہے کہ ریاست اتر پردیش کے ضلع سنبھل سے سماجوادی پارٹی کے رکن پارلیمان شفیق الرحمٰن برق پر طالبان کی حمایت میں بیان دینے پر وطن سے غداری کا کیس درج کیا گیا ہے۔ مشہور و معروف شاعر منور رانا کے خلاف بھی طالبان کی حمایت میں بیان دینے پر مقدمہ درج کیا گیا۔ ان کے علاوہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی صاحب کے خلاف بھی طالبان کی حمایت میں بیان دینے پر دہلی میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
جمعیت علماء ہند کے قومی صدر مولانا سید ارشد مدنی نے فرمایا کہ اگر طالبان افغانستان میں حکومت بنانے کے بعد تمام لوگوں کے ساتھ منصفانہ اور مساوی سلوک روا رکھتے ہیں تو پھر دنیا ان کی ستائش کرے گی اور ہم بھی ان کی ستائش کریں گے، لیکن یہ سب مستقبل ہی طے کرے گا کہ طالبان صحیح ہیں یا غلط، ابھی سے ان کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ اسی طرح مختلف علماء کرام نے عوام سے اپیل کی ہے وہ ابھی طالبان کے بارے میں کچھ بھی کہنے یا سوشل میڈیا پر پوسٹ ڈالنے سے گریز ہی کریں۔